حضرت مولانا علاء الدین نور اللہ مرقدہ کی وفات کی خبر ہمیں دہلی میں ملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم لوگ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ تعالیٰ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ اسی جگہ مجھے وفد میں شامل مولانا حافظ عبد القیوم نعمانی نے بتایا کہ استاذ علاء الدین صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، انہیں ٹیلی فون رابطہ کے ذریعہ یہ خبر ملی تھی۔ خبر سن کر سب احباب غم زدہ ہوگئے اور زبانوں سے بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا۔
حضرت مولانا علاء الدینؒ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے۔ سو سال کے لگ بھگ عمر پائی ہے اور ساری زندگی دینی علوم کی تعلیم و تدریس میں گزاری ہے۔ ۱۹۳۷ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث کر کے فراغت حاصل کی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے، ان کے بھائی حضرت مولانا سراج الدینؒ بھی دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں سے تھے۔ دونوں بھائیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں مدرسہ نعمانیہ کی بنیاد رکھی جو ہمیشہ دینی تحریکات اور مسلکی و جماعتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے سلسلہ میں جب تک میرا آنا جانا ڈیرہ اسماعیل خان میں رہا، مدرسہ نعمانیہ ہی میری سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر ہوتا تھا اور دونوں بزرگوں کی شفقتوں سے فیض یاب ہوتا تھا۔ دارالعلوم نعمانیہ کے سالانہ اجتماعات میں سالہا سال تک حاضری اور گفتگو کا موقع حاصل ہوتا رہا۔ مولانا علاء الدین جمعیۃ علماء اسلام کے سینئر راہ نماؤں میں سے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کے قریبی ساتھیوں اور اصحاب مشاورت میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تجربہ کار اور کہنہ مشق استاذ تھے۔ ان کے ہزاروں شاگرد مختلف ممالک میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ قومی اور مسلکی مسائل میں ان کی رائے جچی تلی اور دو ٹوک ہوتی تھی اور ہمیشہ ان سے صحیح سمت راہ نمائی ملتی تھی۔
ان کی وفات بلاشبہ اہل علم و دین کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے جبکہ میرے لیے تو یہ ذاتی صدمہ بھی ہے کہ وہ میرے چند دعا گو بزرگوں میں سے تھے۔ ہمیشہ دعاؤں سے نوازتے اور حوصلہ افزائی کے انداز میں تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور برادرم مولانا اشرف علی سمیت تمام پسماندگان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے عظیم بزرگ کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔