ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ پر بحث و مباحثہ نے جو صورتحال اختیار کر لی ہے اس کے بہت سے پہلو سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں اور ارباب فکر و دانش کو اس سلسلہ میں بہرحال اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
یہ قانون ۲۰۱۸ء کے دوران قومی اسمبلی اور سینٹ میں منظور ہوا تھا اور اس وقت سے ملک میں نافذ العمل ہے، اس کا عنوان خواجہ سرا اور اس نوعیت کے دیگر افراد کے حقوق کا تحفظ ہے، مگر اس کی جو تفصیلات دھیرے دھیرے سامنے آرہی ہیں ان پر خود خواجہ سرا بھی چیخ اٹھے ہیں اور گذشتہ دنوں خواجہ سراؤں نے ایک عوامی مظاہرہ کے دوران اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ ان کے نام پر ملک میں جو فضا بنائی جا رہی ہے، بالخصوص مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی اقدار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیچھے ایسے افراد کو چھپنے نہیں دیں گے جو اسلامی احکام و تعلیمات کے خلاف ماحول بنانا چاہتے ہیں۔
خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور تعداد میں کتنے ہی کیوں نہ ہوں وہ ملک کے شہری ہیں، ان میں بہت سے مسلمان ہیں اور خواجہ سرا سب کے سب ملک کے دیگر شہریوں کی طرح حقوق و تحفظ کے برابر حقدار ہیں، مگر وہ کوئی الگ جنس نہیں ہیں بلکہ نابینا، گونگے اور بہرے افراد کی طرح معذور لوگوں میں شمار ہیں۔ انہیں ایک معذور طبقہ کے طور پر ان کے حقوق و مفادات کی بات ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے، مگر انہیں مرد اور عورت سے الگ جنس قرار دے کر بلکہ ان کے ساتھ ایک دو مزید جنسوں کا اضافہ کر کے اس قانون میں معاشرتی خلفشار اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے کی جو کوشش کی گئی ہے اسے کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
جبکہ اس قانون میں ہر شہری کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جسمانی کیفیت کچھ بھی ہونے کے باوجود خود کو مرد یا عورت یا ان سے ماورا کوئی جنس قرار دے کر نادرا کو اس حیثیت سے اپنی رجسٹریشن کی درخواست دے سکتا ہے، اور نادرا اس بات کی پابند ہے کہ وہ درخواست کے مطابق کسی انکوائری یا چیک اپ کے بغیر رجسٹرڈ کر کے اس کو شناختی کارڈ جاری کرے۔ اس سے دینی و قانونی حلقوں میں جو سوالات کھڑے ہوئے ہیں ان میں
- ایک تو یہ ہے کہ اس طرح خواجہ سراؤں کو مرد اور عورت سے الگ ایک جنس قرار دیا گیا ہے جس کی شرعاً اور قانوناً گنجائش نہیں ہے۔
- دوسرا یہ کہ کوئی مرد اس قانون کے مطابق خود کو عورت رجسٹرڈ کروا کر عورت کا شناختی کارڈ حاصل کر لے اور پھر کسی مرد سے شادی کر لے تو اس قانون کی رو سے وہ شادی جائز ہوگی جو ہم جنس پرستی کی بدترین شکل ہوگی، جس کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے اور اسے صراحتاً حرام کاری قرار دیا ہے۔
- جبکہ تیسرا سوال یہ سامنے آیا ہے کہ کوئی عورت خود کو مرد کے طور پر رجسٹرڈ کروا کے اس کے مطابق شناختی کارڈ حاصل کر لے تو وہ وراثت میں جس حصہ کی حقدار قرار پائے گی وہ قرآن کریم کے صریح حکم کے خلاف ہوگا۔
اس کے علاوہ اور بھی تحفظات ہیں جن کا دینی و قانونی حلقوں کی طرف سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ قانون جب تمام دینی حلقوں کے نزدیک قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے تو دستور پاکستان کے بھی منافی ہے کیونکہ دستور میں صراحتاً اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا۔
چنانچہ ملک بھر میں اس قانون کی منسوخی اور اس کے متبادل قرآن و سنت کے مطابق قانون نافذ کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے جس کا وفاقی حکومت نے نوٹس لیا ہے اور گذشتہ دنوں وفاقی وزیر قانون کے ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ قانون پر نظرثانی ہو رہی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان میں جماعت اسلامی کے سنیٹر جناب مشتاق احمد نے اس سلسلہ میں ایک ترمیمی بل پیش کر رکھا ہے، اور جمعیۃ علماء اسلام کے سنیٹر مولانا عطاء الرحمن نے اس قانون کی منسوخی اور متبادل قانون لانے کی قرار داد جمع کرادی ہے۔
تمام دینی مکاتبِ فکر کے مشترکہ علمی فورم ملّی مجلس شرعی پاکستان نے گذشتہ دنوں لاہور میں راقم الحروف کی زیر صدارت ایک مشترکہ اجلاس میں اس قرارداد اور ترمیمی بل کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ملک بھر کے تمام مکاتب فکر اور طبقات سے اپیل کی ہے تاکہ وہ ان کی حمایت میں بھرپور آواز اٹھائیں۔ جبکہ پاکستان شریعت کونسل لاہور کے زیر اہتمام چوبیس ستمبر کو آسٹریلیا مسجد لاہور میں بزرگ عالم دین مولانا عبد الرؤف ملک کی زیر صدارت منعقدہ ’’علماء سیمینار ‘‘میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور دینی قیادتوں کو اعتماد میں لے کر اس قانون کو قرآن سنت اور دستور کے مطابق بنانے کے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس کے علاوہ اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں بھی چیلنج کیا جا چکا ہے۔
ان حالات میں ملک کے تمام دینی حلقوں و مراکز، وکلاء، تاجر حضرات، ڈاکٹر صاحبان اور دیگر تمام طبقات کے راہنماؤں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام اور دینی و تہذیبی اقدار و روایات کے تحفظ کی اس جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ رہیں بلکہ اسے اپنا دینی و قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہو کر مؤثر کردار ادا کریں تاکہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین، دستور کی پاسداری اور مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں اپنا فریضہ صحیح طور پر سرانجام دے سکیں۔