دینی جدوجہد کے لیے متفقہ ۸ نکات

   
تاریخ : 
۲۷ نومبر ۲۰۱۴ء

حضرت مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کے ارشاد پر رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے ۲۴ نومبر کو ملتان کے سفر پر روانہ ہو چکا تھا، خیال تھا کہ لاہور میں دو تین کام بھگتا کر شام کو ملتان چلا جاؤں گا۔ ظہر کے بعد مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، حافظ نصیر احمد احرار اور حافظ محمد قاسم کے ساتھ ایک محفل میں مصروف گفتگو تھا کہ راولپنڈی سے میرے برادر نسبتی اور عزیزم عمار ناصر کے ماموں حافظ عبد الحمید کے بیٹے عبد السلام نے فون پر خبر دی کہ ’’پھوپھا جی! اللہ تعالٰی نے اپنی امانت واپس لے لی ہے، ابو تھوڑی دیر قبل فوت ہوگئے ہیں۔‘‘ انا للہ و انا الیہ راجعون، وہ کافی عرصہ سے مختلف امراض کے باعث صاحب فراش تھے، ابھی تین روز قبل راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا تھا، اس وقت بھی حالت تشویش سے خالی نہیں تھی، اب اس خبر نے تشویش کو غم و صدمہ سے بدل دیا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کریں، اللہ تعالٰی انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ جنازہ و تدفین کے بارے میں اطلاع ملی کہ اگلے روز صبح ۹ بجے ان کے آبائی قصبہ گلیانہ تحصیل کھاریاں میں ہوگی اس لیے ملتان کے سفر کا ارادہ ترک کر کے میں رات گلیانہ پہنچ گیا۔

’’رابطہ کمیٹی‘‘ نے اپنے کام کے آغاز کے لیے کیا حکمت عملی طے کی ہے، وہ اس کی طرف سے جاری کردہ خبر سے معلوم ہو جائے گی۔ البتہ علمائے دیوبند کی جماعتوں، حلقوں اور مراکز کے درمیان رابطہ و اشتراک عمل کے لیے ۱۸ نومبر کو اسلام آباد میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم کی سربراہی میں سپریم کونسل اور حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد سے ملک بھر سے احباب مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ یہ تو بہت اچھا ہوگیا ہے اور ہمیں اس کا شدت سے انتظار تھا مگر اب کرنا کیا ہے اور خاص طور پر علاقائی اور مقامی سطح پر علماء کرام اور کارکنوں کو کس انداز سے کام کرنا چاہیے؟ اس کے بارے میں دو تین گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایک یہ کہ اسلام آباد کے اجتماع میں مشترکہ جدوجہد کے لیے جو اہداف طے پائے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔ یہ رسمی امور نہیں ہیں بلکہ طویل مشاورت اور غور و خوض کے بعد ان کا تعین کیا گیا ہے۔ ان سے ہر ایک کو واقف ہونا اور ان کے مطابق اپنے منتشر فکر و عمل کو مجتمع کرنا ضروری ہے۔ یہ بات اس لیے بھی عرض کر رہا ہوں کہ چند سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں دیوبندی جماعتوں اور مراکز کا اس سے بڑا اور بھرپور نمائندہ اجتماع ہوا تھا اور کئی نشستوں کے مباحثے اور غور و خوض کے بعد ایک اعلامیہ متفقہ طور پر طے پایا تھا جسے ملک بھر میں ایک ’’متوازن اور جامع اعلامیہ‘‘ کے طور پر سراہا گیا تھا مگر اس کی ایک بار اشاعت کے بعد ہم اسے بھول ہی گئے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارے بیشتر دینی جرائد نے بھی اس کی اشاعت کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے اس بھرپور اجتماع کے ثمرات و فوائد دیرپا ثابت نہیں ہوئے۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ تبلیغی جماعت کے چھ نمبروں کی طرح ان آٹھ نکات کی بھی بار بار اور ہر سطح پر تشہیر کی جائے اور ہر ایک کو ذہن نشین کرا دیا جائے کہ اس کی آئندہ جدوجہد کا دائرہ یہ آٹھ نکات ہیں۔

  1. پاکستان کے اسلامی تشخص کا تحفظ اور اسلامی نظام کا نفاذ۔
  2. قومی خودمختاری اور ملکی سالمیت و وحدت کا تحفظ، امریکہ اور دیگر طاغوتی قوتوں کے سیاسی اور معاشی غلبہ و تسلط سے نجات۔
  3. ۱۹۷۳ء کے دستور بالخصوص اسلامی دفعات کی عملداری۔
  4. تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قوانین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کی جدوجہد۔
  5. مقام اہل بیت عظام و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تحفظ۔
  6. قومی تعلیمی نصاب میں غیر ملکی (خلاف شریعت) کلچر کے فروغ کی مذمت اور روک تھام۔
  7. فحاشی و عریانی اور مغربی کلچر کے فروغ کی مذمت اور روک تھام۔
  8. ملک میں فرقہ وارانہ نفرت انگیزی بالخصوص سنی شیعہ اختلافات کو فسادات کی صورت اختیار کرنے سے روکنا۔

ہمارے خیال میں سپریم کونسل میں شامل جماعتوں کے نام، ان کے سربراہوں کے اسماء گرامی، رابطہ کمیٹی کے ارکان کے نام اور مذکورہ بالا آٹھ نکات ایک پمفلٹ کی شکل میں شائع کر کے اس کی ملک بھر میں ہر سطح پر تشہیر کی جائے اور تمام دینی جرائد اسے شائع کر دیں تو یہ مقصد کسی حد تک پورا ہو سکتا ہے۔

دوسرے نمبر پر میں محترم حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کے اس ارشاد کا اپنے مکمل اتفاق کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مذکورہ بالا آٹھ نکات مسلکی سے کہیں زیادہ قومی اور ملی مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے لیے قومی سطح پر جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے دیگر مکاتب فکر کو اعتماد میں لینا اور انہیں ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے۔ ہماری اب تک کی جدوجہد اپنے گھر کی اصلاح اور داخلی صف بندی کو درست کرنے کے لیے ہے تاکہ ہم پورے اعتماد، حوصلہ اور باہمی اتفاق کے ساتھ دوسرے مکاتب فکر سے بات کر سکیں اور مضبوط بنیادوں پر قومی جدوجہد کا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں اور اس کام میں جس قدر جلد پیشرفت ہو سکے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

تیسرے نمبر پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سپریم کونسل تو جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ہے جو سال میں ایک دو بار ہی مجتمع ہو سکے گی۔ عملی طور پر سارا کام رابطہ کمیٹی کو کرنا ہے، اس لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان اپنی ذمہ داری کو زیادہ اہمیت کے ساتھ محسوس کریں اور ملک بھر کے احباب کو مایوس ہونے سے بچائیں وہاں تمام دینی و سیاسی جماعتوں، علمی مراکز، مسلکی حلقوں، علماء کرام اور کارکنوں کو بھی چاہیے کہ وہ رابطہ کمیٹی کو بھرپور اعتماد اور تعاون فراہم کریں، اور رابطہ کمیٹی جو لائحہ عمل طے کرے اس کے مطابق جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے ہر سطح پر محنت کریں تاکہ ہم سب مل کر اپنے ملی، دینی اور مسلکی فرائض کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter