ملکۂ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے سلمان رشدی کو نائٹ ہڈ (سر) کا خطاب دے کر مسلمانوں کے پرانے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے اور اس پر عالم اسلام میں احتجاج کی ایک نئی لہر شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکۂ برطانیہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک ایک انتہائی قابل نفرت شخص کو اس اعزاز کے لیے کس بنیاد پر چنا ہے اس کی باقاعدہ وضاحت تو وہی کر سکتی ہیں لیکن ایک عام مسلمان کا دنیا کے کسی بھی خطے میں تاثر یہی ہے کہ اس سے سلمان رشدی کی ان خرافات کی ملکۂ برطانیہ کی طرف سے تائید جھلکتی ہے جن کے ذریعے اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کے خلاف خبثِ باطن کا اظہار کیا تھا اور جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا شدید احتجاج اور غیظ و غضب ریکارڈ پر ہے۔ خود لندن کی تاریخ میں مسلمانوں کے اس قدر بھرپور مظاہرے اور کسی حوالے سے کبھی سامنے نہیں آئے جس طرح مسلمانانِ برطانیہ نے لندن اور دیگر برطانوی شہروں کی سڑکوں پر آ کر سلمان رشدی کے خلاف اپنے ایمان اور جذبات کا اظہار کیا تھا۔
مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ سلمان رشدی کی اس حرکت کا نوٹس لیا جائے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ایک جلیل القدر پیغمبر کی شان اقدس میں گستاخی کے الزام میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن حکومت برطانیہ نے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو منظور کرنے کی بجائے سلمان رشدی کو سرکاری طور پر تحفظ فراہم کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ سلمان رشدی کو تحفظ فراہم کر کے دراصل ’’آزادیٔ رائے‘‘ کے حق کا تحفظ کر رہی ہے۔ مسلمانوں نے برطانوی حکومت کا یہ موقف کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کا موقف مسلسل یہی چلا آ رہا ہے کہ آزادیٔ رائے کا مطلب کسی قوم کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور اللہ تعالیٰ کے مقدس رسولوں کی شان میں گستاخی کرنا نہیں ہے۔ چنانچہ جب اس سے کئی سال بعد ناروے، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے اخبارات نے ’’آزادیٔ رائے‘‘ کی آڑ میں جناب نبی اکرمؐ کے گستاخانہ کارٹون چھاپے تو دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گئے اور عامر عبد الرحمان شہیدؒ کی شہادت مسلمانوں کے ان جذبات کی علامت کی صورت اختیار کر گئی۔ اس طرح مسلمانوں نے مغرب کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مقدس مذہبی شخصیات کی توہین اور ان کا مذاق اڑانا آزادیٔ رائے کے زمرے میں آتا ہے۔
سلمان رشدی نے اپنی بے ہودہ کتاب ’’سٹینک ورسز‘‘ (شیطانی آیات) میں جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اور رسول اکرمؐ کے پاکباز ساتھیوں کے حوالے سے جو لہجہ اختیار کیا ہے وہ کسی طرح بھی تحقیق اور ریسرچ کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس میں طنز، استہزا، تحقیر اور گستاخی کے سوا کوئی مواد شامل نہیں ہے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اس سلسلہ میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا جس میں مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی، جب میں خطاب کر رہا تھا تو ایک صاحب نے اٹھ کر سوال کیا کہ مولانا صاحب آپ اس کتاب کے خلاف شور مچانے کی بجائے اس کا جواب کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کیا کہ جواب دلیل اور منطق کا ہوتا ہے گالی کا نہیں۔ گالی کا جواب باغیرت قوموں کے ہاں صرف تھپڑ ہے اور کوئی شخص بھی گالیوں کے جواب میں دلائل پیش نہیں کیا کرتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغرب کے جن دانشوروں نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلیل سے بات کی ہے ان کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے، کتاب کے جواب میں کتاب لکھی گئی اور مقالے کے جواب میں مقالہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں بات استہزا، تحقیر اور توہین کی ہو وہاں دلیل کا کوئی کام باقی نہیں رہ جاتا۔ میں اس سلسلہ میں جنوبی ایشیا کی صورتحال کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہندو مصنفین میں سے پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ پر سینکڑوں اعتراضات کیے جو اس کتاب میں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن بات مباحثے کے انداز میں کی اور دلیل کا اسلوب اختیار کیا تو اس کے خلاف مسلمانوں نے کبھی جلوس نہیں نکالا اور اس کو مارنے کے درپے نہیں ہوئے بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اس کے مقابلے میں مباحثے اور مکالمے کے لیے کھلے میدان میں آئے مگر اسے مولانا نانوتویؒ کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ اس سلسلہ میں تفصیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے رسائل اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی باقاعدہ جواب تصنیف ’’حق پرکاش‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ اسی معاشرے میں ایک ہندو مصنف راج پال نے دلیل کے بجائے گستاخی کا لہجہ اختیار کیا اور ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کو للکارا تو اس کے جواب میں دلیل کا کوئی کردار باقی نہیں رہا تھا۔ اس کا جواب غازی علم الدین شہیدؒ ہی تھا جس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شاتم رسول کو ٹھکانے لگا دیا۔
مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ دوٹوک وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے جبکہ طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی آزادیٔ رائے کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا۔ اب ملکہ برطانیہ کے حالیہ اقدام سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کے نزدیک سر ولیم مور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ اور سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ ایک ہی زمرے کی کتابیں ہیں۔ ورنہ اگر یہ فرق ملکہ برطانیہ اور ان کے ہمنواؤں کے ذہنوں میں ہوتا تو وہ ’’شیطانی آیات‘‘ جیسی متنازعہ کتاب کے مصنف کو کسی اعزاز سے نوازنے کا تصور بھی نہ کرتیں۔ اس طرح سلمان رشدی نے مسلمانوں کے دلوں پر جو زخم لگائے تھے انہیں ملکۂ برطانیہ کی طرف سے اسے سر کا خطاب دیے جانے کے اس عمل نے پھر سے کرید ڈالا ہے۔
بات صرف اس ایک زخم کی نہیں ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت سے زخم تازہ ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین جب سلمان رشدی کے نقش قدم پر چلی تو اسے یورپی یونین نے تحفظ فراہم کیا۔ اس نے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں گستاخانہ لہجہ اختیار کیا اور بنگلہ دیش کے عوام نے حکومت سے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا جو بنگلہ دیش کے قانون کے مطابق سزائے موت سے بہت کم تھی، مگر یورپی یونین نے آزادیٔ رائے کے نام پر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ مصر کے ڈاکٹر نصر ابو زید نے اپنی تصنیفات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس دیے اور قاہرہ کے بعض وکلاء نے اسے عدالت میں گھسیٹا تو یہاں بھی آزادیٔ رائے کا مغربی تصور آڑے آیا اور وہ گستاخ رسول اب یورپی یونین کے خرچے پر یورپ کے کسی ملک میں عیش کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں گوجرانوالہ ضلع کے ایک گاؤں رتہ دوہتڑ میں گستاخیٔ رسول کا کیس ہوا اور ملزموں کو گرفتار کر کے عدالت تک پہنچایا گیا تو آزادیٔ رائے کے عنوان سے جرمنی کی حکومت متحرک ہو گئی، اس کیس کے ملزم اب جرمنی میں مزے کر رہے ہیں۔ میں نے ان زخموں میں سے چند ایک کا حوالہ دیا ہے جو سلمان رشدی کو ملکۂ برطانیہ کی طرف سے ’’نائٹ ہڈ‘‘ کا خطاب ملنے پر پھر سے تازہ ہو رہے ہیں ورنہ اگر باقاعدہ تحقیق کی جائے تو ان کی فہرست خاصی طویل ہو سکتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے وفاقی وزیر محترم شاہ محمود قریشی نے تو یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ یہ برطانیہ کا داخلی معاملہ ہے، گویا ان کے نزدیک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت اور مسلمانوں کا ایمان و غیرت بھی ’’نیشنلائزڈ‘ ہو گئے ہیں کہ ان کے حوالے سے برطانیہ میں کوئی بات ہو تو محترم قریشی صاحب کا ردعمل اور ہو گا اور اگر وہی بات خدانخواستہ پاکستان میں ہو تو پیپلز پارٹی کے رہنما اس پر اس سے مختلف ردعمل کا اظہار فرمائیں گے۔ البتہ دوسرے بہت سے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ ایمانی جذبات کے حوالے سے حوصلہ افزا ہے مگر اسے منظم اور مربوط انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جذبات کا اظہار اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ بہت اچھی بات ہے، یہ ایمان اور غیرت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کو قوت فراہم کرتا ہے اور اسے زندہ رکھتا ہے لیکن اصل ضرورت اس قوت کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ہے۔ ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ’’آزادیٔ رائے‘‘ کی حدود اور دائرے کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ سنجیدہ اور دوٹوک بات کی جائے اور آزادیٔ رائے کے نام پر اسلام، قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے اس مذموم عمل کے نقصانات سے مغرب کو باور کرانے کے لیے باقاعدہ علمی اور فکری جنگ لڑی جائے۔ ہماری نظریں اس حوالے سے عمران خان پر جا کر ٹک جاتی ہیں کہ وہ علم و دانش اور جرأت کے اوصاف سے متصف ہیں، لیکن کیا عمران خان ہماری اس گزارش پر توجہ فرما سکیں گے؟