دورِ نبویؐ کا مشہور واقعہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں مگر میرے اندر اتنے عیب ہیں اور اتنے گناہوں کا عادی ہوں کہ بیک وقت سب کو چھوڑنا میرے لیے مشکل ہے، اس لیے گناہوں کو مجھ سے باری باری چھڑوائیے۔ ایک ایک کر کے سب ترک کر دوں گا، مگر بیک وقت سب عادات سے دستبردار ہونا میرے بس میں نہیں ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم اسلام قبول کر لو اور بری عادات کو ایک ایک کر کے ترک کر دینا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹ چھوڑ دو۔ اس نے وعدہ کیا کہ آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوں گا۔
وعدہ خلوص کے ساتھ تھا اور سچے دل سے تھا اس لیے اللہ تعالی نے اس کی برکات سے اسے نوازا۔ جوا کھیلنے کا وقت آیا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر کل حاضری کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا کہ کل کون کون سا عمل کیا ہے تو کیا جواب دوں گا؟ جھوٹ تو بولنا نہیں اور سچ بتا دیا تو سب لوگوں کے سامنے شرمندگی ہو گی، اس لیے آج جوا نہیں کھیلنا ہے۔ یہی حال دوسرے گناہوں کے معاملہ میں ہوا اور وہ اس ذہنی کشمکش میں اس دن کوئی بھی برا کام نہ کر سکا۔ دوسرے روز دربارِ نبویؐ میں حاضری ہوئی تو دل و دماغ سے تردد اور تذبذب کے کانٹے صاف ہو چکے تھے، اس لیے بڑے اطمینان اور خوشی کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے سردست ایک گناہ کو چھوڑنے کا حکم دیا تھا مگر اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ساری بری عادات ایک ہی دن میں چھڑوا دی ہیں، اور میں نے کل سے اب تک کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق گناہ شمار ہوتا ہو۔
یہ سچی توبہ اور اصلاح کے راستے پر چلنے کے عزم کی برکت تھی کہ اس شاہراہ پر قدم رکھتے ہی سب مراحل آسان ہو گئے اور جن عادات و اخلاق سے مہینوں میں دستبردار ہونا دشوار دکھائی دے رہا تھا وہ ایک ہی دن میں پیچھا چھوڑ گئے۔ ہماری آج کی سب سے بڑی مشکل بھی یہی ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں، اور اگرچہ ابھی تک قرآن و سنت کو غیر مشروط طور پر سپریم لاء قرار دینے یعنی قومی سطح پر کلمہ طیبہ پڑھنے کا مرحلہ بھی عبور نہیں کر سکے، تاہم یہ جذبہ قوم میں عمومی طور پر موجود ہے کہ ہم اجتماعی حیثیت سے اسلام کے راستے پر چلیں، قرآن و سنت کی حکمرانی ہمیں نصیب ہو، اور ہم اسلام کے نظامِ عدل کی برکات سے فیضیاب ہو کر دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کر سکیں۔ مگر ہماری سوئی بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے کہ معاشرے میں چاروں طرف پھیلی ہوئی اس قدر خرابیاں بیک قوت کیسے درست ہوں گی؟ اور جن عادات و خصائل کے ہم عادی ہو چکے ہیں ان کو یکبارگی کیسے چھوڑ پائیں گے؟ ہم زبان سے نہ بھی کہیں مگر ہمارا اجتماعی طرزِ عمل اس خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ ان سب برائیوں اور عادات کے ساتھ ساتھ اسلام کی برکات بھی ہماری قومی زندگی میں شامل ہو جائیں تو کیا ہی خوب ہو ؏
اور ہمارا حال طائف سے جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہونے والے اس وفد کا سا ہو چکا ہے جو بنو ثقیف کے سردار عبدیالیلؓ کی قیادت میں طائف والوں کی شرائط لے کر نبی اکرمؐ کے حضور پیش ہوا تھا کہ ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ہمیں
- شراب کی حرمت کے حکم سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔
- زنا کے حکم میں لچک دی جائے۔
- سود کے کاروبار کی اجازت دی جائے۔
- نماز، زکوٰۃ اور جہاد کے احکام بھی ہم پر لاگو نہ ہوں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط مسترد کر دیں اور طائف والوں کو ایسا اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ انہیں سب شرائط سے دستبردار ہو کر غیر مشروط طور پر مکمل اسلام قبول کرنا پڑا۔ وہ اچھا زمانہ تھا، سمجھدار لوگ تھے۔ طائف والوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کے لیے شرطیں نہیں چلیں گی۔ انہیں وہ سب کچھ قبول کرنا ہو گا جو اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے بغیر وہ مسلمان نہیں کہلا پائیں گے۔ اسی طرح گناہوں اور بری عادات سے بتدریج پیچھا چھڑانے کی سہولت مانگنے والے صحابئ رسولؓ نے بھی اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا کہ گناہوں اور بری عادات سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی شیڈول کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ صرف عزم درکار ہوتا ہے اور وہ عزم ایک گناہ کو ترک کرنے کے لیے کر لیا جائے تو باقی گناہ بھی اسی کے ساتھ لائن میں لگ جاتے ہیں۔ مگر آج ڈپلومیسی کا زمانہ ہے، عقل کے عروج کا دور ہے، اور فن کاری نے دانش کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ ۔۔۔۔