حدود و قوانین اور مغرب کا معاندانہ رویہ

   
۱۴ دسمبر ۲۰۰۴ء

صدر جنرل پرویز مشرف کے اس بیان پر ملک کے دینی حلقوں میں خاصی لے دے ہو رہی ہے کہ وہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطالبہ مان کر غریب عوام کو ٹنڈا نہیں کر سکتے۔ بہت سے دینی رہنماؤں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کے احکام کے بارے میں نامناسب زبان بول رہے ہیں اور انہیں اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کے بارے میں یہ کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔

بات صرف چور کا ہاتھ کاٹنے یا صدر جنرل پرویز مشرف کے ان ریمارکس کی نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات پہلی بار کہی گئی ہے۔ معاشرتی جرائم کی شرعی سزاؤں کا جب بھی مطالبہ ہوتا ہے، اس قسم کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف جس ماحول میں رہتے ہیں، اس میں اسلامی احکام و قوانین کے بارے میں عام طور پر اسی طرح کے جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں، اس لیے ان کی زبان سے اس قسم کے الفاظ کی ادائیگی تکلیف دہ ضرور ہے، مگر غیر متوقع قطعاً نہیں۔

چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا قرآن کریم نے مقرر کی ہے اور سورۃ المائدہ کی آیت ۳۸ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ’’چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت، اس کا ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق قبیلہ بنو مخزوم کی ایک معزز خاتون فاطمہ نے چوری کی، جو پکڑی گئی اور ثابت ہوئی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، جس پر اس کے قبیلے میں پریشانی پھیل گئی۔ ایک عورت کا ہاتھ کٹنے کے ساتھ ساتھ قبائل کی برادری میں اس قبیلے کی بے عزتی کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے اسامہ بن زیدؓ کا انتخاب کیا، جو جناب نبی اکرمؐ کے پسندیدہ نوجوانوں میں سے تھے۔ اسامہ بن زیدؓ نے ان لوگوں کے کہنے پر رسول اکرمؐ کے پاس سفارش کر دی، جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور اسامہ کو یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ ’’کیا اللہ کی مقرر کردہ حدود کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسجد نبویؐ میں خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں دو باتیں بطور خاص فرمائیں:

  1. ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے بارے میں سفارش نہ کیا کرو۔
  2. اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تم سے پہلے کی امتیں اسی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئی ہیں کہ ان کے ہاں غریبوں کے لیے قانون کا معیار اور تھا اور مالداروں کے لیے معیار مختلف تھا۔ کوئی غریب یا کمزور شخص جرم کرتا تو اس پر سزا ہر حال میں نافذ کر دی جاتی اور کسی بڑے آدمی سے جرم سرزد ہوتا تو اسے مختلف حیلوں، بہانوں اور سفارشوں کے ذریعے بچا لیا جاتا تھا۔

اس کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے جلال کے ساتھ فرمایا کہ

’’تم فاطمہ مخزومیہ کی بات کرتے ہو، اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی (خدانخواستہ) چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔‘‘

حدود ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو قرآن کریم میں مختلف جرائم کے لیے مقرر کی گئی ہیں اور ان پر عملدرآمد کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت حساس تھے، نہ کسی کی سفارش مانتے تھے اور نہ ہی جرم ثابت ہونے کے بعد کسی سے رعایت کیا کرتے تھے۔

بخاری شریف ہی کی روایت ہے کہ انصارِ مدینہ کی ایک خاتون ربیع بنت نضرؓ نے ایک لڑکی کو تھپڑ مارا، جس سے اس کا دانت ٹوٹ گیا۔ لڑکی والوں نے قصاص اور بدلے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ بھی قرآن کریم کا قانون ہے کہ اگر کسی کی زیادتی سے دوسرے کا جسمانی نقصان ہو جائے تو اسے اسی صورت میں اس کا بدلہ لینے کا حق حاصل ہے۔ قرآن کریم نے اسے آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کے اصول کے ساتھ بیان کیا ہے۔ تورات میں بھی یہی حکم بیان کیا گیا ہے۔ لڑکی والوں نے بدلے کا مطالبہ کیا تو جس خاتون سے جرم سرزد ہوا تھا، اس کے بھائی انس بن نضرؓ کو بہن کی محبت میں جوش آیا اور انہوں نے کہا کہ میری بہن کا دانت نہیں توڑا جا سکتا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو آنحضرتؐ نے انس بن نضرؓ کو بلا کر کہا کہ

’’یہ کتاب اللہ کا فیصلہ ہے، اس میں نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں ہے کہ لڑکی اور اس کے خاندان والے معافی دے دیں اور قصاص کا مطالبہ ترک کر دیں۔‘‘

چنانچہ لڑکی والوں نے معاف کر دیا، جس سے ربیع بنت نضرؓ کے دانت ٹوٹنے سے بچ گئے، ورنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو بدلہ دلوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

جرائم کی جو سزائیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ انہیں نہ تو کوئی ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی جرم ثابت ہونے کے بعد اس میں لچک دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے خدائی حدود میں مداخلت ہوتی ہے، جس سے شریعت میں سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے۔ مگر ہمارے ہاں الجھن یہ ہے کہ آج کا مغربی فلسفہ اور عالمی قانون ان سزاؤں کو قبول نہیں کر رہے اور جس طرح امریکہ اور یورپ کے مسیحی تورات کے اور بائبل کے احکام سے دست بردار ہو گئے ہیں، اسی طرح ہم سے ان کا تقاضا ہے کہ ہم بھی قرآن کریم کے احکام سے دست بردار ہو جائیں۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ

  1. مسلمانوں کے عقیدے میں یہ بات رچی بسی ہے کہ قرآن کریم زندگی کے تمام معاملات میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور وہ مسلمان کی حیثیت سے اس رہنمائی کو قبول کرنے کے پابند ہیں۔
  2. دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب والے اگر تورات اور انجیل سے دست بردار ہوئے ہیں تو ان کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے پاس تورات اور انجیل اصلی حالت میں موجود ہی نہیں ہیں۔ مگر مسلمان کے پاس قرآن کریم نہ صرف محفوظ حالت میں موجود ہے، بلکہ اس کی عملی تعبیر و تشریح میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ بھی تاریخ کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ ہیں۔ اس لیے وہ نہ تو قرآن کریم کے کسی حکم سے دستبردار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی اس تعبیر و تشریح کو پس پشت ڈال سکتے ہیں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، سنت اور سیرت کی صورت میں کتابوں میں موجود و محفوظ ہے۔

دراصل جنرل پرویز مشرف اور ان کی طرز پر سوچنے والوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ مغرب والے اپنی قومی اور اجتماعی زندگی میں آسمانی تعلیمات کی پابندی کو ترک کر سکتے ہیں تو ایسا کرنا ہمارے لیے کیوں مشکل ہو گیا ہے۔ مگر انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مسلمان عملی طور پر کتنا ہی اسلام سے دور کیوں نہ ہو، ذہنی اور فکری طور پر وہ قرآن و سنت سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ قرآن کریم بھی اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی تفصیلات بھی مختلف حوالوں سے اس کے علم میں آتی رہتی ہیں اور وہ ان کی صداقت پر دل کی گہرائی سے یقین رکھتا ہے۔

باقی رہی بات چور کا ہاتھ کاٹنے سے قوم کے ٹنڈا ہو جانے کی، تو سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں چور کا ہاتھ کٹتا ہے، اسی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں چوری کے جرم کی شرح بہت کم ہے۔ لیکن آپ پورے سعودی عرب میں گھوم جائیں، آپ کو ٹنڈوں کی کوئی بستی نہیں ملے گی اور نہ ہی گلیوں اور بازاروں میں گھومنے سے ٹنڈوں سے واسطہ پڑے گا۔ خود مجھے متعدد بار سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا ہے اور کم و بیش ایک درجن کے لگ بھگ شہروں میں گھوما پھرا بھی ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئی ٹنڈا میری نظر سے گزرا ہو۔

اس لیے صدر محترم سے گزارش ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کے حوالے سے مغرب کے معاندانہ پراپیگنڈے سے متاثر ہونے کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں اور ان کا مطالعہ کریں تو خود ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ آج کے دور میں جرائم کی شرعی سزائیں نہ صرف قابلِ عمل ہیں، بلکہ جرائم پر قابو پانے کے لیے ناگزیر بھی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter