یکم مارچ کو مارگلا ٹاؤن اسلام آباد میں مسجد نمرہ کے خطیب مولانا محمد ادریس ڈیروی کی دعوت پر ایک کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو وسطی ایشیا میں فقہ حنفی کے ارتقا کے موضوع پر اہم علمی کاوش ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین احمد کا تعلق کوٹ ادو سے ہے اور وہ ایک عرصہ سے میر پور آزاد کشمیر میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو میں طالب علمی کا ایک دور گزارا ہے جبکہ اپنے علمی و تحقیقی ذوق میں وہ کراچی کے دو ممتاز اصحابِ علم مولانا محمد طاسین رحمہ اللہ تعالیٰ اور ڈاکٹر نثار احمد کے خوشہ چین ہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی میں ڈاکٹر نثار احمد صاحب کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے طور پر یہ تحقیقی خدمت سر انجام دی ہے جو چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس میں انہوں نے فقہ حنفی کے امتیازات و خصوصیات کے ساتھ ساتھ چوتھی اور پانچویں صدی کے دوران وسطی ایشیا میں فقہ حنفی کے ارتقا اور اس دور کے اس علاقہ کے ممتاز حنفی فقہاء کا تذکرہ کیا ہے اور فقہ حنفی کی قبولیت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ تعارفی تقریب میں آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق خان المدنی اور علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے صاحبِ علم و فضل استاذ جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی بھی شریک تھے اور ان کے زرّیں خیالات سننے کا موقع ملا۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ فقہ حنفی نے عالم اسلام میں طویل عرصہ تک حکومت کی ہے اور وہ عباسی خلافت اور عثمانی خلافت کے علاوہ جنوبی ایشیا میں مغل حکومت کا بھی مدّتوں قانون و دستور رہی ہے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کو اللہ رب العزت نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ ان کی علمی و فقہی کاوشوں کو امت مسلمہ میں سب سے زیادہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اور صدیوں تک کئی حکومتوں کا دستور و قانون رہنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں میں بھی اس کے پیروکاروں کی ہمیشہ اکثریت رہی ہے جو آج بھی اپنا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہے اور امت کی بہت بڑی اکثریت فقہی احکام و مسائل میں فقہ حنفی پر عمل کو ترجیح دیتی ہے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ فقہ حنفی کی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے عباسی خلافت میں قاضی القضاۃ کا منصب قبول کر لیا تھا اور انہیں اپنی اس حیثیت کو فقہ حنفی کے فروغ کا ذریعہ بنانے کا موقع ملا۔ بادی النظر میں یہ بات شاید درست بھی لگتی ہے لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ حکومت و اقتدار فقہ حنفی کے فروغ و مقبولیت کا ذریعہ نہیں بنا بلکہ فقہ حنفی کی مقبولیت اس کے اقتدار تک پہنچنے کا سبب بنی ہے۔ ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر رفیع الدین احمد صدیقی نے اس کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ خلیفہ مامون الرشید کے وزیر اعظم فضیل بن سہل کے پاس باقاعدہ طور پر ایک درخواست پیش کی گئی کہ فقہ حنفی کو خلافت کا دستور و قانون کے طور پر نافذ کرنے کا حکم منسوخ کیا جائے۔ جس پر وزیر اعظم نے اپنے رفقاء اور دیگر ذمہ دار حضرات سے مشاورت کی۔ انہیں بتایا گیا کہ فقہ حنفی کو بطور قانون ختم کرنے کا عوامی رد عمل بہت شدید ہوگا جس کا سامنا کرنا آپ لوگوں کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ مختلف حضرات سے اس مشاورت کے بعد مامون الرشید کے وزیر اعظم نے فقہ حنفی کے خلاف یہ درخواست قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ یہ واقعہ ہمارے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ اقتدار فقہ حنفی کے فروغ کا سبب نہیں بنا بلکہ فقہ حنفی کا فروغ اور اس کی عوامی مقبولیت اس کے حکومتی قانون بننے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
میں اس موقع پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ فقہ حنفی کے فروغ و مقبولیت کے میری طالب علمانہ رائے میں تین بڑے سبب تھے:
- ایک یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور ان کے رفقاء کار نے امت مسلمہ کی ضروریات کو محسوس کر کے اس کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیا تھا اور قرآن و سنت کی روشنی میں زمانے کی ضروریات کے لحاظ سے یہ پہلی باقاعدہ قانون سازی تھی جس نے نہ صرف اس دور کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ قیامت تک امت مسلمہ اس سے راہ نمائی حاصل کرتی رہے گی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے اپنے تلامذہ اور رفقاء کی معیت میں لاکھوں مسائل مرتب کیے اور زندگی کے کسی گوشے کو مرتب شدہ قوانین سے خالی نہیں رہنے دیا۔ جبکہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے خلیفہ ہارون الرشیدؒ کی فرمائش پر ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے سلطنت کا پہلا دستور تحریر کیا جو باقاعدہ نافذ ہوا۔ ’’کتاب الخراج‘‘ اپنے عنوان کے اعتبار سے اگرچہ مالیات سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس میں قومی زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً انتظام و سیاست، حاکم و رعیت کے باہمی حقوق و معاملات اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ اس دور کے حوالہ سے ایک مکمل دستور کی حیثیت رکھتی ہے جو عباسی خلافت کا دستور مملکت رہی ہے۔
- فقہ حنفی کی مقبولیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ شخصی فقہ نہیں بلکہ مشاورتی اور اجتماعی فقہ ہے۔ مسائل پر غور کرنے کے لیے حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ سرکردہ علماء کرام اور فقہاء کی مجلس ہوتی تھی جس میں مسائل پیش کیے جاتے تھے۔ ان پر باقاعدہ بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور اختلاف رائے کا حق دیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کسی کا مجلس کے عمومی موقف سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ طور پر درج کی جاتی تھی۔
- جبکہ فقہ حنفی کی مقبولیت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں عقل و دانش کا متوازن استعمال کیا گیا ہے اور وحی و عقل کے درمیان فطری توازن کو قائم رکھتے ہوئے عقل و قیاس سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اسے اگر وحی کی راہ نمائی میں حدود کے اندر استعمال کیا جائے تو یہ اس کی قدر دانی اور شکر گزاری ہے، جس کا فقہ حنفی میں پوری طرح اہتمام کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ تر اصحاب عقل و دانش کی ترجیح ہمیشہ فقہ حنفی رہی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین احمد صدیقی نے اپنے اس مقالہ میں فقہ حنفی کے تعارف اور وسطی ایشیا میں اس کے ارتقا پر جو تحقیقی کام کیا ہے وہ میرے نزدیک نہ صرف ماضی کے حوالہ سے ایک اہم علمی خدمت ہے بلکہ ملت اسلامیہ کے مستقبل کے حوالہ سے بھی ایک بڑی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ عالم اسلام میں ایک بار پھر شرعی احکام و قوانین کے نفاذ و فروغ کے جو امکانات دکھائی دے رہے ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ فقہ حنفی کے اصولوں اور خدمات کو اجاگر کیا جائے۔ اس لیے کہ فقہ حنفی کی یہ خصوصیات مثلاً:
- زمانے کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے لیے مناسب قانون سازی۔
- فقہی و شرعی احکام میں اجتماعیت، مشاورت اور باہمی بحث مباحثہ کا اہتمام۔
- عقل و قیاس، خاص طور پر کامن سینس کا قرآن و سنت کی حدود میں مناسب استعمال۔
ماضی کی طرح ہمارے آج اور مستقبل کی بھی اہم ضروریات ہیں اور انہیں فقہ حنفی ہی زیادہ بہتر طور پر پورا کر سکتی ہے۔ اس لیے میں ڈاکٹر رفیع الدین احمد صدیقی کو اس علمی کاوش پر مبارک باد دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی قبولیت کے لیے دعا گو ہوں، آمین یا رب العالمین۔