سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۱۹۹۹ء

   
تاریخ : 
۱۷ اگست ۱۹۹۹ء

۸ اگست کو برمنگھم برطانیہ کی مرکزی جامع مسجد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چودھویں سالانہ ختم نبوت منعقد ہوئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے روایتی جوش و جذبہ کے ساتھ شرکت کی اور مختلف ممالک سے سرکردہ علمائے کرام نے اس میں خطاب کیا۔ کانفرنس کی صدارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں میانوالی نے کی جبکہ خطاب کرنے والوں میں پاکستان سے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا اللہ وسایا، مولانا اکرم طوفانی، صاحبزادہ طارق محمود، مفتی محمد جمیل خان، جمعیۃ اشاعت التوحید والسنہ کے رہنما مولانا اشرف علی، مولانا قاری خلیل احمد بندھانی، جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، بھارت سے جمعیۃ علمائے ہند کے سربراہ مولانا سید اسعد مدنی، بنگلہ دیش سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل مولانا نور الاسلام، بیلجیم سے حاجی عبد الحمید اور جرمنی سے مولانا مشتاق الرحمٰن بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سے مقررین نے خطاب کیا اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔

کانفرنس میں حسب روایت مقررین اور حاضرین نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے عقیدہ کے ساتھ جذباتی وابستگی اور وفاداری کا اظہار کیا اور منکرین ختم نبوت کے تعاقب کے عزم کی تجدید کی، البتہ اس دفعہ ایک نئی بات دیکھنے میں آئی جس کے بارے میں آج کی مجلس میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کے نام برطانیہ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر کا خصوصی پیغام ان کے اپنے نمائندے نے کانفرنس میں پڑھ کر سنایا اور ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ممبر لارڈ نذیر احمد نے خطاب کیا جس میں انہوں نے برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کے مختلف مسائل پر اظہار خیال کیا۔ اس سے قبل لندن میں منعقد ہونے والے قادیانیوں کے سالانہ عالمی اجتماع کے نام وزیراعظم برطانیہ جناب ٹونی بلیئر کا پیغام منظر عام پر آچکا تھا جس میں جماعت احمدیہ کی حمایت جاری رکھنے کا اظہار بطور خاص مسلمان حلقوں میں زیر بحث تھا۔ راقم الحروف نے بھی ختم نبوت کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران اس پیغام کا ذکر کیا اور اس حوالہ سے قادیانیوں کے لیے حکومت برطانیہ کی ماضی اور حال کی حمایت کی تفصیلات بیان کیں جن میں قادیانیوں کے بارے میں حکومت پاکستان سے آئینی و قانونی ا قدامات کو واپس لینے کے لیے حکومت برطانیہ کا مسلسل دباؤ شامل ہے۔

اس پس منظر میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر برائے نسلی مساوات مسٹر مائیک روبرائن کا خصوصی پیغام توجہ کے ساتھ سنا گیا جو ان کے نمائندے مسٹر فلپس کولیکن نے کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے برطانوی معاشرہ میں مختلف امور کے حوالے سے مسلمانوں کے اجتماعی کردار کا ذکر کیا اور اپنی حکومت کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ انہوں نے تعلیم، صحت، اور معیشت کے شعبوں میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مسلمان دانشوروں سے تجاویز بھیجنے کے لیے کہا اور جبری شادیوں کی روک تھام کے لیے برطانوی حکومت کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں سے اس سلسلہ میں تعاون کی اپیل کی۔ جبکہ اس کے جواب میں مجلس تحفظ ختم نبوت برطانیہ کے سیکرٹری جنرل جناب طہ قریشی نے اپنے خطاب میں حکومت برطانیہ کو یقین دلایا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس سلسلہ میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔

لارڈ نذیر احمد نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو تعلیم، میڈیا، اور خاندانی نظام کے شعبوں میں درپیش مسائل کا بطور خاص ذکر کیا اور کانفرنس کے شرکاء کو اس ضمن میں اپنی ان کوششوں سے آگاہ کیا جو وہ لارڈ بننے کے بعد سے مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسلمان کمیونٹی اور اس کے راہ نماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے منظم جدوجہد کریں اور عملی سیاست میں بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے معاملات کو بہتر طور پر حل نہیں کر پائیں گے۔ہمارے نزدیک لارڈ نذیر احمد کے خطاب کا وہ حصہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے جس میں انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں کے جداگانہ پرسنل لاء کی بحالی کی تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ جس طرح برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر تسلط کے دوران تمام شعبوں میں اپنے قوانین نافذ کرنے کے باوجود پرسنل لاز میں مسلمانوں کا جداگانہ حق تسلیم کیا تھا اور نکاح و طلاق و وراثت میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی احکام اور قوانین پر عمل کا اس دور میں حق حاصل تھا، اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کا پرسنل لاز میں جداگانہ تشخص بحال کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر مسلمان جماعتیں مشترکہ طور پر اس کے لیے محنت کریں تو مسلمانوں کے اس جائز حق کو قانونی ذرائع سے تسلیم کرایا جا سکتا ہے۔

ہم ان کالموں میں پہلے بھی اس مسئلہ پر عرض کر چکے ہیں کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو خاندانی نظام اور نئی نسل کے بارے میں جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا حل صرف یہ ہے کہ وہ خاندانی نظام اور شخصی قوانین میں اپنے جداگانہ تشخص کو تسلیم کرانے کا راستہ اختیار کریں او رجداگانہ پرسنل لاز کا حق آئینی طور پر حاصل کریں کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی نئی نسل کو مغربی سوسائٹی میں مکمل طور پر ضم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اور اس سے قطع نظر مسلمانوں کا یہ دینی فریضہ بھی ہے کہ وہ نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام پر عملدرآمد کے حق سے کسی صورت میں بھی دستبردار نہ ہوں کیونکہ یہ بھی اگر خدانخواستہ باقی نہ رہا تو پھر اسلام کے ساتھ ان کا کیا تعلق رہ جائے گا؟

   
2016ء سے
Flag Counter