(ہفتہ وار درس)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کل جمعۃ المبارک کی گفتگو میں ایک بات عرض کی تھی کہ اپنے بزرگوں کا تذکرہ کرنا ہمارے لیے برکت کا باعث ہے رہنمائی کا باعث ہے۔ رہنمائی بھی لینی چاہیے برکت بھی حاصل کرنی چاہیے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات ہیں، صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، ہر پھول کا اپنا اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنے درجات ہیں۔ ایک ہے درجات کا ہونا وہ تو مسلّمہ بات ہے۔ انبیاء کرام میں بھی "تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض" اللہ پاک فرماتے ہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی درجات ہیں۔ ایک ہے فضیلت کا ہونا اور ایک ہے دو شخصیتوں کو آمنے سامنے کر کے تقابل کرنا، اس سے حضور نے منع فرمایا ہے۔ دو شخصیتوں کو آمنے سامنے رکھ کر تقابل کرو گے تو کسی نہ کسی کی توہین ہو جائے گی۔ میں نے کل یہ گزارش کی تھی کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والتسلیمات ہوں، یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں یا اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، ان کو ترازو پر نہ تولیں کہ اس میں یہ ہے یہ نہیں ہے، یہ غلط بات ہے۔ اس پر ایک واقعہ کل عرض کیا تھا، دو واقعے آج عرض کرتا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت مبارکہ ہے ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض‘‘۔ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں درجہ بندی و فضیلت مسلّمہ بات ہے، افضل الانبیاء جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن بخاری شریف کی روایت میں ہے مدینہ منورہ کی ایک مجلس میں یہودی بھی بیٹھے تھے، مسلمان بھی بیٹھے تھے، مشترکہ مجلس تھی، کوئی خوشی غمی کی مجلس ہوگی۔ وہاں کسی یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا نام لیا یہ کہہ کہ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو سارے جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ وہاں ایک مسلمان (صحابی) بیٹھے تھے ان کو غصہ آیا تھپڑ مار دیا زور سے کہ سارے جہانوں پر موسیٰ علیہ السلام کو فضیلت دی ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی دی ہے؟ یہ غیرت کی بات تھی۔ وہ یہودی شکایت لے کر گیا جناب نبی کریمؐ کے پاس کہ آپ کے ساتھی نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ حضور نے بلا لیا کہ اس کو تھپڑ کیوں مارا ہے؟ کہا یا رسول اللہ! اس نے بات ہی ایسی کی ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے بندو! "لا تفضلونی علیٰ موسیٰ" مجھے اس طرح فضیلت مت دو۔ یہ معنی نہیں کہ فضیلت ہے نہیں، بلکہ یہ ہے کہ تقابل نہیں کرو۔
دو شخصیتیں کوئی بھی ہوں، آمنے سامنے کھڑا کرو گے اور ترازو میں تولو گے تو کسی نہ کسی کی توہین ہو جائے گی، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ اس پر ایک واقعہ اور عرض کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المال سے سوسائٹی کے غریبوں معذوروں بے روزگاروں کے لیے وظائف مقرر کر رکھے تھے۔ اب بھی حضرت عمرؓ کی پیروی میں ہی دنیا کی ویلفیئر ریاستوں میں معذوروں، بے روزگاروں کو وظیفے ملتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ سے سیکھا ہے۔ اس پر ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وظیفے دیتے تھے لیکن چونکہ وہ خود اتھارٹی تھے، پیغمبر بذاتِ خود اتھارٹی ہوتا ہے، کسی کو دیا، کسی کو نہیں دیا، کسی کو کم دیا، کسی کو زیادہ دیا، پیغمبر کی ذات خود قانون ہوتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بحرین سے مال آیا۔ بحرین امیر ریاست تھی، اب بھی امیر ریاست ہے، اب بھی برطانوی پاؤنڈ کے بعد بحرین اور کویت کا سکہ ہی سب سے قیمتی ہے، چھوٹی سی ریاست ہے لیکن بڑی امیر ریاست ہے۔ بہت مال آیا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تقسیم کرنا تھا (وظیفے تقسیم کرنے تھے) اب قانون کی ضرورت پڑی۔ میں نے گزارش کی ہے کہ حضورؐ تو خود قانون تھے لیکن اب قانون چاہیے کہ کیسے دینا ہے؟ کتنا دینا ہے؟ کس کو دینا ہے؟ کس کو نہیں دینا؟ شوریٰ میں مشورہ کیا کہ یہ مال آیا ہے تقسیم کرنا ہے تو کوئی فارمولا کوئی اصول کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا خلیفۃ رسول اللہ، ایسا کرتے ہیں جو ہمارے درمیان فضیلت کے درجات ہیں اس کے مطابق آپ درجہ بندی کر دیں، گریڈ سسٹم کر دیں، سب سے زیادہ ازواج مطہرات کو دیں، پھر مہاجرین کو دیں، پھر انصار کو دیں، پھر بدریوں کو دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ درجہ بندی کر لیں چھ سات درجے بنا دیں اس کے مطابق تقسیم کر لیں۔ حضرت صدیق اکبر نے انکار کر دیا کہ فضیلت اللہ کے ہاں ہے "ہذه معيشۃ فالأسوۃ فیہا خير من الأثر ۃ" یہ معیشت حقوق کی بات ہے یہاں سب برابر ہوں گے۔ ترجیح سے برابری بہتر ہے میں تو برابر دوں گا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے سب کو برابر دیا جتنا ازواج مطہرات کو دیا، اتنا ہی دیہاتی کو دیا، اتنا ہی شہری کو دیا، بالکل برابری کی بنیاد پر دو سال بیت المال سے وظیفے تقسیم کیے۔
اڑھائی سال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آگئے تو ان کی جو اپنی رائے تھی اس کے مطابق انہوں نے درجہ بندی کر دی چھ یا سات گریڈ بنائے کہ یہ ۱۲ ہزار درہم سالانہ کا گریڈ ہے، یہ ۱۰ ہزار کا گریڈ ہے، ازواج مطہرات کو ۱۲ ہزار ملتا تھا، پھر ۱۰ ہزار، پھر پانچ ہزار سب سے چھوٹا گریڈ چار ہزار کا تھا۔ اسی وقت دفتر بنے، رجسٹر بنے، لسٹیں بنیں، درجہ بندی ہوئی۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ’’کتاب الخراج‘‘ میں یہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے آخری سال یہ کہا کہ حضرت ابوبکرؓ کے رائے ٹھیک تھی، وہی بہتر رائے تھی، یہ جو میں نے درجہ بندی کی ہے اس سے معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے، اس درجہ بندی سے معاشرے میں درجہ بندی ہو گئی ہے۔ یہ اکیسویں گریڈ کا ہے، اس کا مکان الگ ہے، یہ ساتویں گریڈ کا ہے اُس کا مکان الگ ہے، اس کی روٹی الگ ہے اس کا کپڑا الگ ہے۔ انہوں نے تو اتنا ہی کہا کہ گریڈ سسٹم سے معاشرہ تقسیم ہو گیا ہے، حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے ٹھیک تھی، اور یہ کہا کہ اگلے سال میں ان کی رائے پہ واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس کا حضرت عمرؓ کو موقع نہیں ملا۔
اس دوران کا جو واقعہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں اس درجہ بندی کے حساب سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک ہی گریڈ میں آتے تھے۔ اس گریڈ میں حضرت عمرؓ سب کو چار چار ہزار دیتے تھے لیکن حضرت حسینؓ کو ساڑھے چار ہزار دیتے تھے۔ ایک دن بیٹا جی نے شکایت کر دی کہ اباجی! گریڈ تو ایک ہے لیکن ہمیں آپ چار چار ہزار دے رہے ہیں اور حسینؓ کو آپ ساڑھے چار ہزار دے رہے ہیں۔ فطری بات ہے، ہوتی ہے شکایت۔ حضرت عمرؓ نے ڈانٹ دیا اور کیا کہہ کر ڈانٹا؟ اوے تیرے دل میں حسینؓ کے مقابلے پہ آنے کا خیال کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟ اور دو جملے ارشاد فرمائے: تو امیر المومنین کا بیٹا ہے، تو تیرا باپ امیر المومنین حسینؓ کے نانا کی وجہ سے بنا ہے، ان کی برکت ہے ساری، یہ اس خاندان کی برکت ہے۔ خبردار! آئندہ یہ بات نہ کرنا میرے سامنے۔
میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں، ایک تو یہ کہ ان کا تعلق آپس میں کیا تھا؟ صحابہ کرامؓ کا اور اہل بیت عظامؓ کا باہمی تعلق کیا تھا؟حضرت عمر کو بیٹے کی یہ بات برداشت نہیں ہوئی کہ بیٹا حسینؓ سے برابری کی بات کر رہا ہے؟ اور دوسری بات یہ فرمایا کہ تقابل نہیں کرو بھائی! اپنا اپنا نصیب ہے اپنا اپنا کام کرو۔ میں وہی بات دہراؤں گا کہ بزرگوں کا ذکر کریں ایک انداز سے لیکن تقابل نہیں کریں، اس سے معاملہ خراب ہوتا ہے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔