حدود آرڈیننس اور خواتین کے حقوق

   
۱۴ ستمبر ۲۰۰۳ء

قومی اسمبلی میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کی خواتین ارکان اسمبلی نے ویمن کمیشن کی سربراہ جسٹس ماجدہ کی طرف سے حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے مطالبہ پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ شرعی قوانین کی منسوخی کا کوئی قدم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ویمن کمیشن نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ملک میں نافذ ہونے والے حدود آرڈیننس کو یکسر منسوخ کر دیا جائے، کیونکہ یہ آرڈیننس کمیشن کے ارکان کے بقول ملک میں عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کا باعث بن رہا ہے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔

’’حدود‘‘ کی اصطلاح اسلامی شریعت کی ایک مخصوص اصطلاح ہے، جس کا اطلاق معاشرتی جرائم کی ان سزاؤں پر ہوتا ہے، جو قرآن و سنت میں حتمی طور پر طے شدہ ہیں۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں کسی عدالت کو ان سزاؤں میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ہوتا اور عدالت ان سزاؤں کو اسی صورت میں نافذ کرنے کی پابند ہوتی ہے جس طرح قرآن و سنت اور اجماع امت کے ذریعے انہیں بیان کیا گیا ہے۔ یہ صرف چند جرائم کی سزائیں ہیں۔

ان کے علاوہ باقی جرائم کی سزائیں متعین کرنے کا اسلامی حکومت کو اختیار حاصل ہوتا ہے اور قاضی بھی موقع محل کی مناسبت سے ان سزاؤں میں کمی بیشی یا معافی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ سزائیں ’’تعزیرات‘‘ کہلاتی ہیں اور پانچ چھ جرائم کے سوا باقی تمام صورتوں میں اسلام نے حکومت اور عدالت کو سزا دینے یا نہ دینے، سزا میں کمی بیشی کرنے یا اپنے ماحول اور ضرورت کے مطابق سزا کی کوئی شکل طے کرنے کا اختیار دیا ہے۔

البتہ پانچ یا چھ جرائم ایسے ہیں جن کے عدالت کے نوٹس میں آ جانے اور جرم ثابت ہو جانے کے بعد سزا کو معاف کرنے یا اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار عدالت کے پاس باقی نہیں رہتا اور وہ فقہ اسلامی کی وضاحت کے مطابق درج ذیل ہیں:

  1. چوری کی سزا قرآن کریم نے سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳۸ کے مطابق یہ طے کی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اور متعدد روایات کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عملاً یہی سزا دی ہے۔
  2. شراب پینا اسلامی شریعت میں حرام ہے اور اس کی سزا صحابہ کرامؓ کے اجماع کی رو سے اسی کوڑے ہے۔
  3. کسی پاکدامن مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا سنگین جرم ہے، جسے قذف کہا جاتا ہے اور اس کی سزا قرآن کریم نے سورۃ النور آیت نمبر ۴ کے مطابق اسی کوڑے متعین کی ہے۔
  4. زنا کی سزا قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تشریحات کے مطابق دو درجوں میں ہے۔ اگر بدکاری کرنے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سنگسار کر دیا جائے، اور اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک غیر شادی شدہ ہو تو اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔
  5. ڈکیتی کی سزا قرآن کریم نے سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳۳ میں مختلف صورتوں میں ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹنا، سولی پر لٹکانا، یا جلا وطن کرنا بیان کی ہے۔
  6. ارتداد یعنی کسی مسلمان کا ایک اسلامی ریاست میں اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا بھی اسلامی شریعت کی رو سے قابل دست اندازی پولیس جرم تصور ہوتا ہے، اور اس کی سزا خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کے مطابق یہ ہے کہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں اسے قتل کر دیا جائے۔

قرآن و سنت کی بیان کردہ ان سزاؤں کو حدود کہا جاتا ہے اور جہاں بھی اسلامی نظام کی بات ہوتی ہے، فطری طور پر نفاذ اسلام کے مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ معاشرے میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے حدود شرعیہ کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

ہمارے ہاں ۱۸۵۷ء تک پورے متحدہ ہندوستان میں جو قانونی نظام رائج تھا اس میں یہ حدود شامل تھیں، جو ملکی قانون کی صورت میں نافذ تھیں اور عدالتیں اسی کے مطابق فیصلے دیا کرتی تھیں۔ مگر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جب برطانوی حکومت نے دہلی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تو ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی صورت میں نافذ ان شرعی قوانین کو ختم کر کے برطانوی قوانین کے مطابق قانونی نظام کا ایک نیا ڈھانچہ متحدہ ہندوستان کی عدالتوں میں ’’تعزیراتِ ہند‘‘ کے نام سے نافذ کر دیا جو ابھی تک باقی چلا آرہا ہے اور قیام پاکستان کے بعد اس کو ’’تعزیراتِ پاکستان‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔

پاکستان بن جانے کے بعد ملک کے دینی حلقوں نے اس بنیاد پر کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے متعدد اعلانات میں واضح کیا تھا کہ پاکستان میں وہی قوانین نافذ ہوں گے جو قرآن و سنت نے بیان کیے ہیں، مسلسل یہ مطالبہ جاری رہا کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح عدالتوں میں بھی اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے، اور اسی مطالبہ پر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور حکومت میں ’’حدود آرڈیننس‘‘ کے نام سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ان سزاؤں کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ان سزاؤں کا آج تک عملی نفاذ سامنے نہیں آیا، بلکہ چند شرعی قوانین کے نفاذ کے ساتھ بھی ان کے گرد مروجہ قانونی نظام کی بالادستی اور دیگر تحفظات کا ایک ایسا حصار قائم کر دیا گیا کہ کسی جرم پر شرعی سزا کا عملاً نفاذ نہ آج تک ممکن ہو سکا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی توقع ہے۔ مگر ان کے باوجود حدود شرعیہ کے اس برائے نام نفاذ پر بھی پوری دنیا میں شور بپا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان پر ان قوانین کی منسوخی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ہمارے خیال میں ویمن کمیشن کی مذکورہ سفارش بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔

حدود شرعیہ کے سلسلہ میں جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ان میں سب سے بڑا اعتراض ہے کہ یہ قوانین آج کے مروجہ عالمی قانونی نظام سے متصادم ہیں۔ اور اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں دنیا میں انسانی حقوق کی جو تشریح کی جا رہی ہے، اس کی رو سے معاشرتی جرائم کی یہ سزائیں متشددانہ اور ذہنی و جسمانی اذیت پر مشتمل ہیں، اس لیے انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض معاملات میں صرف سزاؤں کی سختی اور تشدد تک بات محدود نہیں رہتی، بلکہ کسی عمل کے جرم ہونے کا تصور و تعین بھی متنازعہ قرار پاتا ہے۔ مثلاً:

  • زنا یعنی اپنی جائز بیوی کے سوا کسی اور عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا اسلام کی رو سے سنگین جرم ہے، جس کی انتہائی سزا موت ہے۔ مگر اقوام متحدہ کے منشور اور عالمی اداروں کی طرف سے کی گئی اس کی تشریحات کے مطابق کوئی مرد اور عورت نکاح کا تعلق نہ ہونے کے باوجود اگر باہمی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ سرے سے جرم ہی نہیں ہے۔
  • اسی طرح مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق اسلام کی رو سے قطعی حرام ہے اور اس کی سنگین سزا بیان کی گئی ہے، مگر مروجہ عالمی قانونی نظام کے مطابق یہ کام جرم ہی متصور نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی خواتین کانفرنس میں قرارداد کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں ’’متبادل جنسی عمل‘‘ (یعنی لواطت) کو قانونی تحفظ فراہم کریں، جبکہ اکثر و بیشتر مغربی ملکوں میں اس لعنتی عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔

قوانین کے سخت ہونے یا نہ ہونے کی بحث ایک طرف، مگر یہ حقیقت ہے کہ حدود شرعیہ کے نفاذ پر مغربی فلسفہ و تہذیب اور مروجہ بین الاقوامی قانونی نظام کے پس منظر میں اعتراض کرنا، اور کسی مسلمان ملک میں نافذ شدہ اسلامی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنا اسلامی تہذیب و ثقافت اور مغربی ثقافت و معاشرت کے درمیان جاری کشمکش میں مغرب کی حمایت اور اس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے ویمن کمیشن کی مذکورہ سفارش کو اس تہذیبی کشمکش اور ثقافتی محاذ آرائی کے اس پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کو اپنے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچ لینا چاہیے کہ وہ موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے کس کیمپ میں کھڑے ہیں۔

حدود آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے جو دوسرا بڑا اعتراض کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور اعتراض کرنے والوں کے بقول سینکڑوں خواتین غلط الزامات کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حجاب نہیں ہونا چاہیے کہ ان قوانین کا بہت جگہ غلط استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن یہ صرف ان قوانین کی بات نہیں، ان کے علاوہ باقی قوانین کا بھی یہی حال ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں نافذ اکثر و بیشتر قوانین کا ہر سطح پر غلط استعمال ہو رہا ہے، مگر اس کا تعلق قانون کی ضرورت و افادیت سے نہیں، بلکہ معاشرتی رویوں سے ہے اور ان معاشرتی اقدار سے ہے جو دور غلامی میں ہماری صفوں میں گھس آئی تھیں اور اب نیم غلامی کے دور میں مسلسل پروان چڑھ رہی ہیں اور انہوں نے پورے معاشرے کو کرپٹ کر دیا ہے۔

لہٰذا اگر قانون کے غلط استعمال کو دلیل کے طور پر قبول کر لیا جائے تو کوئی قانون اس کی زد سے نہیں بچتا اور اکثر و بیشتر مروجہ قوانین کو باقی رکھنے کا جواز مشکوک ہو جاتا ہے۔ مثلاً قتل ایک سنگین جرم ہے، جس کی سزا ہمارے قانون میں موت ہے۔ اگر مذکورہ بنیاد پر ملک میں قتل کے جرم میں درج کیے گئے مقدمات اور ان کے تحت گرفتار شدہ حضرات کا اسی طرح سروے کیا جائے، جیسے ہماری این جی اوز حدود آرڈیننس کے مقدمات کا سروے کرتی رہتی ہیں، تو قتل کے قوانین کے غلط استعمال اور ان کے ذریعے ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کا تناسب اس سے کسی طرح کم نہیں ہو گا، جس کا نقشہ حدود آرڈیننس کے مقدمات کے حوالے سے قوم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس لیے اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ سرے سے قتل کی سزا کا قانون ہی ختم کر دیا جائے یا قتل کو جرم قرار دینے سے انکار کر دیا جائے، بلکہ اس کا اصل اور صحیح حل یہ ہے کہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جائیں اور زیادتیوں کی روک تھام کی راہ نکالی جائے۔ کسی قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس قانون کو ہی ختم کر دینے کا مطالبہ نہ تو مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter