مذہب کا خانہ اور دستورِ پاکستان کا تقاضا

   
تاریخ : 
۲۰ دسمبر ۲۰۰۴ء

ان دنوں پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کے خاتمے پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر ۱۸ دسمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس طلب کر لی ہے۔

پاکستان کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ آج سے ربع صدی قبل اس وقت شامل کیا گیا تھا، جب ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا اور یہ سوال سامنے آیا تھا کہ قادیانیوں کو دنیا بھر کے اسلامی مراکز اور مکاتب فکر نے پہلے سے ہی غیر مسلم قرار دے رکھا ہے، جسے تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی پارلیمنٹ نے اسے اپنے دستور کا حصہ بنا دیا ہے۔ جبکہ سعودی عرب نے حرمین شریفین میں غیر مسلموں، بالخصوص قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا ہوا ہے، جو کہ حرمین شریفین کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور قرآن و سنت کے احکام کا تقاضا ہے۔

دوسری طرف قادیانی گروہ نے اپنے بارے میں اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اور وہ اسلامی احکام اور سعودی قوانین کی پروا نہ کرتے ہوئے حرمین شریفین میں داخل ہونے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے شناخت کی سرکاری دستاویزات میں کوئی ایسا امتیاز ضروری ہے، جس سے مسلمانوں اور قادیانیوں کا فرق واضح ہو سکے اور کوئی قادیانی دھوکہ دہی کے ذریعے حرمین شریفین میں داخل نہ ہونے پائے۔

اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پاسپورٹ کے فارم میں ختم نبوت کے عقیدے کا حلف نامہ شامل کر کے اس کی بنیاد پر پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بڑھا دیا جائے، تاکہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان فرق واضح ہونے کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین میں ان کے ناجائز داخلے کے امکانات کا بھی سدباب ہو جائے۔ چنانچہ پاسپورٹ کے باقاعدہ اندراجات میں مذہب کا خانہ شامل کیا گیا، جو اب تک چلا آ رہا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ قادیانیوں نے واویلا کیا اور ان کی مسلسل کوشش رہی کہ کسی طرح ان قوانین و ضوابط کو غیر مؤثر بنا دیا جائے، جو سرکاری ریکارڈ اور دستاویزات میں انہیں مسلمانوں سے الگ ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے قبل کم از کم دو بار ایسا ہو چکا ہے کہ ووٹر فارم میں مسلمانوں کے لیے عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ خاموشی کے ساتھ حذف کر دیا گیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ قادیانی بھی خود کو مسلمان ظاہر کر کے مسلم ووٹروں میں اپنا اندراج کرا سکیں، لیکن دینی حلقوں کے مؤثر احتجاج کے باعث ہر بار حکومت کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ دوبارہ ووٹر فارم میں شامل کیا گیا۔

اب یہ معاملہ پاسپورٹ کے ساتھ پیش آ گیا ہے۔ اسلام آباد سے مشینی ریڈایبل کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاسپورٹ کے اندراجات میں مذہب کا خانہ موجود نہیں ہے۔ اس پر دینی حلقوں نے احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مذہب کا خانہ حسب سابق پاسپورٹ میں دوبارہ شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں سرکاری حلقوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹوں میں مذہب کا خانہ موجود نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے پاسپورٹ سے بھی مذہب کا خانہ ختم کر دیا گیا ہے اور چونکہ بین الاقوامی مشینی ریڈایبل سسٹم پاسپورٹ کے اندراجات میں مذہب کے خانے کو قبول نہیں کرتا، اس لیے دوبارہ اسے پاسپورٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ باضابطہ اندراجات کے صفحہ کی بجائے کسی دوسرے صفحے پر یہ مہر لگائی جا سکتی ہے کہ ’’حامل ہٰذا مسلمان ہے‘‘۔ چنانچہ وفاقی وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ شامل نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد نے ایک اخباری بیان میں وزیر داخلہ کا یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ بہر صورت شامل کروا کر رہیں گے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دنیا کے باقی ممالک کے پاسپورٹوں میں مذہب کا خانہ موجود نہیں ہے تو اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب یہ خانہ پاکستان کے پاسپورٹ میں شامل کیا گیا تھا، اس وقت بھی دنیا کے دیگر ممالک کے پاسپورٹوں میں مذہب کا خانہ موجود نہیں تھا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے اور اس کی بنیاد پر پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کے اضافے کا فیصلہ خود جناب آفتاب احمد شیر پاؤ کی پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہوا تھا، جسے پیپلز پارٹی کی ہائی کمان ابھی تک اپنا کارنامہ قرار دیتی چلی آ رہی ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ مشینی ریڈایبل کا بین الاقوامی سسٹم پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو قبول نہیں کرتا تو یہ بھی محل نظر ہے، اس لیے کہ بین الاقوامی سسٹم کے لیے صرف مذہب کا خانہ ہی کیوں ناقابل قبول ہے؟ یہ بات سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے اور ایسی نہیں ہے کہ اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جائے۔ حکومت کو اس کے حقیقی اسباب کی وضاحت کرنی اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ اس لیے کہ کل یہ سوال پاکستان کے نام کے بارے میں بھی اٹھ سکتا ہے اور بین الاقوامی سسٹم ہم سے یہ تقاضا کر سکتا ہے کہ جب دنیا کے دیگر ممالک کے ناموں میں ان کی مذہبی شناخت شامل نہیں ہے تو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں اسلامی کا لفظ بھی زائد ہے اور بین الاقوامی سسٹم سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے اسے بھی حذف کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب شہریوں کی مذہبی شناخت بین الاقوامی سسٹم کے لیے قابل قبول نہیں ہے، تو ملک کی مذہبی شناخت اس کے لیے قابل قبول کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے یہ سرسری بات نہیں ہے، بلکہ ایک لمبے پراسیس کا حصہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اصل پس منظر اور صورت حال کی وضاحت کرے۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر بین الاقوامی سسٹم ہمارے کسی قومی اور ملی تقاضے کی نفی کرنے پر آ جائے تو کیا اس سسٹم کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہم اپنے ملی تقاضوں اور دینی شناخت سے دست برداری اختیار کر لیں گے؟

بین الاقوامی سسٹم اور عالمی قوانین کے احترام کی ضرورت سے ہمیں انکار نہیں اور ہم اس کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت اپنے عقیدے، دین اور نظریاتی تشخص سے دست برداری کی صورت میں ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر اس عالمی ماحول اور تناظر میں کہ اس وقت مغرب اور عالم اسلام کے درمیان فکری اور تہذیبی کشمکش عروج کی طرف بڑھ رہی ہے اور مغرب کا یہ ایجنڈا سب کے سامنے ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کی تہذیبی اور دینی شناخت سے محروم کرنے کے درپے ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے اس سلسلے میں سعودی عرب کا حوالہ بھی دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ موجود نہیں ہے، لیکن ان کے عملے نے انہیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ سعودی عرب کے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ موجود ہے اور مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان فرق و امتیاز کے دستاویزی ثبوت کی ضرورت بھی سعودی عرب ہی کے حوالے سے ہے کہ حرمین شریفین میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور قادیانیوں کو اس داخلے سے روکنے کی اس کے سوا کوئی صورت موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ موجود ہو۔ چنانچہ ممتاز سعودی رہنما اور موتمر عالم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف نے اس سلسلے میں اپنے ایک حالیہ مکتوب میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ قادیانی گروہ کے بہت سے افراد مختلف حیلوں بہانوں سے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح حرمین شریفین میں داخل ہوں۔ ڈاکٹر نصیف کے بقول اسے روکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ شامل کیا جائے۔

گزشتہ روز ایک بزرگ سے میں نے جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے ۱۸ دسمبر کو طلب کردہ آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے اس مسئلے کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی کہ کہیں وردی کے خلاف متحدہ مجلس عمل کی تحریک کو تقویت دینے کے لیے یہ کانفرنس تو نہیں ہو رہی؟ میں نے گزارش کی کہ اس مسئلے سے مجلس عمل کی تحریک کو فائدہ تو ضرور ہو گا اور لوگوں کو حکومت کے خلاف ابھارنے کے لیے مجلس عمل کے لیڈروں کے پاس ایک گرم موضوع آ جائے گا، لیکن میرے خیال میں مجلس عمل کی تحریک سے قبل یہ جذباتی اور حساس موضوع سامنے لانے کی ذمہ داری مجلس عمل کی قیادت پر عائد نہیں ہوتی، بلکہ اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ اور وہ وفاقی وزراء ہیں جو اس سلسلے میں عوام کے دینی جذبات کی پروا کیے بغیر گرما گرم بیان دے رہے ہیں اور دینی حلقوں کے جذبات کو برانگیختہ کر رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کے اصل ذمہ دار حضرات کو اس پہلو کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ ان کے اردگرد جمع لوگ اور اسٹیبلشمنٹ کے پالیسی ساز عناصر اس حوالے سے کیا تانا بانا بن رہے ہیں؟

بہرحال اس پس منظر میں ہم حکومت سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس سلسلے میں ضد سے کام نہ لے اور دینی حلقوں کے ایک جائز اور منطقی مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ شامل کرنے کا جلد از جلد اعلان کرے۔ یہ عوام کا مطالبہ بھی ہے اور دستور پاکستان کے تقاضوں کا احترام بھی اسی میں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter