ابھی نئے متنازعہ اوقاف قوانین کا سلسلہ چل رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے تعلیمی نصاب سے اسلامی مواد کم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر کے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جس سے ملک میں بے چینی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے مطالبہ پر تعلیمی نصاب کے حوالہ سے جناب شعیب سڈل پر مشتمل یک رکنی کمیشن قائم کر کے رپورٹ اور تجاویز طلب کی گئیں تو انہوں نے اپنی رپورٹ میں تجویز کر دیا کہ نصاب تعلیم میں اسلامیات سے متعلقہ مواد صرف اسلامک اسٹڈی کے دائرہ میں محدود کر دیا جائے اور باقی تدریسی مضامین میں حمد و نعت، سیرت النبیؐ اور دیگر حوالوں سے موجود اسلامی مواد خارج کر دیا جائے۔ یہ رپورٹ ابھی سپریم کورٹ میں زیربحث آنے والی ہے کہ پنجاب کے محکمہ تعلیم نے اس پر عملدرآمد کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جس پر ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘ کی قیادت نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حلقوں نے آواز بلند کی اور خدا بھلا کرے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور پنجاب کے متحدہ علماء بورڈ کا کہ انہوں نے بروقت مداخلت کر کے اس پر عملدرآمد رکوا دیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
اس سلسلہ میں پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کا درج ذیل تبصرہ ایک دوست نے سوشل میڈیا کے حوالہ سے بھجوایا ہے کہ
- ’’مذکورہ یک رکنی کمیشن معزز سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اپنے ۲۰۱۴ء کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تشکیل دیا تھا۔
- پنجاب نے نصاب سے متعلق کمیشن کے فیصلے پر نہ کوئی عملدرآمد کیا ہے اور نہ ہی اس مد میں کچھ کیا جائے گا۔
- حکومت پاکستان کی جانب سے اس معاملے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس پیش کیا جا رہا ہے۔
- موجودہ پنجاب حکومت نے پی سی ٹی بی ایکٹ کی شق ’’ٹین۔ٹو۔بی‘‘ کے تحت پہلے ہی پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کو اس فیصلے سے تحفظ فراہم کر دیا ہے۔
- پی سی ٹی بی ایکٹ کی شق ’’ٹین۔ٹو۔بی‘‘ کے مطابق نصابی کتب میں مذہبی مواد سے متعلق تمام امور کے بارے میں متحدہ علماء بورڈ کی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
- اس کے علاوہ موجودہ حکومت قرآن کی لازمی تعلیم کے ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے تمام انتظامات مکمل کر چکی ہے۔
- تمام سرکاری نجی سکولوں کی پہلی سے پانچویں جماعت تک ناظرہ اور چھٹی سے بارہویں جماعت تک ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم مکمل کرنے کا پابند کیا جائے گا۔‘‘
اگرچہ ابہام ابھی باقی ہے کیونکہ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ پر کوئی عمل نہیں کیا جبکہ کل اور آج کے متعدد اخبارات میں گورنر پنجاب کی طرف سے پنجاب حکومت کا جاری کردہ نوٹیفکیشن واپس لینے کی خبر موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کی اس وضاحت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلہ میں کردار ادا کرنے پر گورنر پنجاب، اسپیکر پنجاب اسمبلی، صوبائی وزیر تعلیم، متحدہ علماء بورڈ پنجاب اور دیگر تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بروقت مداخلت کر کے ملک کو نظریاتی حوالہ سے ایک نئے فکری خلفشار سے بچا لیا ہے۔
البتہ نصاب تعلیم میں ردوبدل کا معاملہ چونکہ ایک عرصہ سے چل رہا ہے اور اس کے لیے بعض بین الاقوامی اور قومی حلقوں کی طرف سے مسلسل پیشرفت جاری ہے اس لیے پاکستان شریعت کونسل نے محسوس کیا ہے کہ ملک میں رائج مختلف تعلیمی نظاموں اور نصابوں پر مجموعی طور پر نظر ڈالنے بلکہ ڈالتے رہنے اور مختلف مواقع پر سامنے آنے والی تبدیلیوں کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لے کر رائے عامہ کی سنجیدگی کے ساتھ راہنمائی کرنا معاشرہ کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے، اس لیے اس کا کوئی باقاعدہ نیٹ ورک قائم ہونا چاہیے جو اصل میں بڑے اداروں بالخصوص دینی مدارس کے وفاقوں اور ماہرین تعلیم کا کام ہے مگر اس کے آغاز کے لیے پاکستان شریعت کونسل نے اپنی سطح پر پانچ رکنی ’’نظام تعلیم جائزہ کمیٹی‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پروفیسر حافظ منیر احمد (وزیرآباد)، پروفیسر محمد اشفاق (گجرات)، مولانا قاری حماد الزہراوی (گکھڑ)، سید احمد حسین زید (گوجرانوالہ) اور مولانا حافظ فضل الہادی( گوجرانوالہ) پر مشتمل ہو گی۔ حافظ منیر احمد کمیٹی کے چیئرمین اور سید احمد حسین زید سیکرٹری ہوں گے۔ یہ کمیٹی ملک بھر میں رائج تعلیمی نظاموں اور نصابوں کا جائزہ لے کر (۱) دینی تعلیمات (۲) قومی خود مختاری) ملی تاریخ اور (۳) اسلامی تہذیب و روایات کے حوالہ سے اصلاح و ترقی کے بارہ میں تجاویز پیش کرے گی جن کی اشاعت اور متعلقہ حلقوں تک رسائی کا پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے اہتمام کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
پہلے مرحلہ میں کمیٹی کے ذمہ یہ کام لگایا جا رہا ہے کہ رواں صدی کے دوران ریاستی تعلیمی نصاب میں کی جانے والی تبدیلیوں کو تین ماہ کے اندر ایک رپورٹ میں جمع کرے اور ان کے نفع و نقصان کا جائزہ لے۔ اس تحقیقاتی و تجزیاتی محنت کی ضرورت ہر سطح پر اور ہر علاقہ میں ہے اور وقتی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر مسلسل تگ و دو کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے اور دینی تعلیم کا حجم کم سے کم کرتے چلے جانے کا عالمی ایجنڈا صرف کاغذوں میں نہیں ہے بلکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں ’’سیکولر گوریلے‘‘ جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھے ہیں جو دینی اقدار و روایات پر وار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ پاکستان میں دین کی بات کرنے والوں کو ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا ورنہ اس قسم کی بہت سی وارداتیں اس سے قبل ہو چکی ہیں اور ان کی رفتار اور سنگینی بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی شناخت، قومی خودمختاری، دینی تعلیمات کے ماحول اور تہذیبی اقدار و روایات کی حفاظت کے لیے اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔