کابل کی نئی حکومت اور اسلامی قوانین

   
جنوری ۲۰۰۲ء

روزنامہ جنگ لاہور یکم دسمبر ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق کابل کا کنٹرول سنبھالنے والے شمالی اتحاد کی وزارتِ انصاف کے ڈائریکٹر نور محمد امیری نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان میں اب سرعام پھانسی، سنگساری، اور مرد و عورت کی تمیز کیے بغیر کوڑے لگانے کی سزائیں نہیں دی جائیں گی اور طالبان کے ان سخت قوانین کو بدل دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سابق صدر داؤد خان کے دور کے قانونی نظام کو واپس لایا جائے گا اور اب طالبان جیسا سلوک نہیں ہو گا۔

طالبان حکومت سے دنیا کو اصل شکایت ہی یہ تھی کہ انہوں نے افغان معاشرہ میں معاشرتی جرائم کی شرعی سزاؤں کا نفاذ کر دیا تھا اور ان پر پوری طرح عملدرآمد بھی ہوتا تھا۔ جس سے مسلسل جنگ کی تباہ حالی اور اقتصادی بربادی کے باوجود مثالی طور پر امن قائم ہو گیا تھا اور افغان عوام سکون سے زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ یہ سزائیں اگرچہ بظاہر سخت ہیں لیکن کسی بھی معاشرہ میں حقیقی امن کے قیام کی ضامن ہیں، اور یہ سزائیں طالبان حکومت کی تجویز کردہ نہیں بلکہ قرآن و سنت میں واضح طور پر ان کی صراحت موجود ہے اور صدیوں تک خلافت کے نظام کے تحت دنیا کے ایک بڑے حصے میں نافذ العمل رہی ہیں۔

مغربی دنیا اور اس کی تہذیب و ثقافت پر ایمان لانے والے مسلم حکمرانوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر طالبان حکومت کا یہ نظام کامیابی کے ساتھ چند سال اور چل گیا تو باقی دنیا بالخصوص مسلم ممالک میں بداَمنی اور لاقانونیت سے دوچار عوام کے لیے اس نظام میں کشش بڑھنے لگے گی، اس لیے انہوں نے مل جل کر طاقت اور قوت کے زور سے طالبان حکومت کو ختم کر دیا ہے۔ اور اب امریکہ کی سرپرستی میں بننے والی کابل حکومت کی طرف سے اس واضح اعلان نے عملاً ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصل مقصد دہشت گردی پر قابو پانا نہیں بلکہ افغانستان میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اسلامی نظام کو ختم کرنا تھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter