مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آمد شروع ہو گئی ہے جہاں ۲۲ و ۲۳ مارچ کو ان کے دو روزہ اجلاس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ہم اپنے معزز مہمانوں کو خوش آمدید اور اہلاً و سہلاً و مرحبا کہتے ہوئے اس اجلاس کے حوالہ سے چند معروضات ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے فورم اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا وجود تمام تر تحفظات کے باوجود اس لحاظ سے بہرحال غنیمت اور حوصلہ افزا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران وقتاً فوقتاً مل بیٹھ کر اپنے مسائل اور عالمِ اسلام کی مشکلات پر کچھ نہ کچھ غور کر لیتے ہیں اور موقف کا بھی اظہار کرتے ہیں جس سے اس حد تک اطمینان ضرور ہو جاتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی صف میں ان مسائل و مشکلات کا احساس موجود ہے اور امید رہتی ہے کہ یہ احساس کبھی نہ کبھی ادراک اور عملی پیشرفت کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
اس حوالہ سے عالمِ اسلام کی اصل ضرورت کیا ہے؟ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا وہ تاریخی تبصرہ یاد آ جاتا ہے جب انہوں نے بوسنیا اور سربیا کی کشمکش کے دوران مسلمانوں کے قتل ِعام کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی بے بسی کا اظہار کیا تھا کہ
’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافتِ عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنے دکھوں کا رونا رو سکیں۔‘‘
یہ بے بسی آج بھی قائم ہے جس کی تازہ ترین صورت آج ہی کے اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے کہ شام کے صدر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے جو امریکہ بہادر کو پسند نہیں آیا اور اس نے کھلم کھلا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ گویا ایک مسلمان ملک کے حکمران کے لیے دوسرے مسلمان ملک کا دورہ کرنے سے قبل امریکہ بہادر کی رضا اور ناراضگی کو دیکھنا ضروری ہے۔
اور یہ بھی عالمِ اسلام کی اسی بے بسی کی ایک واضح شکل ہے کہ افغانستان سے امریکی اتحاد کی افواج اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے واپس جا چکی ہیں اور امارتِ اسلامی افغانستان نے ملک میں امن و اتحاد کو برقرار رکھنے کی مثال قائم کر دی ہے، مگر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنے کے لیے امریکہ بہادر کی پیشانی کی سلوٹیں شمار کرنے میں مصروف ہیں اور اس کی طرف سے ’’این او سی‘‘ جاری ہونے کے انتظار میں ہیں۔
مسلم ممالک کے قابل صد احترام وزرائے خارجہ کی خدمت میں ہم اس موقع پر پہلی گزارش یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ عالمی دباؤ اور بیرونی مداخلت کے اس ماحول سے نکلنا ہے اور اپنے فیصلے آزادانہ ماحول میں خود کرنے کا حوصلہ اور اختیار حاصل کرنا ہے۔ جس کے بغیر ہم عالمِ اسلام کے کسی مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی مؤثر راستہ اختیار نہیں کر سکیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کی یہ کانفرنس اس کا آغاز ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو تسلیم کرنے اور افغان قوم کی خودمختاری اور ان کے عقیدہ و ثقافت کی پاسداری کے مسلّمہ حق کی حمایت کے اعلان کی صورت میں کر سکتی ہے جس کی ہم ان سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں۔
ہمارے خیال میں دوسرا اہم ترین توجہ طلب مسئلہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی حالیہ قابلِ تحسین قرارداد کو دیگر قراردادوں کی طرح ’’داخل دفتر‘‘ کر دینے کی بجائے اس کی بنیاد پر ایک منظم اور مربوط مہم چلانے کا ہے۔ جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی قوتوں اور لابیوں کے پھیلائے ہوئے گمراہ کن شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے خلافتِ راشدہ کی طرز پر اسلام کی صحیح اور متوازن تعلیمات اور کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں مصروفِ عمل اسلامی نظریاتی حلقوں اور مراکز کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ روایتی سفارتی حلقوں، سیکولر لابیوں اور این جی اوز وغیرہ کو اس مہم کا ذریعہ بنانے سے اسلاموفوبیا کی موجودہ صورتحال میں بہتری آنے کی بجائے اس کے مزید بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ خبر ہمارے لیے اطمینان کا باعث بنی ہے کہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے جو کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے مسلسل ظلم کے باعث ان کا اپنا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری بھی ہے، اور اس سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ فلسطین، اراکان اور دیگر خطوں کے مسلمانوں کی مظلومیت اور ان کے حقوق کی پامالی بھی مسلم وزرائے خارجہ کی توجہات کی منتظر ہے۔ جبکہ معروضی صورتحال میں مسلم ممالک پر مغربی اداروں اور این جی اوز کی فکری اور تہذیبی یلغار انتہائی فکر انگیز اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی لابیوں، مغربی حکومتوں اور سیکولر این جی اوز کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور تہذیبی بالخصوص خاندانی نظام و ماحول میں قرآن و سنت کے صریح احکام و قوانین سے دستبرداری کے لیے تیار کیا جائے، جس کے لیے پوری مسلم دنیا میں چند مخصوص حلقوں کے سوا عالمِ اسلام کا کوئی طبقہ تیار نہیں ہے، اور یہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
مسلم وزرائے خارجہ کو ان مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں کی کمٹمنٹ کا ساتھ دینا چاہیے اور مغربی دنیا کی استعماری قوتوں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ ہمارے دینی، تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں دخل اندازی کے طرز عمل پر نظرثانی کریں۔ ان گزارشات کے ساتھ ہم مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور اپنے تمام معزز مہمانوں کے لیے خیرسگالی اور محبت کے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں، آمین یا رب العالمین۔