تنقید اور استہزا میں بہت فرق ہے

   
۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ء

میں نے وہ فلم نہیں دیکھی جس پر دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں، نہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہ ہی شاید دیکھ سکوں۔ گزشتہ روز ایک عزیز نے پوچھا کہ استاد جی! آپ کو وہ فلم دکھا دوں؟ میں نے کہا کہ برخوردار! میں نہیں دیکھ پاؤں گا، اس لیے کہ ایک عام انسان کی توہین پر بھی میرے دل میں کچھ نہ کچھ کسک ضرور پیدا ہوتی ہے، کائنات کی سب سے محترم شخصیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا منظر کیسے دیکھ سکوں گا؟

میں نے سلمان رشدی کی بدنامِ زمانہ تصنیف ”شیطانی آیات“ بھی چند صفحات پر نظر ڈال کر چھوڑ دی تھی کہ اس سے آگے پڑھنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔ میرا حال تو یہ ہے کہ حضرت امام بخاریؒ کے بارے میں ایک صاحب نے توہین آمیز کتابچہ لکھا، مجھے ایک دوست نے پڑھنے کے لیے دیا، جو چند صفحات دیکھنے کے بعد میں نے ایک طرف رکھ دیا اور اس کے بعد ایک فاضل دوست کی ایک تصنیف مجھے تبصرہ اور تقریظ کے لیے دی گئی، جس میں اس کتابچے کا مدلل جواب دیا گیا تھا۔ میں نے اس پر سرسری تبصرہ لکھ دیا، جس میں یہ بھی لکھا: ”میں مصنف کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے امام بخاریؒ کے خلاف لکھی جانے والی یہ کتاب پوری پڑھ لی ہے۔“

میں اس معاملے میں بہت کمزور واقع ہوا ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مجھے میرے اساتذہ نے ایسی تربیت ہی نہیں دی کہ نفرت اور تحقیر کے لہجے میں بات کی جائے۔ میرے اساتذہ میں دو بڑے بزرگ والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور فاتحِ قادیان مولانا محمد حیات پسروریؒ ہیں۔ دونوں کا ایک ایک واقعہ گفتگو کی مناسبت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

  • میرے طالب علمی کے ابتدائی دور میں گکھڑ میں ہونے والے ایک مذہبی جلسے میں میرے استاد محترم قاری محمد انور صاحب نے کچھ جملے یاد کرا کے مجھے تقریر کے لیے کھڑا کر دیا، جو قادیانیت کے خلاف تھی۔ میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کا تذکرہ انتہائی تحقیر کے لہجے میں کیا، جس پر مجھے حضرت والد محترمؒ سے نہ صرف سٹیج پر ہی ڈانٹ پڑ گئی، بلکہ انہوں نے مائیک پکڑ کر باقاعدہ معذرت کی کہ بچہ ہے، نادانی سے غلط الفاظ بول گیا ہے، اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیں۔
  • حضرت مولانا محمد حیاتؒ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کے سب سے بڑے مناظر تھے اور قادیان میں ڈیرہ لگا کر کام کرنے کی وجہ سے ”فاتحِ قادیان“ کہلاتے تھے۔ میرے استاد محترم ہیں اور میں نے قادیانیت کے حوالے سے تربیتی کورس ان سے طالب علمی کے دور میں سبقاً سبقاً پڑھا ہے۔ ایک بار تربیتی کورس کے دوران کلاس میں ایک اختلافی موضوع پر لیکچر دے کر مجھے کھڑا کیا اور کہا کہ اس لیکچر میں جو کچھ پڑھا ہے، اس پر مختصر تقریر کرو۔ میں نے کھڑے ہوتے ہی بازو چڑھا لیے اور مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لے کر استہزا اور تمسخر کے لہجے میں الٹی سیدھی باتیں شروع کر دیں۔ جس پر استاد محترمؒ نے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ بھیا! اس طرح بات نہیں کرتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے۔ اس کی کسی بات کا حوالہ دینا ہو تو یوں کہو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں۔

یہ باتیں مجھے گزشتہ روز ”پاکستان“ میں اس شرمناک فلم کے ہدایت کار نکولا سبیلی نکولا کا مختصر سا انٹرویو پڑھ کر یاد آئیں، جس میں اس نے کہا کہ مسلمانوں میں برداشت اور حوصلہ نہیں ہے، انہیں اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔

اس فلم کی اخلاقی حیثیت تو مذکورہ ہدایت کار نے اسی انٹرویو میں یہ کہہ کر واضح کر دی ہے کہ ”فلم کا تمام عملہ غیر ملکی تھا، جو نہ تو عربوں کے متعلق کچھ جانتے تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی عرب ممالک کا دورہ کیا تھا۔“ سوال یہ ہے کہ اگر فلم کے عملے میں سے کوئی شخص نہ عرب ممالک میں گیا اور نہ ہی وہ عربوں کے بارے میں کچھ جانتا تھا تو یہ فلم انہوں نے کیسے بنا لی اور اس میں مختلف کردار آخر کس طرح ادا کر لیے؟

لیکن اس اخلاقی اور فنی سوال کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں نکولا سبیلی نکولا کے اس طعن کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عربوں میں یا مسلمانوں میں اختلاف برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ یہ بات مغرب کے بہت سے دانش ور عرصہ سے کہتے آ رہے ہیں، آج بھی یہ بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ میرا مغرب کے ان دانشوروں سے سوال ہے کہ اختلاف و تنقید اور اہانت و تحقیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور کیا اختلاف و تنقید کے نام پر ہم سے تمسخر و استہزا اور توہین و تحقیر کی آزادی کا حق تو نہیں مانگا جا رہا؟

جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے، اس کو مسلمانوں سے زیادہ کس نے برداشت کیا ہے؟ مغرب کے مستشرقین صدیوں سے اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی تہذیب و کلچر کے خلاف مسلسل لکھتے آ رہے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس قسم کی کتابوں اور مقالات سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان کا جواب مقالات اور کتابوں کی صورت میں دلائل کے ساتھ دیا ہے اور اب بھی دلیل اور متانت کے ساتھ کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دلیل اور متانت کے ساتھ ہی دیا جا رہا ہے۔ لیکن تمسخر و استہزا اور توہین و تحقیر کو کسی دور میں بھی برداشت نہیں کیا گیا، وہ آج بھی برداشت نہیں ہے اور آئندہ بھی کبھی برداشت نہیں ہو گا۔

جن دنوں سلمان رشدی کی توہین آمیز کتاب کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری تھا، برمنگھم (برطانیہ) میں اس سلسلے میں ہونے والے ایک جلسے میں میری تقریر کے دوران ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ علمائے کرام اس کتاب کا جواب کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کیا کہ بیٹا! جواب دلیل کا ہوتا ہے، گالی کا نہیں۔ اگر کوئی شخص مجھے گالی دیتا ہے یا سرِعام میری تحقیر اور توہین کرتا ہے تو میں اس کا جواب دینے کے لیے کسی لائبریری کا رخ نہیں کروں گا، بلکہ جو چیز میرے ہاتھ میں ہو گی اس کے منہ پر دے ماروں گا۔ مغرب کا میڈیا، بلکہ دانش بھی اختلاف اور توہین میں فرق نہیں کر رہی اور تنقید اور تمسخر کو ایک ہی دائرے میں شمار کر رہی ہے۔ اس رویے کو میں خود اپنی ذات کے بارے میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں تو اپنے آقا و مولا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیسے برداشت کر لوں گا؟

میں اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات و عقیدت کے حوالے سے دو تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا:

  1. اب سے ڈیڑھ صدی قبل ایک ہندو دانش ور پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ”ستیارتھ پرکاش“ میں، جو لاہور سے شائع ہوئی تھی، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک سو سے زیادہ اعتراض کیے تھے۔ لیکن بات چونکہ اختلاف کے لہجے میں کسی حد تک دلیل کے ساتھ کی تھی، اس لیے علمائے کرام نے ان اعتراضات کے جوابات دلیل کے ساتھ دیے، جن میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن اسی لاہور میں راجپال نے ”رنگیلا رسول“ کے نام سے توہین آمیز کتاب لکھی تو اس کا جواب غازی علم الدین شہیدؒ نے دیا تھا اور یہ جواب غازی شہیدؒ کو ہی دینا چاہیے تھا۔
  2. اسی طرح انگریز دانش ور سر ولیم میور نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنی کتاب میں کچھ اعتراضات کیے تو ان کا جواب سر سید احمد خان مرحوم نے کتاب کی صورت میں دیا۔ لیکن لندن سے سلمان رشدی کی کتاب شائع ہوئی، جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کا مذاق اڑایا گیا ہے تو اس پر دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔

مسلمانوں میں اختلاف اور توہین کے درمیان فرق کا شعور بحمد اللہ قائم ہے اور وہ تنقید اور استہزا کے درمیان فاصلے کو بحمد اللہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ البتہ مغرب نے یہ فاصلے ختم کر دیے ہیں، انہوں نے استہزا، تمسخر، توہین، تحقیر اور تذلیل کو بھی اختلاف اور تنقید کا عنوان دے رکھا ہے اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنے کے عنوان سے اسلام دشمنوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت مسلمانوں کی کسی بھی محترم اور مقدس شخصیت کو استہزا و تمسخر اور توہین و تحقیر کا جب چاہیں نشانہ بناتے رہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہو گا، نکولا سبیلی نکولا اور اس کے ہمنوا مغربی دانش اور میڈیا اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لیں ان کے لیے بہتر ہو گا۔ اس کے بغیر مسلمانوں سے امن یا برداشت کے نام پر کوئی اپیل کارگر نہیں ہو گی، اس لیے کہ مسلمان کا خمیر ہی غیرت و حمیت کے مقدس پانی میں گوندھا گیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter