’’یومِ آزادی‘‘ پر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ طلباء اسلام اور خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر کے زیراہتمام تقریب سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ طلباء اسلام گوجرانوالہ اور خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر کا شکر گزار ہوں کہ یومِ آزادی اور قیامِِ پاکستان کے دن اس تقریب کا اہتمام کیا اور ہمیں باہمی ملاقات اور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر خوشی اور شکر کے اظہار کے لیے اکٹھے مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھتے ہوئے وطن، دین اور ملت کے لیے اپنے سفر کو صحیح بنانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کی بنیاد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے فتوٰی پر ہے جو فتاوٰی عزیزی میں آج بھی موجود ہے۔ اصل فارسی زبان میں تھا، اس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں، آزادی کی تحریکیں چلائی گئیں۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ جنہوں نے یہ فتوٰی دیا تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے جانشین اور اپنے والد محترمؒ کے بعد برصغیر میں امتِ مسلمہ کے امام تھے۔ فتوٰی پر بات کرنے سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔
جب ہم اپنی علمی و دینی تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں دو بڑے نام آتے ہیں، پہلا نام حضرت مجدد الف ثانیؒ کا، اور دوسرا نام حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ہے۔ ان دونوں کی جدوجہد دراصل شاہ صاحبؒ کے فتوے کا تاریخی پس منظر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک کیا تھی؟ حضرت مجدد الف ثانیؒ سے پہلے برصغیر میں اکبر بادشاہ نے اس دور کے سیکولرازم کا نفاذ چاہا تھا کہ کسی مذہب کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے اور سارے مذہب ٹھیک ہیں، ہندو بھی، عیسائی بھی، یہودی بھی، سکھ بھی۔ تمام مذاہب کی اچھائیاں اکٹھی کر کے اتحاد بین المذاہب کا خلط ملط شدہ ایک ملغوبہ پیش کیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں یہ سیکولرازم کہ کسی ایک مذہب کی فوقیت نہیں ہے سارے مذاہب ایک جیسے ہیں، اس کا پہلا داعی اکبر بادشاہ تھا۔ کچھ اسلام کی خوبیاں، کچھ یہودیت اور عیسائیت کی اچھائیاں، کچھ ہندو ازم اور سکھ ازم کی باتیں خلط ملط کر کے ایک نیا دین تشکیل دیا تھا جسے تاریخ میں ’’دینِ الٰہی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ جس مذہب کی جو بات اچھی لگے وہ اس سے لے لو۔ اکبر بادشاہ کے مذہب میں اللہ کا سجدہ بھی تھا، سورج کا سجدہ بھی تھا اور بت کا سجدہ بھی تھا۔ یہاں سے اس دین کا آغاز ہوتا ہے، میں تفصیلات میں نہیں جاتا، لیکن بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ سارے مذہب ٹھیک ہیں، آپس میں لڑو نہیں! آج کا سیکولرازم بھی یہ کہتا ہے کہ کسی مذہب کی دوسرے پر برتری نہیں ہے، سارے مذاہب یکساں ہیں اور کسی ایک مذہب کی بنیاد پر کوئی معاشرتی نظام قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو اس دور کے سیکولرازم یعنی اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی سے جنگ درپیش تھی، چنانچہ حضرت مجدد صاحبؒ نے وہ جنگ لڑی۔
ایک ہتھیاروں کی جنگ ہوتی ہے، ایک علم و فکر کی جنگ ہوتی ہے، اور ایک دانش و تدبر کی جنگ ہوتی ہے۔ ہر جنگ کا اپنا موقع ہوتا ہے۔ جب ہتھیاروں کی جنگ کا موقع ہو تو ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، اور جب علم و فکر کی جنگ کا موقع ہو تو وہ جنگ بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہ موقع محل کے مطابق ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو علم، فکر، دانش، حکمت کی جنگ درپیش تھی، اس کو لابنگ کہا جاتا ہے کہ سامنے آنے کی بجائے ایک ایک فرد پر محنت کی جائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکبر بادشاہ کے بعد جب اس کا جانشین جہانگیر تخت پر بیٹھا تو اس کا پہلا دور اپنے باپ اکبر کے ساتھ تھا، لیکن اس کی زندگی کا آخری دور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ساتھ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی محنت کا یہ خلاصہ ہے کہ اکبر کے سارے فلسفے کو جہانگیر نے الٹ کر رکھ دیا تھا، جس کے پیچھے حضرت مجدد الف ثانی کی محنت کارفرما تھی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی محنت کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہم نے اپنا مذہب، دین، عقیدہ، تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات اور تہذیبی تشخص قائم رکھنا ہے، اسے خلط ملط نہیں ہونے دینا، اور وہ اس تحریک میں کامیاب رہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے تعارف میں علامہ محمد اقبالؒ کا ایک شعر ہی کافی ہے ؎
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
یہ پس منظر ہے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے فتوے کا۔ ان کے فتوے کا دوسرا پس منظر ان کے والد گرامی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی جدوجہد ہے۔ باقی ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت صرف یہ عرض ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ یہ شمار کیا جاتا ہے، اور اسی کی بنیاد پر حضرت شاہ صاحبؒ پر ایک بڑا الزام بھی لگتا ہے، اس لیے یہ حضرت شاہ صاحب کا کریڈٹ بھی ہے، اور کچھ لوگوں کے ہاں وہ ان کا ڈِس کریڈٹ بھی ہے۔ وہ یہ تھا کہ اس دور میں دہلی میں مغل بادشاہ بالکل بے حیثیت ہو گئے تھے، صرف نام کے بادشاہ تھے۔ جبکہ جنوبی ہند سے ہندو مرہٹے بڑھتے چلے آ رہے تھے اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر انہوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تو مسلمان بالکل مغلوب اور بے بس ہو کر جائیں گے، اقتدار مرہٹوں کے پاس چلا جائے گا اور جنوبی ایشیا کے مسلمان مرہٹوں کے رحم و کرم پر ہوں گے، وہ دہلی کی طرف بڑھ رہے تھے اور دلی والوں میں مقابلے کی ہمت نہیں تھی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے جب دیکھا کہ معاملہ زیادہ بگڑ جائے گا تو پہلے اپنے لوگوں کو متوجہ کیا۔ فقہاء، نوابوں، جرنیلوں، وزیروں اور مختلف طبقات کے راہنماؤں کو خطوط لکھ کر متوجہ کیا کہ اکٹھے ہو جاؤ،۔ لیکن جب شاہ صاحبؒ کو اندازہ ہوا کہ بات نہیں بن رہی اور ہم رکاوٹ نہیں ڈال سکیں گے تو انہوں نے افغانستان کے والی احمد شاہ ابدالیؒ سے رابطہ کیا کہ ہم سے یہ طوفان نہیں رکتا، تم مہربانی کر کے ہماری مدد کو آؤ۔ احمد شاہ ابدالیؒ آئے اور آ کر پانی پت کی لڑائی لڑی، جو پانی پت کی تیسری لڑائی کے عنوان سے معروف ہے۔ پانی پت کے مقام پر خوفناک جنگ ہوئی جس میں احمد شاہ ابدالیؒ نے جنوبی ہند کے مرہٹوں کا راستہ روکا اور انہیں شکست دے کر دہلی بچایا۔ لیکن پھر حالات کا تقاضا تھا یا جو بھی وجہ بنی وہ حکومت انہی نا اہلوں کے حوالے کر کے وطن واپس چلے گئے جن کی نااہلی کی وجہ سے آنا پڑا تھا۔ پھر جو ہوا سو ہوا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جنگ اپنے دین، عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی جدوجہد تھی، جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی جنگ مسلمانوں کے وجود کی حفاظت کی جنگ تھی۔ احمد شاہ ابدالیؒ کی جنگ مسلمانوں کی اجتماعیت اور قوت کی جنگ تھی۔ اسی بنا پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ پر اعتراض بھی ہوتا ہے کہ باہر کی حکومت بلا کر یہاں جنگ کروائی، لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اور کیا کرتے؟ مرہٹوں کے ہاتھوں ذبح ہو جاتے؟ اگر شاہ صاحب یہ نہ کرتے تو عالمِ اسباب میں اس خطہ کا کوئی شخص شاید خدا کا نام لینے والا نہ ہوتا۔ بعض مورخین کہتے ہیں پانی پت کی تیسری لڑائی کے اختتام پر ہی پاکستان قائم ہو گیا تھا۔ یعنی یہ طے ہوگیا تھا دہلی سے ادھر کا علاقہ مسلمانوں کا ہے، اور ادھر کا علاقہ ہندوؤں کا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی یہ دو تحریکیں گزر چکی تھیں۔ اب آئیے حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے کی طرف۔ میں اکثر علماء سے کہتا ہوں کہ یہ فتوٰی پڑھو۔ ہر دفعہ بہت سے حضرات مجھ سے وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوٰی کا پس منظر دیکھیں۔ برصغیر میں انگریز کی آمد ۱۷۵۷ء میں ہوئی، ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کی غرض سے آئی، جو اس زمانے کی ’’آئی ایم ایف‘‘ تھی۔ ملٹی نیشنل کمپنی یہاں تجارت کے لیے آئی تھی۔ وہ اجازت نامے اور شرائط پر یہاں تجارت کرتے تھے۔ ان کا پہلا جھگڑا بنگال کے بادشاہ نواب سراج الدولہؒ سے ہوا ٹیکسوں کے مسئلہ پر، نواب نے سختی کی، جس پر کمپنی نے بغاوت کر دی، یہ لڑائی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس بغاوت میں نواب سراج الدولہؒ کو شکست ہوئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ یہ ۱۷۵۷ء کی بات ہے۔
۱۸۰۱ء میں ایک اور جنگ ہوئی۔ میسور کے حکمران سلطان ٹیپو تھے۔ میسور کا نام ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ تھا، جیسا کہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یعنی وہ سلطنت بھی اللہ کے نام پر بنی تھی۔ سلطان حیدر علی اور پھر سلطان ٹیپو سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی لڑائی ہوئی۔ لڑائی اس بات پر ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک فرانس کی تھی اور ایک برطانیہ کی تھی۔ ان دونوں کی آپس میں بھی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ دشمن کی دو کمپنیوں کی لڑائی میں سلطان ٹیپو نے ایک سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ سلطان نے اپنی فوج کے لیے ایک فرانسیسی جرنیل سے خدمات حاصل کیں، برطانیہ کی کمپنی نے مطالبہ کیا کہ اس جرنیل کو نکالو۔ جس پر ٹیپو سلطان نے کہا کہ نہیں نکالتا، اس بات پر لڑائی شروع ہوئی۔ لڑائی میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی آگے بڑھتی گئی۔
پھر ۱۸۲۱ء اور ۱۸۲۲ء میں ایک اور لڑائی ہوئی۔ یہاں کے حریت پسندوں نے، روہیلوں نے اور احمد خان روہیلہ نے مقابلہ انگریزوں کا کیا، اس لڑائی میں بھی شکست ہو گئی۔ ان سب شکستوں کی ایک وجہ یہ تھی کہ انگریز کے پاس جدید ہتھیار تھے اور ہمارے پاس وہ ہتھیار نہیں تھے۔ اسباب کی دنیا تو اسباب کی دنیا ہے۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں دشمن نے حملہ کر دیا تو ایک تاریخی روایت کے مطابق پاپائے روم نے کہا سب سجدے میں پڑ جاؤ اللہ پاک شکست دے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میں شکست دیتا ہوں لیکن ایسے شکست نہیں دیتا، خود بھی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ مقابلہ کے لیے برابر کے ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے اور دیگر بہت سے اسباب کے باعث بنگال، میسور اور بکسر تینوں جنگوں میں مسلمان شکست کھا گئے۔
اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس وقت شاہ عالم ثانی دہلی کے تخت پر تشریف فرما تھے، جن کا لقب تھا شاہِ عالم۔ اس پر ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا شاہ عالم سے معاہدہ ہوا کہ سارے ملک کے مالیاتی نظام کو ایسٹ انڈیا کمپنی چلائے گی اور دہلی سے پالم تک (اب پالم دہلی کا ایئر پورٹ ہے) چند میل کا علاقہ شاہ عالم کے زیر تسلط ہوگا۔ اس معاہدے پر ایک محاورہ مشہور تھا ’’سلطنت شاہِ عالم، از دہلی تا پالم‘‘۔ شاہ عالم کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ ہوا، جس میں یہ تھا کہ ہمیں کچھ نہ کہو، باقی جو مرضی ہے کرو۔ معاہدہ ریکارڈ پر ہے، اس میں یہ طے ہوا کہ پورے برصغیر کے مالی معاملات کو ایسٹ انڈیا کمپنی کنٹرول کرے گی، اور بادشاہ سلامت تخت پر بیٹھ کر نذرانے وصول کیا کریں گے، یہ اس معاہدے کا خلاصہ یہ تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے برصغیر کے محصولات، ٹیکسز اور تمام معاشیات پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، ساری معیشت قبضے میں لے لی تھی، اور دہلی پر ان کا نمائندہ بیٹھ گیا تھا۔ ادھر بادشاہ سلامت سے کہا کہ آپ آرام فرمائیں، نذرانے وصول کریں اور روزانہ نیا لباس پہن کر تشریف لایا کریں۔ یہ معاہدہ تھا کہ دہلی کے تخت پر شاہ عالم بیٹھیں گے لیکن نظام ایسٹ انڈیا کمپنی چلائے گی۔ اور اس کا ٹائٹل یہ تھا کہ معیشت کو ایسٹ انڈیا کمپنی کنٹرول کرے گی جیسا کہ آج کل آئی ایم ایف اور اس جیسے عالمی ادارے کر رہے ہیں۔ اس کے دور میں یہ اعلان ہوا، ’’زمین خدا کی، سلطنت بادشاہ کی، اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔
۱۸۲۲ء کے لگ بھگ اس اعلان کے بعد شاہ عبد العزیزؒ نے یہ فتوٰی دیا کہ پورے برصغیر پر نصارٰی کا غلبہ ہو گیا ہے، اور ہمارے قوانین منسوخ کر کے انہوں نے اپنے قوانین نافذ کر دیے ہیں، اس لیے یہ ملک دارالحرب ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اسی فتوے کی بنیاد پر بالا کوٹ کی جنگ لڑی گئی، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیرؒ نے جنگ لڑی، جنوبی پنجاب میں سردار احمد خان شہیدؒ نے جنگ لڑی، سرحدی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ نے جنگ لڑی، بیسیوں جنگیں ہوئیں۔ وہی جنگیں جب آگے بڑھیں تو پھر حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آخری جنگ کا منصوبہ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا جو ناکام ہوئی، اس کے بعد ہم عسکری جنگ سے سیاست کی طرف منتقل ہوئے۔
ایک عسکری جنگ ہوتی ہے، ایک علمی فکری جنگ ہوتی ہے، اور ایک سیاسی جنگ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے عوامی قوت کی بنیاد پر انقلاب لایا جائے جسے سٹریٹ پاور اور لابنگ کی جنگ کہا جاتا ہے، اس کا آغاز ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ تک عسکری جنگیں رہی ہیں، بیسیوں جنگیں ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جنگوں کا رخ بدلا کہ ہم عسکری لڑائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے، اب ہمیں سیاست، پولٹیکل جنگ، سٹریٹ پاور کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا۔ شیخ الہندؒ کے بعد اس کا رخ بدلا اور اب تک ہم اسی ٹریک پر ہیں۔
آخر میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ شاہ عبد العزیزؒ کے جس فتوے کی بنیاد پر تحریکیں چلیں، بیسیوں جنگیں ہوئیں، اور ڈیڑھ سو سال تک ہم گتھم گتھا رہے۔ اس فتوے میں دو جملے تھے کہ برصغیر پر نصارٰی کا تغلب ہو گیا ہے اور ان کے قوانین بلا روک ٹوک جاری ہیں اس لیے جہاد فرض ہے۔ اس فتوے کا اگر تجزیہ کریں تو اس کا پہلا جز یعنی نصارٰی کا تغلب تو اب ختم ہو گیا ہے، اب کوئی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نہیں ہے، لیکن فتوے کا دوسرا جز کہ انگریزوں کے قوانین بلاروک ٹوک جاری ہیں، اس کے متعلق اب دیکھنا ہو گا کہ یہ صورتحال ختم ہو گئی ہے یا اب بھی باقی ہے؟ اہل علم کے سامنے یہ میرا سوال ہے کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قوانین کس کے چل رہے ہیں؟ صرف قوانین نہیں، عدالتی اور انتظامی سسٹم کس کا ہے؟ انگریزوں کے قبضے سے پہلے یہاں شرعی قوانین ایک ہزار سال تک نافذ رہے ہیں۔ مغلوں، تغلق، شمس الدین التمش اور محمود غزنوی کے دور میں ایک ہزار سال ہماری حکومت رہی ہے، ان ادوار میں شریعت کے قوانین نافذ رہے ہیں، اور عدالتی نظام قضا کا رہا ہے۔ لیکن اب عدالتی سسٹم بھی وہی ہے، قوانین بھی وہی انگریزوں کے ہیں، اس لیے اہل علم سے میرا سوال رہتا ہے کہ کیا شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے پر عمل مکمل ہو گیا ہے یا ادھورا ہے؟ جب تک یہاں برطانوی عدالتی و انتظامی سسٹم ختم نہیں ہوتا اور جب تک برطانوی قوانین ختم نہیں ہوتے اس وقت تک وہ فتوٰی باقی ہے۔ ہاں طریقہ کار کی بات الگ ہے کہ عسکری جنگ نہ لڑیں لیکن جدوجہد ضرور کریں۔ ہتھیار نہ اٹھائیں لیکن نعرہ لگائیں۔ قتل قتال نہ کریں لیکن لابنگ کریں۔ اپنے موقف کو نہ چھوڑیں۔ میں جدوجہد کے طریقہ کار پر بات نہیں کر رہا، وہ جو آپ طے کر لیں، لیکن جدوجہد کے مقصد پر بات ضرور کروں گا کہ جب تک انگریزوں کے قوانین یہاں جاری ہیں اور جب تک ان کا انتظامی و عدالتی سسٹم قائم ہے، شاہ عبد العزیزؒ کا فتوٰی ہم سے جدوجہد جاری رکھنے کا تقاضہ کرتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ الحمد للہ! پاکستان بن گیا ہے، ہمارا آدھا کام ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ اسے سلامت رکھیں، استحکام بخشیں، برکات و ترقیات سے نوازیں۔ لیکن اس فتوے کی رو سے ہمارا آدھا کام ابھی باقی ہے کہ ہم نے نظام بدلنا ہے، قانون بدلنا ہے، شریعت کا قانون اور نظام لانا ہے۔ جب تک یہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا فتوٰی سٹینڈ کرتا ہے، اور ہمیں اس ملک کی خیر مناتے ہوئے، اس کے استحکام اور ترقی کے لیے کوشش کرتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، قربانیاں دیتے ہوئے اس فتوے کی تکمیل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!