(ہمدرد یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامیات کے رکن ڈاکٹر یوگندر سکند کی طرف سے ارسال کردہ سوالنامہ کے جوابات)
سوال نمبر ۱: آپ اپنے خاندانی پس منظر اور تعلیمی قابلیت کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
جواب: میری ولادت ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ممتاز تلامذہ میں سے ہیں، کم وبیش ساٹھ سال تک تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث رہے ہیں، دیوبندی مسلک کے علمی ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور کم وبیش پچاس کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں۔ بحمد اللہ حیات ہیں اور اس وقت ان کی عمر ہجری اعتبار سے ۹۳ برس ہے۔
میں نے ابتدائی تعلیم حفظ قرآن کریم اور صرف ونحو گھر میں والد محترم اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کی تعلیم پائی۔ ۱۹۶۹ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ تب سے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔تدریس کا شغل بھی مسلسل جاری ہے۔ پہلے مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تدریسی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں اور چند برسوں سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں صدر مدرس اور ناظم تعلیمات کی ذمہ داریاں میرے سپرد ہیں۔
سوال نمبر ۲: اپنے دینی کام اور معاشرتی مصروفیات، خاص طور پر اپنے تعلیمی ادارے اور جریدے کے حوالے سے کچھ تفصیل بتائیں۔
جواب: سیاسی طور پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے وابستہ ہوں۔ کم وبیش پچیس برس تک صوبائی اور مرکزی سطح پر مختلف عہدوں پر متحرک کردار ادا کیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود کے رفیق کار اور اسسٹنٹ کے طور پر سالہا سال خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا ہے۔ اب ایک عام رکن کے طور پر جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ شریک ہوں جبکہ انتخابی سیاست سے ہٹ کر فکری اور علمی حوالہ سے اسلامائزیشن کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہا ہوں جس کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی آف کراچی ہیں۔ ۱۹۸۹ء سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میری ادارت میں شائع ہو رہا ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ کو درپیش معروضی مسائل کے حوالے سے اپنی بساط کے مطابق خدمت کر رہا ہے۔ میرے بڑے فرزند حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ، جو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور اب اس میں مدرس ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش ہیں، اس میں میرے معاون ہیں۔ گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کے نام سے ایک الگ تعلیمی ادارہ ہم نے قائم کر رکھا ہے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے امتزاج کا تجربہ کر رہے ہیں اور اس میں مختلف کورسز ہر سال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے اور روزنامہ اسلام لاہور میں ’’نوائے حق‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں جو حالات حاضرہ کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ www.alsharia.org کے عنوان سے ہماری اپنی ویب سائٹ کام کر رہی ہے جبکہ روزنامہ پاکستان کے کالم ویب سائٹ www.dailypak.com پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
سوال نمبر ۳: پاکستانی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے بارے میں خود علما کے حلقے میں داخلی طور پر بھی ایک آواز موجود ہے اور پاکستانی حکومت کے علاوہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ کی طرف سے بھی اس قسم کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: پاکستان کے دینی مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے حوالہ سے ہم ایک عرصہ سے خود سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلہ میں میرے بیسیوں مضامین مختلف جرائد واخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس حوالہ سے ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ ڈھانچے اور نیٹ ورک کو قائم رہنا چاہیے اور ان کی آزادی وخود مختاری کا تحفظ ہونا چاہیے۔ البتہ دینی مدارس کو عصری تقاضوں کے پیش نظر اپنے نصاب اور تعلیمی طریق کار میں ایسی تبدیلیاں لانی چاہئیں کہ ان کے فضلا آج کے گلوبل ماحول میں وقت کے حالات، ضروریات ، تقاضوں اور چیلنجز کو سمجھتے ہوئے آج کی زبان اور اسلوب میں دین کی نمائندگی کر سکیں۔
سوال نمبر ۴: موجودہ دینی تعلیمی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟
جواب: موجودہ دینی تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ طالب علم ذہنی، فکری، تہذیبی اور اعتقادی طور پر اپنے ماضی اور اسلاف سے وابستہ رہتا ہے مگر سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ آج کے حالات، تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات کے ادراک سے محروم ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر ۵: کیا آپ کو بھارت کے دینی مدارس کے کچھ ایسے مثبت پہلو دکھائی دیتے ہیں جن کی پیروی پاکستانی دینی مدارس کو بھی کرنی چاہیے؟
جواب: ہمارے خیال میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس کا ماحول، اہداف، طریق کار اور اسلوب کم وبیش یکساں ہے اور تمام خوبیوں اور خامیوں میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ البتہ بھارت میں ندوۃ العلماء کی طرز پر جو کام ہو رہا ہے، پاکستان میں وہ کام اس سطح پر نہیں ہو رہا۔ اس کی اپنی افادیت اور ضرورت ہے اور پاکستان میں بھی اس طرز کے ادارے قائم ہونے چاہئیں۔ خود ہم نے اب سے دس بارہ برس قبل گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے جو پروجیکٹ شروع کیا تھا، اس میں ہمارے پیش نظر ندوۃ العلماء ہی تھا مگر کام کرنے والے دوستوں میں باہمی انڈر سٹینڈنگ قائم نہ رہنے کی وجہ سے ہم اپنے مقصد میں کام یاب نہ ہو سکے۔ اب وہاں شاہ ولی اللہ کیڈٹ کالج کام کر رہا ہے اور میڈیکل کالج کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ راقم الحروف اب بھی اس کا ٹرسٹی ہے مگر عملی طور پر متحرک نہیں ہے۔
سوال نمبر ۶: دینی مدارس نے مختلف مسالک کے مابین اتحاد اور مکالمہ یا کشمکش یا تصادم کے فروغ میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
سوال نمبر ۷: آپ کے خیال میں ایک مسلک کے پیروکاروں کا دوسرے مسلک کی ترجمانی اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کیا رویہ ہے اور مسلکی مقابلہ بازی کے فروغ میں اس رویے کا کتنا حصہ ہے؟
سوال نمبر ۸: پاکستان میں عوام اور بالخصوص علما کے مابین مسلکی تصادم کی فضا کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر ۹: پاکستان کے مختلف مسالک خاص طور پر شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حنفی مسلکو ں کے مابین سنجیدہ، تعمیری اور مثبت مکالمہ کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کچھ تفصیلات بتائیں۔
جواب: مسلکی حوالہ سے مدارس کی موجودہ فضا تسلی بخش نہیں ہے اور جس طرح جذباتی اور مناظرانہ انداز میں طلبہ کی ایک دوسرے کے خلاف ذہن سازی کی جاتی ہے، وہ نقصان دہ ہے۔ اس کے بجائے ہر مسلک کے مدارس کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کو اپنے مسلک اور اس کے دلائل سے ضرور متعارف کرائیں اور ان کی ذہن سازی بھی کریں مگر یہ مثبت طور پر بریفنگ کے انداز میں ہو اور دوسرے مسالک کے معروضی تعارف کے ساتھ اپنے فضلا کو منطق اور استدلال کی زبان میں گفتگو کی تربیت دیں۔ مسلکی تفریق بالکل ختم تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے اور جذباتی انداز کے بجائے استدلال اور افہام وتفہیم کا اسلوب اختیار کیا جائے تو ا س کے نقصانات میں خاصی کمی آ سکتی ہے۔
سوال نمبر ۱۰: سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے آنے والے پیسے نے بین المسلکی تعلقات کو کس حوالے سے متاثر کیا ہے؟
جواب: سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ریاستوں سے مختلف مسلم ممالک میں جو رقوم تقسیم ہوتی ہیں، ان میں مسلکی ترجیحات کا دخل زیادہ چلا آ رہا ہے اور اس کے نقصانات بھی واضح ہیں۔ اس سے باہمی منافرت بڑھی ہے اور خود سعودی حکومت کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات نے جنم لیا ہے۔
سوال نمبر ۱۱: بعض پاکستانی حلقے مثلاً سپاہ صحابہ شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ ہاں یا نہیں کی صورت میں آپ کی رائے کے وجوہ کیا ہیں؟ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو اس نقطہ نظر کی تردید کے لیے آپ نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
جواب: ہم نے سپاہ صحابہؓ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے راہ نماؤں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ براہ راست گفتگو میں بھی انھیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ہم جمہور علماء اہل سنت کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کریم کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر قذف کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے نیز ہم امت کی چودہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی تحفظات رکھتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد اور تاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور استدلال ومنطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے اور اس حوالہ سے ہمیں امت مسلمہ کے اجتماعی رویہ سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر ۱۲: عام طور پر علما اور مدارس تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ کیا آپ اس تصور سے متفق ہیں؟ بین المذاہب مکالمہ کے فروغ اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں مدارس کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ خالصتاً تبلیغی اور دعوتی کوششوں کے علاوہ کیا آپ ایسی مثالیں بتا سکتے ہیں کہ پاکستانی مدارس نے بین المذاہب مکالمہ کے فروغ میں کوئی متحرک کردار ادا کیا ہو؟
جواب: تمام غیر مسلموں کو دشمن قرار دے کر ان کے خلاف محاذ آرائی کی سوچ درست نہیں ہے اور حکمت عملی کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔ دنیا کی غیر مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی دعوت اور پیغام سننے کے لیے تیار ہے مگر ہم اس طرف متوجہ نہیں ہیں۔ غیر مسلموں کے بہت سے حلقے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال میں ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور استعمار دشمنی میں ان کے ساتھ شریک ہیں مگر ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے جبکہ اسلام سے دشمنی رکھنے والے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا اہتمام کرنے والے غیر مسلموں کا تناسب بہت کم ہے لیکن چونکہ سیاست، معیشت، تہذیب وثقافت اور ذرائع ابلاغ پر ان کا کنٹرول ہے، اس لیے ہر طرف وہی دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم اہل دانش کو اس صورت حال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور کفر دون کفر (Lesser Evil) کے اصول پر دنیاے کفر کے بارے میں اپنی ترجیحات نئے سرے سے طے کرنی چاہئیں۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے فکری بیداری اور ذہنی تربیت کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام، اساتذہ، دانش وروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے حضرات تک رسائی کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں ہمدرد یونیورسٹی اس کے لیے زیادہ بہتر خدمت سرانجام دے سکتی ہے۔ اگر اس سمت میں ہمدرد یونیورسٹی یا اس جیسا کوئی اور مسلم ادارہ مثبت پیش رفت کرے تو اسے میرے جیسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے افراد عالم اسلام میں بکھرے ہوئے ملیں گے جو اس رخ پر سوچتے ہیں مگر کوئی فورم اور مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اپنی حسرتوں کا خود اپنے ہاتھوں گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔