خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ بھی ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، شوگر کے ساتھ ساتھ دل اور دمہ کی تکلیف بھی تھی اور کم و بیش ۷۰ برس عمر پا کر وہ دارِفانی سے رحلت کر گئے۔ ان کا تعلق ہزارہ کے علاقہ ہری پور سے تھا اور انہوں نے اس دور میں لاہور میں خطابت کا آغاز کیا جب شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ حیات تھے اور مولانا اجمل خانؒ کو ان کی بھرپور شفقت اور رہنمائی میسر تھی۔ مولانا محمد اجمل خانؒ کا شمار اپنے دور کے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور انہیں خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ’’خطیب اسلام‘‘ کا لقب سب سے پہلے حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کے لیے استعمال ہوا تھا جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ خطیب کی حیثیت سے مختلف محافل میں شریک ہوا کرتے تھے۔ انہیں خطیب الانصار اور خطیب رسول کریمؐ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا تھا اور سب سے پہلے انہی کو خطیب الاسلام کا لقب ملا۔ اس کے بعد ہر دور میں متعدد بڑے بڑے خطباء کو اس لقب سے یاد کیا جاتا رہا جبکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پاکستان میں اس لقب کے ساتھ سب سے زیادہ معروف ہونے والے بزرگ مولانا محمد اجمل خانؒ تھے۔
مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت میں جوش و جذبہ کے ساتھ ساتھ وافر معلومات اور علمی نکات بھی ہوتے تھے۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے جناب نبی اکرمؐ کی خطابت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہؐ جب خطاب فرماتے تو آپؐ کی آواز بلند ہو جاتی تھی، سخت غصے کی کیفیت میں نظر آتے اور آنکھیں سرخ ہو جایا کرتی تھیں۔ مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت میں بھی اکثر اوقات اسی کیفیت کی جھلک نظر آیا کرتی تھی۔ جوانی کے دور میں پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ تین تین چار چار گھنٹے مسلسل بولتے چلے جاتے تھے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے ایک بار میرے سامنے مولانا محمد اجمل خانؒ کو خبردار کیا کہ اتنے زور سے مت بولا کرو اور اتنی لمبی تقریر نہ کیا کرو، بڑھاپے میں تنگ ہوگے اور پھیپھڑے جواب دے جائیں گے۔ مگر جوانی کے جوش اور حق گوئی کے جذبے میں مولانا محمد اجمل خانؒ اس خطرے کو پوری طرح محسوس نہ کر سکے اور ان کا انداز خطابت جوش و جذبے کی پوری جولانیوں کے ساتھ مسلسل جاری رہا۔
مولانا محمد اجملؒ ساری زندگی جمعیۃ علمائے اسلام میں رہے، جمعیۃ کے مختلف عہدوں پر فائز رہے، اور وفات کے وقت انہیں جمعیۃ کے سرپرست اعلیٰ اور بزرگ رہنما کا مقام حاصل تھا۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بعد انہوں نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی رفاقت میں سالہا سال تک کام کیا اور دینی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور مختلف اضلاع میں داخلہ کی پابندیوں اور زبان بندیوں کے ایک طویل سلسلہ کا ہدف بھی رہے۔ عام اجتماعات میں ان کی تقاریر کم و بیش یکساں نوعیت کی ہوتی تھیں لیکن جب انہیں کسی متعین موضوع پر بولنے کے لیے کہا جاتا یا علماء اور کارکنوں کی کوئی خصوصی نشست ہوتی تو ان کا انداز مختلف ہو جاتا تھا اور وہ معلومات کا ایسا انبار لگا دیتے کہ سننے والوں کے لیے ان معلومات کو سمیٹنا مشکل ہو جاتا۔
مولانا محمد اجمل خانؒ کے ساتھ میرا تعلق کم و بیش تیس برس سے تھا۔ وہ میرے مشفق اور دعاگو بزرگ تھے کہ ہمیشہ شفقت اور دعاؤں سے نوازتے۔ وہ جماعتی کاموں میں سرپرستی فرماتے اور مجھے ان کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر کوئی خدمت سر انجام دے کر دلی خوشی میسر آتی۔ مجھے ان کی تین باتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
- ایک ان کا مطالعہ اور وسعت معلومات کہ وہ مسلسل اور بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے خطیب تھے۔ ان کے عمومی خطابات سننے والوں کو اس کا پوری طرح اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن خصوصی مجالس اور علمی نشستوں میں ان کے بیانات سننے والے جانتے ہیں کہ مطالعہ، معلومات اور علمی نکات میں انہیں اپنے معاصر خطباء پر فوقیت حاصل تھی۔ ہمارے دور میں عوامی خطباء میں مطالعہ و تحقیق اور صحیح معلومات تک رسائی کا ذوق بہت کم ہے جو بدقسمتی سے مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ مگر حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کا ذوق بہت بلند تھا اور میں اس حوالے سے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ، اور خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے ساتھ اسی صف میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو بھی شمار کرتا ہوں۔
- دوسری بات ان کی نیکی اور تقویٰ تھا۔ وہ مزاج کی بعض نزاکتوں کے باوجود قناعت پسند بزرگ تھے۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ دین و جماعتی ترجیحات رہیں اور انہوں نے خطابت کے اس اعلیٰ مقام کو کبھی دنیوی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ کم و بیش چار عشروں تک خطابت کی دنیا میں حکمرانی کرنے کے بعد بھی ان کا جنازہ مسجد کے مکان سے اٹھا۔ وہ شب زندہ دار تھے اور صرف اسٹیج کے نہیں بلکہ مصلیٰ اور ذکر و فکر کی دنیا کے بھی بزرگ تھے۔
- تیسری بات ان کی حمیت و غیرت کی ہے کہ وہ دینی شعائر اور اپنے بزرگوں کے حوالے سے سخت غیور تھے۔ دینی شعائر اور اپنے بزرگوں کی ادنیٰ سی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے اور ایسے وقت میں ان کا غصہ اور جوش قابل دید ہوتا تھا۔
بھٹو حکومت کے خلاف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک کا دور تھا، لاہور میں مارشل لاء نافذ تھا اور پاکستان قومی اتحاد کی مرکزی جنرل کونسل پی این اے ہاؤس میں اپنا اجلاس منعقد کرنے پر مارشل لاء کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہو گئی تھی ۔ان میں میاں محمود علی قصوری مرحوم، اقبال احمد خان مرحوم، ملک محمد اکبر ساقی مرحوم، جناب محمد اسلم سلیمی، فرید پراچہ، اور پچاس سے زائد دیگر رہنماؤں کے ساتھ مولانا اجمل خان مرحوم اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ کیمپ جیل لاہور میں آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ قائم ہوئی جس میں کرنل نصیر احمد ہمارے مقدمہ کی سماعت کرتے تھے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک پولیس افسر نے گواہی دیتے ہوئے تھانہ کے روزنامچہ کے بارے میں یہ جملہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے تو یہ قرآن کریم کی طرح ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی مولانا محمد اجمل خان بے تابی سے اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس پولیس افسر نے قرآن کریم کی توہین کی ہے اس کو روکا جائے اور اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کرنل نصیر احمد نے بہت توجہ دلانے کی کوشش کی کہ آپ عدالت میں کھڑے ہیں مگر مولانا محمد اجمل خان کے جوش و جذبہ میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ وہ بدستور کھڑے رہے اور پکارتے رہے کہ اس پولیس افسر کے خلاف کاروائی کے بغیر وہ نہیں بیٹھیں گے اور عدالت کا معاملہ آگے نہیں چلے گا۔
تھوڑی دیر میں عدالت جلسہ گاہ کی صورت اختیار کر چکی تھی، مولانا محمد اجمل خانؒ نے عظمت قرآن کریم پر چند جملے اس انداز سے کہے کہ عدالت میں کہرام مچ گیا، رونے اور سسکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، کچھ نوجوانوں نے جذبات سے مغلوب ہو کر دیواروں سے سر ٹکرانا شروع کر دیے جس پر کرنل موصوف کو مذکورہ افسر کے خلاف کاروائی کے وعدے کے ساتھ عدالت فوری طور پر برخواست کرنا پڑی کہ اس کے بعد عدالتی کاروائی آگے نہ چل سکی۔ اس کے ایک دو روز کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے مارشل لاء کو خلاف دستور قرار دے کر ہم سب کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
دوسرا واقعہ بھی پاکستان قومی اتحاد کے حوالہ سے ہے۔ قومی اتحاد کی جنرل کونسل میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ اکثر مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ جایا کرتے تھے، اور مولانا مفتی محمودؒ قومی اتحاد کے سربراہ تھے۔ ایک اجلاس میں بزرگ مسلم لیگی رہنما خواجہ محمد صفدر مرحوم نے مفتی صاحبؒ کے کسی بیان پر اعتراض کیا اور کہا کہ پالیسی سے متعلقہ معاملات پر بیان دینے سے پہلے مفتی صاحبؒ کو ہمیں یعنی پاکستان قومی اتحاد میں شریک دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ خواجہ صاحب مرحوم کا موقف اصولاً درست تھا مگر لہجہ کچھ تلخ ہوگیا۔ خواجہ صاحب مرحوم خود بھی مسلم لیگ کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور مفتی صاحب کے معاصرین میں سے تھے اس لیے انہوں نے شاید اسے اپنا حق سمجھتے ہوئے لہجے میں تلخی کا عنصر کچھ زیادہ ہی شامل کر لیا جسے مولانا محمد اجمل خانؒ برداشت نہ کر سکے۔ وہ فورًا کھڑے ہوگئے اور خواجہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ صرف ایک سیاسی رہنما سے بات نہیں کر رہے بلکہ جس سے مخاطب ہیں وہ بزرگ عالم دین، بلند پایہ مفتی، اور وقت کے محدث بھی ہیں اس لیے محتاط ہو کر گفتگو کریں۔
خواجہ صاحب نے بہت صفائی پیش کرنا چاہی کہ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے مفتی صاحب کے بیان کا نوٹس لینا اور تنقید کرنا ہمارا حق ہے مگر مولانا محمد اجمل خان نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور آخر خواجہ صاحب کو معذرت کرنا پڑی۔ بعد میں خواجہ محمد صفدر مرحوم نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں اس بات کا شکوہ کیا اور کہا کہ ایک عالم دین اور مفتی کی حیثیت سے مولانا مفتی محمودؒ کا میں بھی احترام کرتا ہوں لیکن سیاست میں یہ باتیں نہیں چلتیں اور ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف اور تنقید کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ خواجہ صاحب کا مقصد یہ تھا کہ میں اس سلسلے میں مولانا محمد اجمل خانؒ سے بات کروں اور ان کے سامنے اس شکوے کا تذکرہ کروں مگر میں نے عرض کیا کہ مولانا محمد اجمل خانؒ سے اس معاملے میں بات کرنے سے بے بس ہوں اس لیے ان سے عرض کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
مولانا محمد اجمل خانؒ اپنے دور کے ایک نیک دل، حق گو، اور غیور عالم دین تھے جنہوں نے زندگی بھر حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ اب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، اور ان کے پسماندگان اور متوسلین بالخصوص ان کے جانشین مولانا محمد امجد خان کو ان کی دینی جدوجہد اور جذبہ و حمیت کی روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔