بعد الحمد والصلٰوۃ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام سے انسانی نسل کی تخلیق کی اور نسل انسانی کے بتدریج ارتقا کے ساتھ انسانی معاشرہ قائم ہوا۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، میل ملاقات، بیماری و صحت، حقوق و معاملات وغیرہ، انسانی معاشرے کے یہ عوامل شروع ہی سے انسان کے ساتھ چلے آرہے ہیں اور انسانی زندگی کی ضروریات انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ بنیادی ضروریات تو تمام انسانوں کی ایک جیسی ہوتی ہیں تاہم انفرادی ضروریات انسان کے ذوق، قابلیت اور ترجیحات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ انسان کی ضروریات کیسی بھی ہوں وسائل کے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں کیونکہ یہ دنیا وسائل اور اسباب کی دنیا ہے، اسباب اور وسائل کے بغیر اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسانی زندگی جنت میں وسائل و اسباب کی محتاج نہیں ہوگی اور وہاں انسان کو اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس دنیا میں بہرحال اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی زندگی کو محنت و مشقت اور وسائل و اسباب کے ساتھ وابستہ کیا ہے، یوں نسلِ انسانی کے تمام لوگ کسی نہ کسی درجے میں اسباب اختیار کر کے ہی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
نسلِ انسانی میں انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے زیادہ متوکل اور ان سے زیادہ دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا کوئی دوسرا طبقہ نہیں ہے لیکن حضرات انبیاء کرامؑ نے بھی زندگی کے وسائل و اسباب اختیار کیے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں حسب ضرورت محنت مزدوری بھی کی، بکریاں بھی چَرائیں اور تجارت بھی کی۔ آپؐ نے ایک مرتبہ خود فرمایا کہ میں نے فلاں قبیلے کی بکریاں اتنی اجرت پر چَرائی تھیں، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عام طور پر انبیاء کرام سے بکریاں چَرانے کا کام لیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے بکریاں چَرانے کا کام اس لیے لیا کہ بکریوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، بھیڑوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے کہ ایک بھیڑ دوسری بھیڑ کے پیچھے چلتی ہے لیکن ایک بکری دوسری بکری کے پیچھے نہیں چلتی۔ حضرت موسٰیؑ کے بکریاں چَرانے کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ ان کا باقاعدہ آٹھ یا دس سال کا معاہدہ تھا جس کے تحت انہوں نے حضرت شعیبؑ بکریاں چرائیں۔ چنانچہ اسباب و وسائل کا اختیار کرنا اس دنیا میں لازمی ہے۔
اسباب اختیار کرنے میں توازن
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اسباب اختیار کیے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی لیکن آپؐ نے اس سلسلے میں ایک توازن قائم کیا، آپؐ نے اسباب کو ترک کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اسباب پر مکمل بھروسہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ رسول اللہؐ کے پاس کوئی شخص سوال لے کر آتا تھا تو حضورؐ اس کی حالت کو پرکھتے تھے اگر وہ معذور یا مستحق ہوتا تو آپؐ اس کی مدد فرماتے تھے لیکن اگر صحت مند اور کمانے کے قابل ہوتا تو اس کی رہنمائی فرماتے تھے، آپؐ اسے محنت و مزدوری کی تلقین کرتے اور کمانے کی ترغیب دیتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس آیا اور آپؐ سے عرض کی کہ یارسول اللہ! محتاج ہوں میری مدد فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا اے اللہ کے بندے تم تندرست اور صحت مند آدمی ہو، محنت مزدوری کر کے کما سکتے ہو اس لیے جاؤ اور اپنے لیے کماؤ۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے پاس گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ گھر میں صرف لکڑی کا ایک پیالہ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور گھر سے وہ پیالہ لے آؤ، وہ شخص گیا اور جا کر پیالہ لے آیا۔ آپؐ نے پیالہ لے کر مجلس میں اس کی بولی دی اور پوچھا کہ کوئی اس پیالے کی کتنی قیمت دے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ایک درہم دیتا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کیا کوئی اس سے زیادہ دیتا ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ ڈیڑھ درہم دیتا ہوں۔ آپؐ نے پھر پوچھا کیا کوئی اس سے زیادہ دیتا ہے؟ ایک نے کہا کہ دو درہم دیتا ہوں۔ فرمایا لاؤ، اس طرح آپؐ نے وہ پیالہ نیلام کر کے بیچ دیا۔ اس رقم سے نبی کریمؐ نے کلہاڑی کا پھل خریدا اور اپنے ہاتھ سے لکڑی کا دستہ اس میں ڈالا۔ پھر اس سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ یہ کلہاڑی لے کر جنگل میں جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور لا کر بازار میں بیچو، چند دن بعد آکر مجھے بتانا کہ کیا صورت حال ہے۔ وہ شخص کلہاڑی لے گیا، چند دن گزرے تو وہ شخص دوبارہ آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں حسب حکم حاضر ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کیا صورتحال ہے؟ اس نے بتایا کہ یارسول اللہ گھر میں آٹا بھی ہے، کھجوریں بھی ہیں اور کھانے پینے کے برتن بھی ہیں۔ فرمایا یہ حالت بہتر ہے یا پہلے والی حالت بہتر تھی؟
اسباب ترک کرنے سے ممانعت
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب ترک کرنے سے منع فرمایا ہے، فرمایا کہ توکل اسباب ترک کردینے کا نام نہیں ہے کہ انسان اسباب کو بالکل چھوڑ دے۔ ایک دفعہ جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں کہیں سے ایک مہمان آیا، آپؐ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ کوئی باہر سے مہمان آتا تو آپؐ پہلے اس سے کھانے پینے کے متعلق پوچھتے، سواری کے جانور کے متعلق پوچھتے کہ اسے کہاں باندھا ہے اس کی خوراک وغیرہ کا انتظام کیا ہے اور رہنے کا بندوبست کہاں ہے؟ کوئی دور سے آدمی آتا تو آپؐ اس سے اِن ضروریات کے متعلق دریافت فرماتے۔ آپؐ نے اس شخص سے پوچھا کیسے آئے ہو؟ اس نے بتایا کہ اونٹ پر آیا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟ کہنے لگا کہ باہر چھوڑ دیا ہے۔ آپ نے پوچھا باہر کہاں چھوڑ دیا ہے؟ اس نے کہا کہ بس اللہ کے توکل پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا، بندۂ خدا توکل اس کا نام نہیں ہے پہلے جا کر اس کی رسی کسی جگہ پر باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرو۔ یعنی اس کی حفاظت کا جتنا بندوبست تمہارے ذمے ہے وہ تم کرو اور اس کے بعد اسے اللہ کے بھروسے پر چھوڑو۔ رسول اللہؐ نے تعلیم یہ دی کہ جو تمہارے بس میں ہیں وہ اسباب اختیار کرو اور پھر نتیجہ خدا پر چھوڑ دو۔ اس لیے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن نتیجہ انسان کے بس میں نہیں ہے، اسباب پر بھروسہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسباب کے پیدا کرنے والے پر بھروسہ ہونا چاہیے کہ اے اللہ جو میرے بس میں تھا میں نے کر دیا ہے اب تو مہربانی فرما۔
اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول
آج کی دنیا کے مروجہ معاشی علوم نے فلسفے اور سائنس کے طور پر گزشتہ چند صدیوں میں منظم شکل اختیار کی ہے، لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں خلفائے راشدینؓ نے آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل اسلامی نظامِ حکومت کے تحت معاشی حقوق اور معاشی عدل کا ایک عظیم الشان تصور قائم کر دیا تھا اور پھر اپنی زندگیوں میں اس تصور کے عملی نمونے بھی پیش کر دیے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے تو ایک ہی جملے میں اسلام کے نظام معیشت کا خلاصہ بیان فرما دیا ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ (سورۃ الحشر ۷) تاکہ دولت تمہارے دولتمندوں میں ہی نہ گھومتی رہے۔
اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کے حقوق بیان کیے، پھر یہ جملہ فرمایا کہ یہ دولت تقسیم کرنے کا نظام ہم نے اس لیے دیا ہے تاکہ دولت صرف دولتمندوں میں ہی نہ گھومتی رہے بلکہ سارے معاشرے میں گردش کرے۔ اسلام کے معاشی نظام کا مقصد ہی یہ ہے کہ دولت معاشرے میں صرف مالداروں کے پاس ہی نہ رکی رہے بلکہ ایک خودکار طریقے پر معاشرے کے تمام طبقات میں تقسیم ہوتی رہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ معاشرے میں دولت کی مثال ایسے ہے جیسے انسانی جسم میں خون، کیونکہ جسم کے ہر حصے کو اپنی ضرورت کے مطابق خون ملتا رہے تو جسم کا نظام ٹھیک چلتا رہتا ہے۔ انگلی کی ضرورت الگ ہے، کان کی ضرورت الگ ہے اور بالوں کی ضرورت الگ ہے، یوں کسی عضو کو کم ضرورت ہے اور کسی کو زیادہ۔ اگر جسم کے کسی حصے میں خون ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو وہاں پھوڑے پھنسیاں بن جاتے ہیں، جلد خراب ہو جاتی ہے اور پیپ پیدا ہو جاتی ہے، ضرورت سے زیادہ خون جلد کو فاسد کر دیتا ہے، جبکہ ضرورت سے کم خون فالج کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے خون کا پورے جسم میں ایک تناسب اور توازن کے ساتھ گردش کرنا اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔ یہی اصول قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ دولت کا معاشرے میں ایک تناسب کے ساتھ گردش کرنا لازمی ہے، ہر ایک کو اس کا حصہ ملنا ضروری ہے اور دولت کا کسی ایک جگہ بلا ضرورت جمع ہو جانا نظام معیشت کی خرابی کا باعث ہے۔
دولت کی گردش
چنانچہ دو چیزیں اسلامی نظام میں ایسی ہیں جو دولت کی تقسیم اور گردش کا ذریعہ ہیں: (۱) وراثت (۲) زکوٰۃ۔
ایک آدمی ساری زندگی محنت کر کے جو جائیداد بناتا ہے، وہ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد میں تقسیم کر دی جاتی ہے، اگر اس کی اپنی اولاد نہ ہو تو پھر یہ جائیداد رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ تقسیم ہوتی ہے۔ اسی طرح جب اس آدمی کی اولاد کی وفات کا وقت آتا ہے تو ان کی جائیداد آگے ان کی اولاد میں تقسیم ہو جاتی ہے، یوں تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ معاشرے میں دولت کی گردش کو جاری رکھتا ہے، اور یہی وراثت کا اصل مقصد ہے کہ وراثت کی تقسیم دولت کو ایک جگہ پر منجمد نہیں رہنے دیتی۔
زکوٰۃ بھی دولت کو تقسیم کرتی ہے کہ دولتمند لوگ اپنی دولت کا چالیسواں حصہ ہر سال فقراء، غرباء و مساکین کو دیتے ہیں، زکوٰۃ کے ذریعے مجموعی طور پر ایک خطیر رقم معاشرے کے نادار لوگوں تک ہر سال پہنچتی رہتی ہے۔ زکوٰۃ کے احکام دولت کی جنس کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ اسلام نے دولت کی تقسیم ایسے نظم کے تحت کی ہے جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے، اور جس میں حقوق کا تعین مساوات کی بنیاد پر ہے۔
ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم
تاریخ میں حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے درمیان ایک دلچسپ اختلاف مذکور ہے، خلافت راشدہ کے قیام کے بعد جو پہلا باضابطہ اختلاف ہوا جس میں حضرت ابوبکرؓ اپنے موقف پر قائم رہے اور حضرت عمرؓ اپنے موقف پر قائم رہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ جب خلیفہ بنے تو سب سے پہلا مال بحرین سے آیا، حضرت بلالؓ جو مہم پر تھے اور رسول اللہؐ کی وفات سے چند روز بعد واپس آئے، بحرین سے جتنا مال آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا مال کہیں سے نہیں آیا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے شوریٰ والوں کو بلایا کہ بھئی مال آیا ہے اور تقسیم کرنا ہے لیکن پہلے ہمیں تقسیم کے اصول طے کرنے ہوں گے کہ کس کو کتنا حصہ ملے، اس پر شوریٰ کے اراکین میں بحث ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا موقف
حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ وظائف کی تقسیم میں فضیلت کے درجات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ مثلاً ازواجِ مطہرات کو سب سے زیادہ دیا جائے، پھر مہاجرین کو، پھر انصار کو اور اس کے بعد دوسرے مسلمانوں کو اور اس کے لیے باقاعدہ درجہ بندی کی جائے۔ مگر حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے یہ تھی کہ فضیلت کا تعلق آخرت سے ہے، اس کا لحاظ بروز قیامت ہوگا کہ جو زیادہ فضیلت والا ہے وہ جنت میں زیادہ اونچے درجات پر پہنچے گا، جنت کے درجات ثواب کے حساب سے ہوں گے، یعنی فضیلت کا تعلق آخرت میں ثواب اور اجر سے ہے۔ جبکہ یہ دنیا اسباب اور حقوق کی دنیا ہے، اس دنیا کے معاملات حقوق پر ہیں اور حقوق میں سب برابر ہیں، رعیت میں سب یکساں حقوق کے حصے دار ہیں، اس لیے جتنا حصہ مہاجر کو ملنا چاہیے اتنا ہی انصاری کو ملنا چاہیے، وظیفہ سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کے اڑھائی سے تین سالہ دور خلافت میں یکساں حصے تقسیم کیے گئے، جو حصہ حضرت عائشہؓ کو ملا وہی حضرت بلالؓ کو ملا، جو بدری کو ملا وہی احد والے کو ملا۔
یہاں ایک فرق ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ حضرت صدیق اکبرؒ کے موقف کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جس کے پاس زیادہ ہے اس سے چھین کر سب کو برابر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ جو حقوق ریاست دیتی ہے ان حقوق میں برابری ہو، جو وظیفے بیت المال دیتا ہے اس میں سب کے ساتھ برابری کا معاملہ ہو، اب جس کو پیسے ملے ہیں اس کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس رقم کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک باپ نے اپنے دو بیٹوں کو اپنی کمائی میں سے دس دس ہزار روپے دیے، اس نے اولاد کے ساتھ برابری کا حق ادا کر دیا۔ اب یہ عین ممکن ہے کہ اولاد میں سے ہر ایک کی صلاحیتیں اور ذوق دوسرے سے مختلف ہوں، ایک نے رقم جمع کر کے کوئی کاروبار کیا اور اگلے سال تک زیادہ پیسے بنا لیے۔ دوسرے نے اپنی روز مرہ ضروریات اتنی بڑھا لیں کہ اسی پر سب پیسے خرچ ہوگئے اور سال کے آخر میں اس کے پاس کچھ بھی نہ بچا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے یہ تھی کہ ریاست سب کے ساتھ برابری کرے، اس میں ترجیحات نہ ہوں۔
حضرت عمر فاروقؓ کا موقف
حضرت عمر فاروقؓ خود مجتہد اور صاحب علم آدمی تھے، حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ صحابہ کرامؓ میں جو فضیلت کے درجات ہیں، اس کے حساب سے تقسیم کے حصے طے ہونے چاہئیں۔ اس لحاظ سے سب سے زیادہ حصہ ازواج مطہرات کو ملنا چاہیے، اس سے کم حضورؐ کے باقی خاندان کو یعنی بیٹیاں وغیرہ، پھر مہاجرین و انصار کو۔ اسی طرح مختلف غزوات میں شریک ہونے والوں میں بھی ترجیح ہونی چاہیے کہ بدر والوں کو زیادہ ملے اور باقی غزوات والوں کو درجہ بدرجہ ان سے کم ملنا چاہیے، یعنی مال کی تقسیم فضیلت کے اعتبار سے ترجیحات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق مسلمانوں کے دلوں میں جو عقیدت کی ترجیحات ہیں اور جو فضیلت کے درجات ہیں ان کے مطابق دولت تقسیم ہو۔ مثلاً جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ترتیب بیان فرمائی ہے ’’والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ‘‘ اور سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں مہاجرین اور انصار اور جو نیکی میں ان کے پیروی کرنے والے ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے اپنی دیانت دارانہ رائے کے مطابق فہرستیں مرتب کرائیں اور فضیلت کے اعتبار سے تقسیم کا نظام قائم کیا۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے دس سال یہی طریقہ کار چلتا رہا۔ کتاب الخراج میں امام ابو یوسفؒ روایت نقل کرتے ہیں کہ آخری سال ایک مجلس میں حضرت عمرؓ نے یہ بات کہی کہ بھئی بات سنو ، میں نے شیخ (حضرت ابوبکرؓ) کی رائے سے اختلاف کیا تھا، اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی بات ٹھیک تھی۔ اس لیے کہ ترجیحات میں جب تفاوت ہوا تو معاشرے میں مختلف طبقات بن گئے، اور یہ فطری بات ہے کہ جب لوگوں کے ساتھ لین دین مختلف ہوگا تو اس سے مختلف طبقات بھی بنیں گے۔ جیسے مثال کے طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین میں جو گریڈ سسٹم ہے، وہ ہمارے ہاں تعارف کی بنیاد ہی بن گیا ہے، کسی سرکاری ملازم کا ذکر ہوتا ہے تو ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ فلاں گریڈ کا ٹیچر ہے یا فلاں گریڈ کا افسر ہے۔ بلکہ یہ گریڈ سسٹم معاشرے میں تفاوت کا سبب بھی بن گیا ہے کہ اونچے گریڈ والے کو نچلے گریڈ والے سے کوئی کام پڑ جائے تو وہ اس سے درخواست کرنے میں ہچکچاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے تفاوت کے اصول پر وظائف تقسیم کیے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی منظور تھا۔ لیکن آخری سال یہ اعتراف فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے میری رائے کے مقابلے میں زیادہ ٹھیک تھی، آئندہ سال اگر مجھے موقع ملا تو میں خلیفہ اول کا سسٹم بحال کر دوں گا، لیکن حضرت عمرؓ کو آئندہ سال موقع نہ ملا کہ انہیں شہید کر دیا گیا۔ جبکہ حضرت عثمانؓ حضرت عمرؓ کے پہلے موقف کے حامی تھے، چنانچہ وہی نظم چلتا رہا۔
دولت کی تقسیم میں ریاست کا صوابدیدی اختیار
یہاں علماء نے بڑی دلچسپ بحث کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی آرا ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں، دونوں نے بحیثیت امیر المؤمنین اپنی اپنی رائے پر عمل کیا، جبکہ صحابہؓ نے دونوں کا ساتھ دیا۔ علماء فرماتے ہیں کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں کی گنجائش رکھی ہے۔ یہ حالات پر منحصر ہے کہ اگر حالات کا تقاضا برابری کا ہو تو اس کے لیے خلیفہ اول کی مثال سامنے ہے، اور اگر حالات کا تقاضا ترجیحات کا ہو تو اس کی گنجائش بھی ہے کہ خلیفہ دوم نے اسی پر عمل کیا ہے۔ اگر اسلامی حکومت اپنے ملک میں حالات محسوس کرے کہ برابری کی ضرورت ہے تو اس کی گنجائش بھی موجود ہے، لیکن اگر ترجیحات کی ضرورت ہو تو اس کی مثال بھی موجود ہے۔
غزوۂ حنین کے دو اہم واقعات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں غزوۂ حنین ایک مشہور معرکہ ہے، بنو ہوازن کے ساتھ لڑائی تھی اور وہ لوگ ان گنت جانور اور بے تحاشا مال و دولت ساتھ لے کر میدان جنگ میں آئے تھے، جس میں سونا وغیرہ بھی تھا، فتح کے نتیجے میں یہ سب مال غنیمت کی صورت میں مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، اس غزوہ میں مسلمانوں کو مال بھی بہت ملا اور قیدی بھی بہت ہاتھ آئے۔ دستور کے مطابق رسول اللہؐ نے مال غنیمت بھی تقسیم فرما دیا اور قیدی بھی بطور غلام تقسیم فرما دیے۔ اس غزوہ میں دو اہم واقعات رونما ہوئے۔
انصارِ مدینہ کی فضیلت
ایک تو یہ کہ رسول اللہؐ نے مال کی تقسیم میں نو مسلموں کو ترجیح دی، خاص طور پر جو لوگ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے ان کو زیادہ نوازا۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ یہ لوگ شکست کے بعد ایسی صورت حال میں مسلمان ہوئے تھے کہ بظاہر ان کے پاس اس کے سوا چارہ نہ تھا اس لیے حضورؐ نے حوصلہ افزائی کے لیے ان لوگوں کو زیادہ حصہ دیا کہ ان کے دل میں مجبوری یا جبر کے ساتھ مسلمان ہونے کا خیال نہ آئے، اب اتفاق کی بات یہ تھی کہ ان میں حضورؐ کے خاندان کے افراد زیادہ تھے۔ چنانچہ انصارِ مدینہ میں سے کسی نوجوان کی زبان پر یہ بات آگئی کہ ماریں ہم کھاتے رہے اور سونا چاندی یہ لوگ لے گئے۔ انسان کمزور ہے کبھی ایسی بات زبان پر آجاتی ہے، کہنے والے کے دل میں یہ خیال آگیا کہ بدر میں، احد میں، خندق میں ہم نے لڑائیاں لڑیں اور آج دولت کی تقسیم کی باری آئی ہے تو قریشی غالب آگئے۔ رسول اللہؐ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپؐ نے حکم فرمایا کہ انصار مدینہ ایک جگہ اکٹھے ہوں۔ یہ ایک بہت عظیم طبقہ تھا جتنی قربانیاں انصار مدینہ نے دیں اور جتنا ایثار انہوں نے دکھایا دنیا کا اور کوئی طبقہ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ جب انصار اکٹھے ہوئے تو حضورؐ نے ان سے فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ماریں کھانے اور لڑائیاں لڑنے میں ہم آگے رہے جبکہ مال غنیمت کا سونا چاندی اور مال مویشی قریش والے لے گئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو تو میں نے اس لیے زیادہ دیا ہے کہ یہ نو مسلم ہیں اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم انصار لوگوں کی خدمات اور قربانیوں میری نظروں سے اوجھل نہیں ہیں ’’والذی نفس محمد بیدہ لو سلک الناس وادیاً وسلکت الانصار وادیاً لسلکت وادی الانصار‘‘ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے اگر ساری دنیا کے لوگ ایک طرف چل پڑیں اور انصار دوسری طرف چلیں میں انصار کے ساتھ چلوں گا۔ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگوں کے لیے بکریاں اور مال ہوں لیکن تمہارے لیے محمدؐ ہوں؟ اس پر انصار بیک وقت پکار اٹھے ’’رضینا باللّٰہ رباً وبالاسلام دیناً وبمحمد نبیاً‘‘۔
حقوق کے معاملے میں انفرادی رائے معلوم کرنا
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ بنو ہوازن کے لوگ رسول اللہؐ کے پاس وفد لے کر آگئے، کہنے لگے جناب جو ہوا سو ہوا کہ آپ کو فتح حاصل ہوئی اور ہمیں شکست ہو گئی لیکن ہماری بہت بے عزتی ہوئی ہے، لڑائی میں شکست کی وجہ سے نہیں بلکہ قیدی اور بہت سا مال آپ کے قبضے میں آنے سے۔ اگر آپ مہربانی فرما کر ہمارے قیدی اور مال واپس کر دیں تو ہماری کچھ عزت بحال ہو جائے گی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دونوں چیزیں نہیں ملیں گی ایک چیز کا انتخاب کر لو، یا قیدی واپس لے لو یا مال لے لو۔ یہ سب چیزیں ہم نے میدان جنگ میں قبضہ کی ہیں اصولی طور پر تو تمہارا دونوں پر حق نہیں بنتا لیکن ہماری پیشکش یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک چیز واپس لے سکتے ہو۔ چنانچہ وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہم مشورہ کر کے آپ کو بتائیں گے، وہ لوگ جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں ایک بار پھر آئے اور کہا کہ ہم نے مشورہ کر لیا ہے ہمیں مال نہیں چاہیے بلکہ ہمارے قیدی واپس کر دیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا، ٹھیک ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ قیدی تو تقسیم کیے جا چکے ہیں، جن لوگوں کو یہ قیدی دیے گئے ہیں ان سے بات کر کے میں آپ لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
چنانچہ آپؐ نے اپنے لشکر کے ساتھ بات کی کہ اس طرح بنو ہوازن کا وفد آیا تھا وہ اپنا مال اور قیدی واپس مانگ رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مال یا قیدیوں میں سے ایک واپس لے لو، وہ دوبارہ آئے ہیں اور اپنے قیدی واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، میں دونوں میں سے ایک چیز واپس کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر تم لوگ بخوشی قیدی واپس کر دو تو تمہاری مرضی ہے اگر نہیں کرنا چاہتے تو مجھے بطور قرض دے دو، میں اگلے موقع پر پہلے تم لوگوں کا قرض ادا کروں گا اور پھر باقیوں کو دوں گا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے بیک وقت کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بخوشی واپس کرتے ہیں۔ آپ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہم پورا کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں بھئی اس طرح نہیں کیونکہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ تم میں سے کون خوشی کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہے اور کون اپنے آپ کو اس کے لیے مجبور سمجھ رہا ہے۔ فرمایا جاؤ اپنے اپنے خیموں میں، تمہارے قبیلوں اور گروپوں کے جو عرفاء یعنی نمائندے ہیں وہ تم سے رات کو بات کریں اور پھر صبح کو آکر مجھے تمہاری رضا کے متعلق بتائیں تب میں فیصلہ کروں گا۔ چنانچہ رات درمیان میں گزری، دوسرے دن رسول اللہؐ کے پاس تمام گروپوں کے عریف آئے کہ یا رسول اللہؐ ہم نے اپنے ساتھیوں سے بات کر لی ہے سب قیدیوں کو بخوشی واپس کرنے پر راضی ہیں، اس طرح رسول اللہؐ نے قیدی واپس کر دیے۔ رسول اللہؐ نے حقوق کے معاملے میں رائے معلوم کرنے کا طریقہ بھی بتلایا کہ جب تک سب کے بارے میں انفرادی طور پر تسلی نہ ہو جائے، قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ نبی کریمؐ نے یہاں یہ بتایا کہ جہاں حقوق کی بات ہو وہاں گول مول بات نہیں چلتی۔
حکمرانی ، ایک ذمہ داری نہ کہ ذریعۂ عیش و عشرت
خلافت راشدہ میں دفتری نظام، فہرستیں، اعداد و شمار، مردم شماری، یہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں شروع ہوئی، پھر حضرت عمر فاروقؓ نے اس نظام کے تحت وظائف کی تقسیم کا اہتمام کیا۔ حضرت عمرؓ اپنے عمّال یعنی گورنروں کو جو ہدایات فرمایا کرتے تھے ان میں دو تین باتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس زمانے میں مختلف قسم کے عامل ہوتے تھے۔ ایک عامل ہوتا تھا منتظم، اور ایک ہوتا تھا قاضی۔ اس کے علاوہ ایک اور ذمہ داری لوگوں سے زکوٰۃ و عشر اور بیت المال کے واجبات وصول کرنے کی ہوتی تھی۔ حسب ضرورت ایک آدمی کو بھی مختلف ذمہ داریاں دے دی جاتی تھیں اور کبھی ایک ڈیوٹی پر ایک سے زیادہ آدمی متعین کر دیے جاتے تھے۔ خلافت راشدہ کا اصول یہ تھا کہ حکمرانوں اور رعیت کے درمیان معیارِ زندگی میں زیادہ فرق نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی ہدایات تھیں کہ کوئی گورنر
- اپنے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنا سکتا۔
- ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتا۔
- باریک لباس نہیں پہن سکتا۔
- چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھا سکتا۔
ترکی گھوڑے پر سفر کرنا، گھر کے آگے ڈیوڑھی بنوانا، باریک لباس پہننا اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانا اس زمانے میں عیش و عشرت کی علامات تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کو خبر ملی کہ ان کے ایک گورنر عیاض بن غنمؓ نے باریک لباس پہننا شروع کر دیا ہے، حضرت عمرؓ نے اپنے نمائندے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو بھیجا کہ جا کر اس معاملہ کی تحقیق کرو۔ اگر یہ خبر درست ہے تو گورنر صاحب جس حالت میں ہوں اسی حالت میں انہیں اپنے ساتھ لے کر آؤ۔ محمد بن مسلمہؓ گئے اور جا کر عیاض بن غنمؓ سے کہا کہ گورنر محترم! امیر المؤمنین کا حکم یہ ہے کہ اگر میں آپ کو باریک لباس پہنے دیکھوں تو آپ کو اسی حالت میں پکڑ کر امیر المؤمنین کے پاس لے جاؤں، اس لیے آپ کسی کو اپنا قائم مقام مقرر کریں اور میرے ساتھ چلیں، چنانچہ وہ گورنر صاحب کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت عمرؓ نے عیاض بن غنم سے فرمایا کہ اچھا! اب تجھے لوگوں پر حکمرانی کا شوق آگیا ہے، تم نے حکمرانی کو لذت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ فرمایا کہ جناب گورنر! یہ کرتا اتاریں اور بکری کے بالوں کا بنا ہوا جبہ پہنیں آپ کے ذمے ایک نئی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے کہ آج کے بعد آپ بیت المال کی بکریاں چَرایا کریں گے۔ چنانچہ چھ مہینے تک عیاض بن غنمؓ نے ننگے بدن پر بکری کے بالوں کا جبہ پہن کر بیت المال کی بکریاں چَرائیں۔ چھ مہینے گزرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے بلا کر پوچھا کہ جناب کچھ مزاج ٹھکانے آئے ہیں؟ عیاض بن غنمؓ نے کہا کہ جی امیر المؤمنین آگئے ہیں، چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں ایک بار پھر گورنر مقرر کر دیا۔ یہ حضرت عمرؓ کا اپنے عُمّال کے ساتھ معاملہ تھا، یعنی یہ بتایا کہ جو عام لوگوں کا حق ہے وہی تمہارا حق بھی ہے اور یہ کہ حکمرانی نے تمہارے ساتھ سرخاب کے پر نہیں لگا دیے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور صحابہؓ میں بہت بڑی شخصیت تھے آپؓ السابقون الاولون میں سے تھے اور ایران کے فاتح تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں کوفہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، حضرت عمرؓ کو یہ شکایت ملی کہ حضرت سعدؓ نے اپنے گھر کے دروازے کے آگے ایک ڈیوڑھی بنوا رکھی ہے۔ حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہؓ کو بھیجا اور فرمایا کہ اگر ڈیوڑھی دیکھو تو ڈیوڑھی گرا کر پھر انہیں بتانا کہ میں نے ایسا کرنے کے لیے کہا ہے۔ حضرت سعدؓ اپنے گھر بیٹھے تھے کہ باہر شور مچ گیا کہ امیرِ کوفہ کی ڈیوڑھی گر گئی ہے۔ باہر نکل کر دیکھا تو محمد بن مسلمہؓ تھے سب کو پتہ چل گیا کہ کون آیا ہے اور ڈیوڑھی کس وجہ سے گری ہے، محمد بن مسلمہؓ نے بتایا کہ امیر المؤمنین کا حکم تھا کہ ڈیوڑھی گرا کر پھر آپ کو بتایا جائے۔
حضرت عمر فاروقؓ اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ لوگوں اور حکمرانوں کے درمیان کوئی خلیج حائل نہ ہو اور ان کے حقوق و معاملات اور معاشرت میں فرق نہ آنے پائے۔ اگرچہ وظائف کی تقسیم میں ترجیحات کا طریقہ کار تھا لیکن عمومی پالیسی یہ تھی کہ ہر آدمی کو عُمّال تک، سرکاری حکام تک رسائی حاصل ہونی چاہیے اور انہیں ان کا حق بلا تاخیر ملنا چاہیے۔
ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے وظیفہ
ہر وہ بچہ جو دودھ پینے کی عمر سے گزر جائے ، حضرت عمر فاروقؓ نے اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک دن رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے ایک بچے کے مسلسل رونے کی آواز آرہی تھی، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک بچہ ماں کی گود میں مسلسل روئے جا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بچہ ماں کی گود میں زیادہ دیر نہیں رو نہیں سکتا، ضرور کوئی غیر معمولی بات ہے، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ماں بچے سے دودھ چھڑانا چاہتی ہے تاکہ بچے کا وظیفہ مقرر ہو جائے لیکن بچہ ابھی ایک سال کا ہے اور دودھ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ آپؓ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ عمر کی مملکت میں اتنا ظلم ہو رہا ہے، حضرت عمرؓ نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ مائیں اس پالیسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وظیفہ حاصل کرنے کی لالچ میں اپنے بچوں سے دودھ چھڑوا رہی ہیں۔ آپؓ نے حکم دیا کہ آج کے بعد بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔
ذِمّی کے لیے وظیفہ
ذمیوں یعنی اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں کے لیے بھی وظیفے مقرر تھے، ایک دن حضرت عمرؓ بازار میں جا رہے تھے دیکھا کہ ایک بوڑھا یہودی بازار میں مانگ رہا تھا۔ پوچھا کہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ ایک یہودی ہے۔ پوچھا مانگ کیوں رہا ہے کیا اسے وظیفہ نہیں ملتا؟ بوڑھے کو نہیں پتہ تھا کہ یہ حضرت عمرؓ ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ عمر کو جزیہ دینا ہوتا ہے اب میرے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے کہ جزیہ دے سکوں۔ حضرت عمرؓ پریشان ہوگئے اور واپس آکر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ذمی لوگ جوانی میں تو محنت مزدوری کر کے ہمیں جزیہ دے سکتے ہیں، بڑھاپے میں کیا کریں۔ پھر یہ حکم جاری کیا کہ تحقیق کرو کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہیں رہا اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جو اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتا اسے بیت المال سے وظیفہ دیا جائے گا۔ فرمایا ایسے اور لوگوں کو تلاش کرو جو جزیہ ادا کرنے کے لیے اس طرح پریشان ہو رہے ہوں گے، یعنی ریاست کے ذمے ہر شہری کے حقوق ہیں۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ لباس، کھانا پینا اور شادی بھی ریاست کے ذمے ہے، اگر کوئی آدمی اپنی شادی کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا تو ریاست اس کی شادی کا خرچ اٹھانے کی ذمہ دار ہے، کوئی آدمی اپنا مہر ادا نہیں کر سکتا تو ریاست اس کا مہر ادا کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے اسلامی فلاحی ریاست کا جو تصور دیا وہ یہی ہے کہ مملکت کے شہری سکون سے رہیں اور ہر فرد کو اس کا صحیح حق ملے۔ یہی جناب نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں معاشی انصاف کا دائرہ ہے۔