حرمین شریفین کی حاضری کسی بھی مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور برکتوں کے اس ماحول میں وقت گزارنے کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں انگڑائی لیتی رہتی ہے۔ اللہ رب العزت کا بے پناہ فضل و کرم ہے کہ اس نے زندگی میں متعدد بار یہ سعادت نصیب فرمائی ہے اور اس سے بڑا کرم یہ کہ اکثر اوقات یہ حاضری کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوتی ہے اور ہر بار ’’من حیث لا یحتسب‘‘ پر ایمان میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ رمضان المبارک سے دو تین ہفتے قبل ہمارے ایک عزیز شاگرد مفتی محمد اسامہ رؤف جو ’’جی مگنولیا ٹاؤن‘‘ گوجرانوالہ کی ایک مسجد کے خطیب و منتظم ہیں اور ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور شہر کے متحرک اور سرگرم عالم دین مولانا مفتی نعمان احمد کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ استاذ جی میں رمضان المبارک کے دوران عمرہ کے لیے جا رہا ہوں، میں نے کہا کہ اللہ پاک مبارک کریں، ضرور جائیں۔ کہنے لگے کہ آپ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا ہوں، اس پیشکش پر انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی، شکریہ کے ساتھ قبول کی اور کہا کہ میں رمضان المبارک کے وسطی عشرہ کا وقت دے سکوں گا تاکہ دیگر ضروری مصروفیات متاثر نہ ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پاسپورٹ لیا اور کہا کہ اس کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے تلقین کی کہ روانگی سے قبل اس کی تشہیر نہ کرنا، انہوں نے وعدہ کر لیا اور میں اپنی مصروفیات میں محو ہو گیا، کچھ دنوں کے بعد انہوں نے بتایا کہ ۱۲ رمضان المبارک کو روانگی اور ۲۲ رمضان المبارک کو واپسی کی ترتیب بن گئی ہے اور ہمارے ساتھ دو اور ساتھی ہوں گے، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل و مدرس مولانا سبحان اللہ اور ایک عزیز نوجوان عبد الحنان بھی اس سفر میں شریک ہوں گے۔
چنانچہ ہم چاروں تین اپریل ۲۰۲۳ء کو رات لاہور سے روانہ ہو کر صبح سحری کے وقت مدینہ منورہ ایئرپورٹ پر اترے۔ ہوٹل میں کمرہ بک کرا رکھا تھا مگر ہماری بڑی پھوپھی جان مرحومہ کے ایک عزیز سید احسان شاہ شیرازی مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور لمی بٹل (ہزارہ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ مفتی محمد اسامہ کا کسی ذریعے سے ان سے رابطہ ہوا تو میرے بارے میں انہوں نے پابند کر دیا کہ وہ میرے گھر میں رہیں گے، اس لیے ایئرپورٹ سے سیدھے میرے گھر آئیں، چنانچہ ہم نے چار اپریل کو سحری ان کے ہاں کی۔
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل قاری محمد عثمان رمضان اپنی خالہ محترمہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے اس سے چند روز قبل پہنچے تھے اور اس روز مدینہ منورہ میں تھے، وہ بھی ہمارے ساتھ سرگرمیوں میں شریک ہو گئے۔ ہم نے پانچ دن حرمِ مدینہ میں گزارے اور پانچ دن حرمِ مکہ میں گزارنے کے بعد تیرہ اپریل کو جدہ سے میری لاہور واپسی ہو گئی، جبکہ باقی دوستوں نے رمضان المبارک کے باقی ایام وہیں رہنے کا پروگرام بنا رکھا تھا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
اس دوران مسجد نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کی نمازوں میں حاضری کے ساتھ ساتھ روضہ اطہر پر سلام پیش کرنے کی سعادت اور مسجد نبوی کی پر رونق افطاری میں روزانہ شرکت ہمارے لیے بے پناہ رحمتوں اور برکتوں کا باعث بنی، اس کے علاوہ اس سفر مبارک کے تاثرات و مشاہدات میں دو تین باتوں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ڈھاکہ بنگلہ دیش سے چند علماء کرام کا کچھ دنوں سے تقاضہ چل رہا تھا کہ میں انہیں آن لائن نشست میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی روایت سنا کر اپنی اسناد کے ساتھ روایتِ حدیث کی اجازت دوں، جس کے لیے ڈھاکہ کے مولانا عمیر حسن مسلسل رابطہ میں تھے، اس کے لیے حرمِ نبویؐ سے بہتر اور کوئی مقام نہیں تھا، چنانچہ ایک روز تراویح کے بعد مسجد نبویؐ کے باب قبا سے باہر صفوں میں اس کا موقع بن گیا اور قاری محمد عثمان رمضان نے آن لائن نشست کا اہتمام کر لیا جس میں ان علماء میں سے ایک دوست نے بخاری شریف کی پہلی روایت سنائی اور میں نے مسلسل بالاولیۃ کے عنوان سے روایت کی جانے والی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت انہیں سنائی جو میں نے دو معروف عرب محدثین الشیخ ابو الفیض محمد یاسین الفادانی المکی اور الشیخ المعمر عبد اللہ بن احمد الناخبی الیمنی رحمہما اللہ تعالیٰ سے سنی تھی اور ان کی سند کے ساتھ روایت کرتا ہوں۔
مسجد نبوی کا ایک اور واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ محدث کبیر حضرت مولانا عاشق الٰہی البرنی المدنیؒ کے پوتے مولانا احمد الحجازی المدنی ہماری ملاقات کے لیے تشریف لائے تو ان کے ساتھ ایک صاحب تھے جن کا تعارف انہوں نے اس طرح کرایا کہ یہ صاحب پاکستان سے بائیسکل پر سفر کر کے مدینہ منورہ آئے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ کون سے شہر سے؟ بتایا کہ گکھڑ سے۔ مزید تفصیل پوچھی تو وہ ہمارے محلہ بلکہ گلی کے نکلے۔ ہمارے پڑوس میں ہنجرا خاندان سے ان کا تعلق ہے اور محمد طیب جواد ان کا نام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ راستہ میں رکتے ٹھہرتے ہوئے وہ بائیسکل پر پچھتر دنوں میں مدینہ منورہ پہنچے ہیں اور اب اس طرح ترکی تک سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی ہمت و حوصلہ اور ذوق دیکھ کر خوشی ہوئی اور مزید خوشی یہ کہ ہمارے شہر اور محلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسرا واقعہ یہ کہ میرے پاس کافی عرصہ سے آٹھ امریکی ڈالر پڑے ہوئے تھے جو میں نے اس سفر میں ساتھ رکھ لیے کہ کسی مصرف میں آ جائیں گے، مگر جب مدینہ منورہ کی ایک مارکیٹ میں صراف سے ان کے عوض ریال لینا چاہے تو اس نے دیکھتے ہی ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا کہ ہم امریکی ڈالر نہیں لیتے۔ بہت تعجب ہوا مگر اس سے زیادہ خوشی ہوئی کہ امریکی ڈالر نہ لینے کا ذوق ہمارے ہاں بحمد اللہ بیدار ہو رہا ہے۔ دل سے دعا نکلی کہ خدا کرے یہ ذوق ہمارا ملی اور قومی ذوق بن جائے، آمین یا رب العالمین۔ وہیں کھڑے ایک دوست نے بتایا کہ امریکی ڈالر یہاں کے دکاندار بھی نہیں لیتے تو میں نے وہ ڈالر انہیں کو پکڑا دیے کہ اگر آپ کے کسی کام آ سکتے ہوں تو آپ رکھ لیں۔
مدینہ منورہ میں حدیثِ نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے معروف استاذ اور حضرت مولانا عاشق الٰہی البرنیؒ کے فرزند حضرت مولانا محمد عبد اللہ البرنی دامت برکاتہم کے ارشاد پر ان کے گھر میں حاضری ہوئی جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ بڑے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر میں خاصا وقت گزارا ہے اور یہ مبارک گھر حدیث و فقہ کی تعلیم و تدریس کا شروع سے مرکز چلا آ رہا ہے جہاں اب بھی علماء و طلبہ علمی ذوق کی تسکین کے لیے اہتمام کے ساتھ آتے ہیں۔ حضرت مدظلہ کی فرمائش پر وہاں بھی درسِ حدیث کی مختصر محفل جمی اور انہوں نے چند روایات سنا کر ہماری حاضری کی برکت میں اضافہ کر دیا۔
مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں بھی کراچی کے ایک محترم دوست مولانا محمد اویس نے اپنے گھر میں ہمارے قیام کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان کا اصل علاقہ شکر گڑھ ہے، ایک عرصہ سے کراچی میں مقیم ہیں، معہد الخلیل کراچی میں انہوں نے درسِ نظامی کی تکمیل کی ہے، ان کے والد محترم حاجی محمد عابد صاحب نے بہت شفقت فرمائی اور ہم پانچ دن ان کی میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مسجد حرام میں بے پناہ رش تھا، بتایا جاتا ہے کہ اس سال پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، اللہم زد فزد۔ نمازوں کے لیے حاضری ہوتی رہی مگر بے پناہ ہجوم دیکھ کر عمرہ کی ادائیگی کے لیے کچھ سوچنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مفتی محمد اسامہ رؤف اور مولانا سبحان اللہ کو کہ انہوں نے ویل چیئر پر مجھے عمرہ کرا دیا۔ برآمدوں والے مطاف میں مفتی اسامہ رؤف نے طواف کرایا اور صفا مروہ کی سعی مولانا سبحان اللہ نے کرا دی، جبکہ قاری محمد عثمان رمضان اور عزیزم عبد الحنان بھی حوصلہ بڑھانے کے لیے ہمارے ساتھ ساتھ رہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
مسجد حرام میں ہمارے ان ساتھیوں کو شوق ہوا کہ ہم نے آپ سے حدیث مبارک کا ایک سبق یہاں بھی پڑھنا ہے۔ ایک روز مسجد حرام کی آخری چھت پر تراویح ادا کرنے کے بعد اس کا موقع مل گیا اور میں نے مفتی محمد اسامہ رؤف، قاری محمد عثمان رمضان، مولانا سبحان اللہ اور دیگر ساتھیوں کو ’’اربعینِ ولی اللٰہی‘‘ کا درس دینے کی سعادت حاصل کر لی۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی سند کے ساتھ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت بیان فرمائی ہے اور سند کو صحیح قرار دیا ہے، اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چالیس مختصر اور جامع ارشادات ایک حدیث میں اکٹھے بیان کیے گئے ہیں۔ استاذ گرامی حضرت شیخ محمد یاسین الفادانیؒ کی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ تک سند کے ساتھ میں اسے روایت کیا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ فضل و احسان ہے کہ مجھے یہ روایت اپنے چند تلامذہ کو مسجد حرام میں پڑھانے کا موقع مل گیا۔
حرمینِ شریفین میں ایک عشرہ اس بابرکت ماحول میں گزار کر اور بحمد اللہ تازہ دم ہو کر گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں، اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے امتِ مسلمہ، پاکستانی قوم، میرے خاندان، اساتذہ، تلامذہ اور رفقاء سب کو بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔