علماء دیوبند کے بارے میں ایک غلط فہمی

   
۱۴ مئی ۲۰۰۰ء

راجہ انور صاحب محترم نے جنگ آزادی میں علماء دیوبند کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ شکایت کی ہے کہ علماء دیوبند نے جدید سائنسی علوم کو استعماری سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اور پھر راجہ صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسی وجہ سے علماء کے مقابلہ میں سرسید احمد خان مرحوم کی سوچ کو کامیابی ہوئی ہے اور زندگی کی دوڑ میں علماء دیوبند پیچھے رہ گئے ہیں۔

میرے خیال میں یہ شکایت اور نتیجہ دونوں تاریخی طور پر درست نہیں ہیں۔ شکایت اس لیے کہ علماء دیوبند یا کسی بھی طبقہ کے سنجیدہ علماء نے سائنسی علوم کو کبھی استعماری سازش قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی مخالفت کی ہے۔ اگر راجہ صاحب محترم علماء دیوبند کے کسی ذمہ دار بزرگ کی طرف سے سائنسی علوم کی مخالفت کی نشاندہی کر دیں تو ان کی بے حد نوازش ہوگی اور ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔ علماء دیوبند نے صرف اتنی بات کہی تھی اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ معاشرہ میں دینی علوم کی حفاظت و تدریس اور مسجد و مدرسہ کے نظام کو چلانے اور ان کے لیے رجال کار فراہم کرنے کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے اس لیے وہ اس ذمہ داری کو رضاکارانہ طور پر قبول کر رہے ہیں اور عوام کے رضاکارانہ تعاون سے امداد باہمی کی بنیاد پر اس نظام کو چلائیں گے۔ اور چونکہ انہوں نے صرف حافظ، قاری، عالم دین اور مفتی تیار کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس لیے وہ اسی دائرہ میں رہیں گے۔

علماء نے اپنے نصاب تعلیم میں جدید سائنسی علوم کو شامل نہیں کیا اس لیے کہ وہ صحیح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح کسی ڈاکٹر کے لیے انجینئر ہونا ضروری نہیں ہے یا کسی سائنس دان کے لیے بیوروکریٹ ہونا ضروری نہیں ہے اسی طرح کسی عالم دین کے لیے سائنس دان ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ یہ تقسیم کار ہے کہ ہر شعبہ کے لوگ اپنے اپنے شعبہ میں کام کریں اور اس کے تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے باہمی تعلقات کار کا توازن قائم کر لیں تو نظام صحیح چلتا رہتا ہے ورنہ گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ علماء نے اس سے زیادہ کسی سے کچھ نہیں کہا، نہ کسی کو جدید سائنسی علوم حاصل کرنے سے روکا ہے اور نہ ہی سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف کوئی مہم چلائی ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ علماء نے سر سید احمد خان مرحوم کی مخالفت کی تھی اور قوم نے علماء کی بجائے سر سید کی بات کو قبول کیا ہے اور سر سید احمد خان کی فکر کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس بات کی حقیقت بھی ایک تاریخی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ سر سید احمد خان مرحوم نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے اور اس کے بعد نئی فکری تحریک کی بنیاد رکھتے ہوئے جو فلسفہ پیش کیا وہ دو امور پر مشتمل تھا۔

  1. ایک یہ کہ قرآن و سنت کے احکام اور تعلیمات پر مغربی دانشوروں کے اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے اسلامی احکام کی ایسی نئی تشریح کی جائے جو جدید مغربی فلسفہ کے قریب ہو اور مغربی دانشوروں کے لیے قابل قبول ہو۔ اسی مقصد کے تحت سر سید احمد خان مرحوم نے قرآن کریم کی جو نئی تفسیر لکھی اس میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کا انکار کیا اور اسلامی احکام و قوانین میں عجیب و غریب تاویلیں کیں۔
  2. جبکہ سر سید احمد خان کے فلسفہ کی دوسری بنیاد اس پر تھی کہ انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت درست نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کامل وفاداری کے ساتھ رہنا ہی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ ہے۔

راجہ انور صاحب محترم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم کی یہ دونوں باتیں خود علی گڑھ کی دوسری نسل نے مسترد کر دی تھیں اور مولانا شبلیؒ نعمانی، مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ کی قیادت میں علی گڑھ سے تعلیم پانے والوں نے نہ صرف یہ کہ اسلامی عقائد و احکام کی اس تشریح کو رد کر دیا تھا جو سر سید احمد خان مرحوم نے کی بلکہ انگریزی حکومت کے ساتھ وفاداریوں کے تصور کو مسترد کر کے تحریک آزادی کی قیادت میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء پیش پیش تھے۔ یہ سب حضرات علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے مگر قومی جدوجہد میں ان میں سے بیشتر حضرات سر سید احمد خان کے فکر و فلسفہ کا پرچم تھامنے کی بجائے دیوبند کے صدر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی قیادت میں برطانوی استعمار کے خلاف صف آراء ہوگئے تھے۔ اس لیے علمی اور سیاسی دونوں محاذوں پر سر سید احمد خان مرحوم کا فلسفہ ایک نسل سے آگے نہیں چل سکا تھا اور خود سر سید احمد خان مرحوم کے اپنے شاگردووں کے ہاتھوں دم توڑ گیا تھا۔ آج بھی دیکھ لیں کہ ہمارے معاشرہ میں قرآن و سنت کی سر سید احمد خان مرحوم کی تعبیر و تشریح کو قبول کرنے والوں کا تناسب کیا ہے؟ اور سر سید احمد خان مرحوم کی خواہش کے مطابق مغرب کی سیاسی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے والے لوگ کتنے ہیں؟ آپ کے لیے حقیقت پسندانہ فیصلہ تک پہنچنا کوئی زیادہ دشوار کام نہیں رہے گا۔ اور اگر سر سید احمد خان کے فکر و فلسفہ کے اس حشر کو راجہ انور صاحب کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں تو اس بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔

راجہ صاحب محترم نے ایک سوال یہ بھی کیا ہے کہ کیا فقہ و حدیث پر عبور و مہارت رکھنے والے علماء کو جدید ٹیکنالوجی اور حربی اصولوں سے بھی واقفیت حاصل ہے اور اگر نہیں ہے تو انہیں ان ہتھیاروں کے استعمال کے حوالہ سے فیصلے کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟

مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ راجہ صاحب کسی معاملہ میں سادگی اور بھولپن کی اس انتہاء تک بھی جا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی ہتھیار کی تیاری اور چیز ہے، اس کو چلانا اس سے مختلف امر ہے، اور اس کے چلانے کا فیصلہ کرنا ان دونوں سے مختلف کام ہے۔ آج کے جمہوری ممالک میں بھی ہتھیار بنانے کا کام سائنسدان کرتے ہیں، چلانے کی ڈیوٹی فوج کی ہوتی ہے، جبکہ جنگ لڑنے اور ہتھیار چلانے کا فیصلہ حکومتی کابینہ اور پارلیمنٹ کیا کرتی ہے۔ اگر راجہ صاحب محترم کے اس فلسفہ کو قبول کر لیا جائے تو پھر ان ممالک کو اپنے الیکشن رولز میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اس شرط کا اضافہ کرنا پڑے گا کہ چونکہ پارلیمنٹ کے ارکان کو جنگ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور انہیں اپنی فوج کو کسی جگہ ہتھیار چلانے کا حکم دینا ہوتا ہے لہٰذا انہیں جدید ٹیکنالوجی پر عبور بھی حاصل ہونا چاہیے۔ چنانچہ راجہ صاحب محترم سے بڑے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اگر جنگ کا فیصلہ کرنے والی پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر عبور ضروری نہیں ہے تو جہاد کا فتویٰ دینے والے علماء پر بھی مہربانی کرتے ہوئے انہیں اس شرط سے مستثنیٰ قرار دے دیں۔

راجہ انور صاحب محترم کے مضمون کے بعض دیگر نکات بھی وضاحت طلب ہیں لیکن چند گزارشات پر اکتفا کرتے ہوئے باقی باتوں کو کسی آئندہ فرصت کے لیے رہنے دیتے ہیں، راجہ صاحب چاہیں تو گفتگو اس کے بعد بھی ان شاء اللہ تعالیٰ چلتی رہے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter