روزنامہ پاکستان لاہور ۱۹ فروری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے گزشتہ روز خانۂ فرہنگ ایران لاہور کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ پر حکومتی پالیسی عوامی جذبات کے برعکس تھی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور جہاد میں بڑا فرق ہے۔ اگر ہم یہ کہنا بند ہو گئے تو دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔ مغرب کو اس وقت مسلمانوں کے جذبۂ جہاد سے خوف ہے اور وہ اس جذبے کو غرق کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک صدی قبل جب برطانیہ سپرپاور تھا اس نے ۱۸۸۰ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں سے صرف ایک ڈاکٹر زندہ بچ کر آیا تھا، شکست کھانے کے بعد انگریزوں نے اس کے بارے میں غور کرنا شروع کیا کہ وہ افغانستان سے کیوں ہارے ہیں؟ اس پر ۱۹۰۲ء میں ایک رپورٹ لکھی گئی جس میں برطانیہ کی شکست کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ برطانوی فوجی سر پر ٹوپ پہن کر لڑتے تھے جبکہ افغان سر پر پگڑیاں باندھ کر لڑتے تھے، انہیں موت سے خوف نہیں تھا، وہ سمجھتے تھے کہ اگر مارے گئے تو یہی پگڑی ہمارا کفن بن جائے گی، لہٰذا اس جذبۂ جہاد کے ہوتے ہوئے افغانستان کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ اگر انہیں شکست دینی ہے تو مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو ختم کرنا ہو گا۔ لہٰذا یہ منصوبہ بندی بڑی دیر سے جاری ہے۔
ہمیں خالد رانجھا صاحب کے ارشادات سے مکمل اتفاق ہے لیکن اتنی گزارش بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ان ارشادات کی جگہ قونصل خانہ کی تقریب نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان کا کوئی پالیسی ساز فورم تھا، اے کاش! رانجھا صاحب نے یہ باتیں پالیسی طے ہوتے وقت وہاں فرمائی ہوتیں۔