۵ اگست کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک سیمینار تھا جو مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کے ادارے میں ’’ندوۃ الشباب الاسلامی العالمی‘‘ سعودی عرب کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ حافظ عبد الرحمن مدنی اہل حدیث علمائے کرام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا روپڑی خاندان سے تعلق ہے اور وہ روایتی مسلکی دائرے پر اکتفا کرنے کے بجائے وسیع تر ملی مفاد کے ماحول میں کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا ادارہ ’’مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ اور ماہوار جریدہ ’’محدث‘‘ نوجوان علماء میں آج کے معروضی مسائل پر غور و تحقیق کا ذوق بیدار کرنے اور دینی حلقوں کو ان کی طرف توجہ دلانے کی سعی میں مصروف ہیں، جبکہ ’’ندوۃ الشباب الاسلامی‘‘ ریاض کی طرف سے ڈاکٹر قاری محمد انور اس پروگرام کے لیے تشریف لائے ہوئے ہیں۔
مجھے ان دونوں حضرات نے اس سیمینار میں ’’جہاد‘‘ کے بارے میں گفتگو کی دعوت دی اور جہاد کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات پر کچھ گزارشات پیش کر نے کے لیے کہا جو میرا دل پسند موضوع ہے۔ اس لیے سیمینار میں حاضر ہو گیا اور جب ہال میں پہنچا تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر مستشرقین کے طریق واردات کو اپنی گفتگو میں بے نقاب کر رہے تھے۔ حافظ محمود اختر میرے بچپن کے ساتھی ہیں۔ ہم دونوں نے قرآن کریم ایک ہی استاد سے حفظ کیا ہے۔ ہمارے استاد محترم حافظ قاری محمد انور ایک عرصہ تک گکھڑ میں پڑھاتے رہے ہیں اور اب کم و بیش بیس سال سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کے ایک مدرسے میں قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں۔ کبھی کبھار مدینہ منورہ میں حاضری کے موقع پر انہیں مسجد نبویؐ میں شاگردوں سے منزل سنتے دیکھتا ہوں تو رشک و افتخار کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ حافظ محمود اختر صاحب کی گفتگو میں مستشرقین کی فکری جدوجہد اور طریق واردات کی باتیں سن کر میرے ذہن میں بھی یہ داعیہ پیدا ہوا کہ جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا مستشرقین کے حوالے سے ہی جائزہ لے لیا جائے، ورنہ سیمینار کے منتظمین کی طرف سے مجھے کہا گیا تھا کہ میں جہاد کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی اور بعض دیگر شخصیات کے موقف کا جائزہ لوں جو جہاد کو آج کے دور میں منسوخ قرار دے رہے ہیں یا اس کے بارے میں معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس میں طرح طرح کی تاویلات پیش کر رہے ہیں۔ مگر میں نے اپنی گفتگو کی تمہید میں عرض کیا کہ جہاں اصل فریق سامنے ہو اور اس سے براہ راست بات کرنا ممکن ہو تو پھر نمائندوں سے گفتگو کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا، اس لیے میں اصل فریق یعنی مستشرقین کو سامنے رکھ کر بات کروں گا۔ میں ابھی گفتگو کے ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا محمد یحییٰ عزیز میر محمدی تشریف لائے اور مجھے بتایا گیا کہ وقت کم ہے اور انہوں نے بھی خطاب کرنا ہے، لہٰذا میں نے بڑے اختصار کے ساتھ کچھ معروضات پیش کیں، جن کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لیے اصلاح شدہ صورت میں چند ضروری اضافوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
جہاد کی فرضیت اسلام کے جاری کردہ احکام میں سے نہیں ہے بلکہ کلمہ حق کی سربلندی اور انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے جہاد اس سے قبل بھی ہوتا رہا ہے اور قرآن کریم نے اس جہاد کے مختلف مراحل کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ جہاد کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے، چنانچہ کتاب استثنا ۱۰:۲۰ میں جہاد کا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں کو اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال کو اپنے لیے رکھ لینا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو بھی دیکھ لیا جائے جو انہوں نے اپنے متعدد کمانڈروں کو جہاد کے لیے بھیجتے وقت دی ہے کہ جب تم دشمن کے سامنے جاؤ تو پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو، اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر وہ یہ دعوت قبول نہ کریں تو جزیہ دے کر اسلام کی بالادستی قبول کر لیں۔ اس صورت میں انہیں جان و مال اور آبرو کا تحفظ حاصل ہوگا، اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تعلیم دینے اور اپنی عبادت گاہوں کو قائم و آباد رکھنے کا حق حاصل ہوگا اور مسلمان ان کی جان و مال کے تحفظ کے ضامن ہوں گے۔ اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا مقصد کافروں کو زبردستی اسلام قبول کرانا نہیں بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بے شک اپنے مذہب پر قائم رہیں، اس پر آزادی کے ساتھ عمل کریں اور اپنے دائرے میں اس کی تعلیم بھی دیں، لیکن انسانی سوسائٹی پر ’’آسمانی تعلیمات‘‘ کی بالادستی اور فروغ میں رکاوٹ نہ بنیں اور ان کے مقابل نہ ہوں، کیونکہ آسمانی تعلیمات کا یہ حق ہے کہ ان کا انسانی آبادی میں کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ ہو اور ان کی دعوت و تعلیم کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہو۔ البتہ بائبل کی تعلیمات اور حضور نبی اکرمؐ کی ہدایات میں چند فرق ضرور موجود ہیں جن کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
صلح کی صورت میں بائبل کا حکم یہ ہے کہ مقامی آبادی باج گزار بن کر فاتحین کی خدمت کرے جبکہ نبی اکرمؐ کے ارشاد کی رو سے انہیں صرف ’’جزیہ‘‘ دینا ہوگا اور انہیں اس کے عوض جان و مال کا تحفظ، مذہبی آزادی اور دیگر تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے اور انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا۔
فتح کی صورت میں بائبل نے دشمن کے تمام مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے مگر اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کے سارے مال کو غنیمت بنانے کا حکم بائبل میں تو موجود ہے جبکہ اسلام میں غنیمت صرف وہی ہے جو میدان جنگ میں حاصل ہو۔ شہروں کی لوٹ مار کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر بائبل کا حوالہ دینے سے میری غرض یہ ہے کہ جہاد کا حکم اسلام کا کوئی امتیازی حکم نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ آسمانی مذاہب کے احکام کا تسلسل ہے جسے اسلام نے بھی باقی اور اس پر پہلے سے بہتر انداز میں عمل جاری رکھا ہے۔
مذہب کے لیے تلوار اٹھانے اور قوت استعمال کرنے کا یہ حکم مسیحیوں اور مسلمانوں میں موجود رہا ہے۔ مسیحیوں نے اسے لوگوں کو زبردستی اپنے مذہب میں لانے کے لیے صدیوں تک استعمال کیا ہے جیسا کہ اسپین میں مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے اور یورپ کے مختلف ملکوں میں یہودیوں کو ان کے مذہب سے دست بردار کرانے کے لیے لاکھوں افراد کا قتل عام تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے، مگر مسلمانوں نے اسلام قبول کرانے کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا اور کسی سے اسلحہ کی نوک پر کلمہ نہیں پڑھایا۔ البتہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے ضرور جنگ کی ہے اور اسی کا نام جہاد ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
اس صورت حال میں تبدیلی اس وقت آئی جب یورپ نے اپنے مذہب کے جمود، مذہبی قیادت کی تنگ نظری اور چرچ کی ظالمانہ روش سے بے بس ہو کر مذہب سے بغاوت کر دی اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کو بے دخل کر دیا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا اور سوسائٹی کے ساتھ اس کے تعلق کو منقطع کر دیا تو اس کے باعث ان کے نزدیک مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانا ممنوع قرار پایا اور ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور ان کے ہاں ختم ہو گیا، مگر انہوں نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر جس چیز کو مذہب کے متبادل کا درجہ دیا، اس کے لیے طاقت اور ہتھیار کے استعمال کا جواز ان کے ہاں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں روز بروز ترقی اور پیشرفت ہو رہی ہے۔
مغرب نے سوسائٹی کی بنیاد نیشنلزم، سولائزیشن اور تہذیب و ثقافت کو قرار دیا جو مذہب کا متبادل ہیں اور قوم و ملک اور سولائزیشن کے لیے طاقت کے استعمال کو نہ صرف مغرب نے جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی بار اس کا خوف ناک مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے قوانین میں نیشنلزم کی بنیاد پر سرحدوں کو جائز قرار دے کر ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے روکا ہے مگر کسی ایک طرف سے طاقت کے استعمال کی صورت میں دوسرے کو دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا حق دیا ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ (۱) امن کو لاحق خطرہ (۲) امن وامان کو توڑنے اور (۳) ظلم و تعدی کے کسی واقعہ کی صورت میں وہ کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے اور اگر ان پابندیوں سے کام نہ چلے تو سلامتی کونسل کو فوج کشی کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ فوج کشی سلامتی کونسل کا حق ہے اور سلامتی کونسل کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نمائندہ کہلاتی ہے لیکن پانچ ملکوں کے ویٹو پاور کے حق نے اسے عملاً صرف پانچ ملکوں کی اجارہ داری کی علامت بنا دیا ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی اجازت سے امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو فوج کشی کی اور عراق پر امریکی اتحاد کا پہلا حملہ بھی سلامتی کونسل کی اجازت سے ہوا تھا، ان حملوں کے جواز کے بارے میں مغربی لیڈروں نے جو کچھ کہا، وہ تاریخ کے ریکارڈ میں ثبت ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف دو باتوں پر غور کر لیجیے۔ ایک یہ کہ افغانستان اور عراق اقوام متحدہ کے طے کردہ نظام سے بغاوت کر رہے ہیں اور اس کی پابندیوں سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ جمہوریت اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام اور مغرب کی سولائزیشن دنیا بھر سے خود کو منوانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے، یہ ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن دونوں یکطرفہ اور جانبدارانہ ہیں جن کی تشکیل اور کنٹرول میں مسلمانوں کو کوئی قابل ذکر حیثیت حاصل نہیں ہے، کیا اس نظام اور ثقافت کے فروغ اور تسلط کے لیے طاقت کا استعمال فکر اور عقیدے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں ہے؟ فرق صرف تعبیر کا ہے۔ ہم سے مذہب کے لیے قوت کا استعمال ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والا مغرب خود مذہب کے اس متبادل کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کر رہا ہے جسے اس نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر مذہب سے دست برداری کے بعد اختیار کر رکھا ہے مگر ہم سے مغرب کا تقاضا کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک یورپین مستشرق اینڈرسن کی اس گفتگو میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا ذکر عرب دنیا کے معروف عالم دین اور دانش ور استاذ وہبہ زحیلی نے اپنے ایک مقالے میں کیا ہے اور جس میں اینڈرسن نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ جہاد کو اسلامی احکام کی فہرست سے نکال دیں اس لیے کہ جہاد آج کے عالمی نظام اور بین الاقوامی اداروں کے قوانین و ضوابط سے ہم آہنگ نہیں ہے اور فکر و عقیدے کو طاقت کے زور سے فروغ دینے کا وسیلہ ہے جو حریت اور عقلی ارتقا کے عالمی ماحول کے منافی ہے۔ لیکن جس عالمی نظام اور عقلی ارتقا کو مغرب نے مذہب کے لیے طاقت کے استعمال سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے، وہ دونوں آج پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے افغانستان، عراق اور دوسرے متعدد ممالک پر امریکہ کی فوج کشی کو جواز کی سند دے کر ان کی اخلاقی حیثیت ختم کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغرب اپنے اس عقیدے سے منحرف ہو گیا ہے کہ طاقت کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہو سکتا ہے، فکر و عقیدے کے لیے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔ یہ صرف نظری بات ہے اور خوشنما فکری دھوکہ ہے جبکہ امریکہ کے دفاع کے لیے سات سمندر پار پیشگی فوجی حملوں اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے عسکری قوت کے بے محابا استعمال نے اس کو صرف ایک کھوکھلے نعرے کی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب نے اسلام کے اس فلسفے کو عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ قوت کا استعمال صرف دفاع کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کسی عقیدے اور تہذیب کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جایا کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ آج کے دور میں اسلام کی اخلاقی فتح ہے۔
اب میں آتا ہوں اس بات کی طرف کہ ہمارے بعض حلقوں میں اسلام کے نام پر جہاد کے بارے میں گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران جو فکری تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ جب مغرب نے مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہو کر مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کو ممنوع قرار دے دیا تو ہمارے بعض دانشوروں کے ذہنوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی طرز کے بعض لوگوں نے جہاد کو سرے سے منسوخ قرار دینے میں ہی عافیت سمجھی، لیکن ذہنی طور پر اس مقام پر نہ پہنچنے والے بعض دانشوروں نے جہاد کے احکام اور فرضیت میں ایسی تاویلات کو ضروری قرار دیا جن سے جہاد کے تصور کو مغرب کے جدید فکر کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جا سکے اور مغرب کو مطمئن کیا جا سکے کہ ہم بھی مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کے حق میں نہیں ہیں۔ میں ا س سلسلے میں سب کو ایک درجے میں نہیں سمجھتا، اس لیے کہ بہت سے حضرات مرعوبیت کا شکار ہوئے اور شعوری طور پر ان کی کوشش رہی کہ جہاد کے حکم کو اسلامی تعلیمات کی فہرست سے نکال دیا جائے مگر بعض ایسے حضرات بھی ہیں جو لاشعوری طور پر اس فریب کا شکار ہیں اور بڑے خلوص کے ساتھ اسلام کی تصویر کو آج کے عالمی منظر میں درست اور قابل قبول بنانے کے لیے جہاد کو ایسے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے مغرب کو تعرض نہ ہو، لیکن میرا خیال ہے کہ اب اس تکلف کی ضرورت نہیں رہی۔ مغرب نے صرف دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کے نام نہاد فلسفے کا بھانڈا خود ہی بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں کسی معذرت خواہی کی ضرورت نہیں ہے اور بحمد اللہ ہم نے کبھی اس معذرت خواہی کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ جس طرح مغرب اپنی سولائزیشن کے فروغ اور اپنے قائم کردہ یک طرفہ ورلڈ سسٹم کے تحفظ کے لیے خود اپنے لیے طاقت کے پیشگی استعمال کا حق مانگتا ہے، اسی طرح اسلام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے سسٹم کو سوسائٹی میں بروئے کار لانے اور اپنے عقیدہ وثقافت کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔
باقی رہی ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن کی بات تو ہم کسی جھجھک کے بغیر یہ کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ یک طرفہ، جانب دارانہ، استحصالی، ظالمانہ اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے اور ہمارے لیے کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں اور اسے جائز اور حق تصور کرتے ہیں، وہ اس کا دفاع کریں اور اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اسلامی احکام میں تاویلات کا شوق بھی پورا کرتے رہیں، مگر ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ عالم اسلام کے دینی حلقوں اور علمی مراکز سے ہماری ہمیشہ یہ گزارش رہی ہے کہ وہ موجودہ ورلڈ سسٹم، اقوام متحدہ کے نظام اور مغربی سولائزیشن کے بارے میں اپنا موقف اجتماعی طور پر سامنے لائیں اور متفقہ طور پر مغرب پر واضح کر دیں کہ یہ سسٹم اور سولائزیشن دونوں ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں اور ہم ان کی خاطر اسلامی تعلیمات اور احکام و قوانین میں کسی ردوبدل اور تاویل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔