آج (۲۹ نومبر کو) دن کا آغاز دو غمناک خبروں سے ہوا۔ صبح نماز کے لیے نیند سے بیدار ہوا تو موبائل فون پر پہلا میسج یہ پڑھنے کو ملا کہ ہمارے پرانے دوست اور ساتھی حافظ خلیل الرحمان ضیاء کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جبکہ مدرسہ میں اسباق سے فارغ ہو کر دوبارہ موبائل کے میسج چیک کیے تو اس المناک خبر نے کلیجہ پکڑ لیا کہ جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے سیکرٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو صبح نماز فجر کے دوران نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو جمعیۃ علماء اسلام کے سرکردہ اور بیدار مغز راہ نماؤں میں سے تھے۔ سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے ہیں۔ ملک کے معروف خطباء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا علی محمد حقانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا لاڑکانہ میں دو دائی روڈ پر جامعہ صدیق اکبرؓ کے نام سے مدرسہ تھا اور جمعیۃ علماء اسلام کے سرکردہ حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ مجھے متعدد بار ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے جامعہ صدیقیہ گوجرانوالہ میں استاذ العلماء حضرت مولانا قاضی شمس الدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس حوالہ سے وہ خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو دوران تعلیم جمعیۃ طلباء اسلام کے پلیٹ فارم پر سرگرم عمل رہے۔ بیر شریف کے حضرت مولانا عبد الکریم قریشی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ارادت کا تعلق تھا جو جمعیۃ علماء اسلام کے صاحب فکر راہ نماؤں میں سے تھے اور اپنے وقت کے معروف روحانی پیشوا تھے۔
سندھ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ترجمان اور علماء حق کی آواز سمجھے جاتے تھے اور ان کی خطابت کی گونج پاکستان کے طول و عرض کے ساتھ ساتھ لندن، دہلی اور دیوبند میں بھی بلند ہوتی رہی۔ مختلف اجتماعات، اسفار اور پروگراموں میں ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ کچھ عرصہ قبل حضرت شیخ الہندؒ کے بارے میں دیوبند اور دہلی میں منعقد ہونے والے اجتماعات کے لیے جانے والے قافلہ میں شریک تھے۔ اور یہ چند روزہ سفری رفاقت ان کے ساتھ میری ملاقات کا آخری دور ثابت ہوئی۔ دیوبند اور دہلی کے اجتماعات میں ان کے خطابات کو توجہ اور شوق کے ساتھ سنا گیا، زندہ دل ساتھی تھے اور حق گو خطیب کی پہچان رکھتے تھے۔ سینیٹ آف پاکستان کے علاوہ مختلف نشریاتی اداروں کے پروگراموں میں حق اور اہل حق کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اسی حق گوئی پر گامزن رہتے ہوئے انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا ہے۔
حافظ خلیل الرحمن ضیاء گوجرانوالہ کے معروف صحافی تھے، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل تھے بلکہ میرے دورہ حدیث کے ساتھی تھے۔ ان کے والد محترم مولانا نور الدین رحمہ اللہ تعالیٰ گوجرانوالہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جنہیں پورے علاقے میں ولی سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ ولی ہی تھے کہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تلامذہ اور مریدین میں ان کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ ان کے ہاں بے تکلفی سے کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ حالانکہ حضرت لاہوریؒ کی سفر کے دوران کھانے پینے کے معاملہ میں احتیاط سب دوستوں کو معلوم ہے۔ ہاتھ سے محنت مزدوری کر کے اپنا خرچہ چلاتے تھے اور ساری عمر لوگوں کو حضرت لاہوریؒ کی طرز پر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے اور مساجد میں درس دیتے ہوئے گزار دی۔
حافظ خلیل الرحمن ضیاء درس نظامی کی تعلیم سے میرے ساتھ فارغ ہوئے اور صحافت سے منسلک ہوگئے۔ ہفت روزہ نوائے گوجرانوالہ اور ہفت روزہ احباب کے ایڈیٹر رہے۔ اور روزنامہ جنگ، وفاق اور اخبار جہاں کے رپورٹر کے طور پر ایک عرصہ تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان دنوں گوجرانوالہ میں پاکستان ٹی وی کے نمائندہ خصوصی تھے۔ تراویح میں قرآن کریم سنانے کا معمول آخر تک قائم رکھا، اپنے گھر میں ہر سال اہتمام کرتے تھے۔ اور ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ ختم قرآن کریم کے موقع پر میں ضرور حاضری دوں، جس کا بہت دفعہ موقع حاصل ہوا۔
مخدوم العلماء حضرت مولانا میاں سراج احمد دین پوریؒ ہمارے بزرگوں میں سے تھے، ان کے بارے میں سرسری طور پر لکھنے سے خود میرے دل کو اطمینان نہیں ہوگا، اس لیے سردست صرف غم کے اظہار کے لیے ان کی وفات کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ دین پور شریف کیا ہے اور ہمارے ان بزرگوں کا ملی اور قومی تاریخ میں کیا کردار رہا ہے، اس کے بارے میں مستقل طور پر لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اللہ تعالٰی حضرت دین پوری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور حافظ خلیل الرحمان ضیاء کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔