جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ اعلان نظر سے گزرا کہ جمعیت نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اب جمعیت الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے اپنے مقاصد کے لیے عوامی جدوجہد کو منظم کرنے کا راستہ اختیار کرے گی۔ انہوں نے موجودہ انتخابی سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظام میں اچھے افراد کا آگے آنا اور اسلامی نظام کا نافذ ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے ان کی جماعت نے اس سے پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس زمانے میں مولانا فضل الرحمٰن کے والد محترم اور جمعیت علماء اسلام کے قائد حضرت مولانا مفتی محمودؒ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے خلاف ملک گیر تحریک منظم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور مارشل لاء اٹھا کر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے، راقم الحروف نے ایک موقع پر تنہائی میں ان سے عرض کیا کہ ہمیں کسی وقت انتخابی سیاست کے نفع نقصان کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے انتخابی معرکہ میں شریک ہو کر دینی لحاظ سے اب تک کیا حاصل کیا ہے اور کیا گنوایا ہے؟ مفتی صاحبؒ نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا جواب دیا کہ ’’پہلے ضیاء الحق سے نمٹ لیں پھر اس بات پر بھی غور کر لیں گے‘‘۔ لیکن اس کا موقع نہیں آیا۔ حضرت مفتی صاحبؒ اللہ کو پیارے ہو گئے اور جمعیت علماء اسلام بھی خلفشار کا شکار ہو کر زوال کی راہ پر چل نکلی۔
جمعیت علماء اسلام اور دیگر دینی جماعتوں نے انتخابی سیاست میں شریک ہونے کا راستہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ اس طرح وہ پارلیمنٹ میں مؤثر حیثیت حاصل کر کے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل حاصل کر سکیں گی اور ایک دور میں انہوں نے پیشرفت بھی کی کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بعض اسلامی دفعات شامل کرانے کے علاوہ قادیانیوں کا مسئلہ حل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، لیکن وہ اس سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں اور قومی سیاست میں دینی قوتوں کی حیثیت ایک ’’پریشر پاور‘‘ کی سی ہو کر رہ گئی کہ جب بھی رائے عامہ کو متحرک کر کے دباؤ کو منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتیں انہیں اپنے مقاصد کے حوالے سے کچھ پیشرفت کا موقع مل جاتا، لیکن دباؤ کا وزن نارمل ہوتے ہی وہ پھر پہلے مقام پر کھڑی نظر آنے لگتیں۔
پاکستان کی نصف صدی کی قومی سیاست میں دینی سیاست کی حامل جماعتوں کو ۱۹۷۷ء میں سب سے زیادہ مؤثر حیثیت حاصل ہوئی جب پاکستان قومی اتحاد میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد کی صورت میں قوم کو اجتماعی دینی قیادت میسر آئی اور عوام نے نظامِ مصطفیٰؐ کے نعرے پر انہیں بھرپور حمایت و تعاون اور قربانیوں سے نوازا۔ لیکن مارشل لاء حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے مسئلہ پر یہ اجتماعی دینی قیادت ایسی بکھری کہ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے عوام کی آرزوؤں کا سربازار خون ہو گیا۔ پروفیسر غفور احمد کی جماعت نے قومی اتحاد کو اعتماد میں لیے بغیر وزارتوں کو گلے لگانے کا فیصلہ کر لیا، مولانا مفتی محمودؒ نے قومی اتحاد کو بچانے کے عنوان سے مارشل لاء حکومت میں اپنے تین وزیر شامل کر دیے، اور مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر کے ایئر مارشل اصغر خان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا۔
پاکستان قومی اتحاد کے دورِ عروج کی بات ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں تشریف فرما تھے۔ ایک سینئر اخباری رپورٹر (اکرم الحق شیخ) نے میری موجودگی میں ان سے سوال کیا کہ ’’مفتی صاحب! کیا یہ ممکن ہے کہ ملک میں جب تک علماء کی خالص اپنی حکومت قائم نہ ہو مکمل اسلامی نظام نافذ ہو جائے؟‘‘ مفتی صاحبؒ کا جواب تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے‘‘۔ اخبار نویس کا دوسرا سوال تھا کہ ’’کیا انتخابات کے ذریعے علماء کی خالص حکومت قائم ہو سکتی ہے؟‘‘ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ ’’نہیں‘‘۔ اخبار نویس نے پھر سوال کیا کہ ’’اگر یہ دونوں باتیں ممکن نہیں ہیں تو پھر آپ کس بات کے لیے محنت کر رہے ہیں؟‘‘ مفتی صاحبؒ نے مسکرا کر کہا کہ ’’یہ تو واقعتاً ہمارے بس میں نہیں ہے کہ انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آ جائیں، لیکن ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ کسی کو آرام سے حکومت نہ کرنے دیں اور وہ ہم کر رہے ہیں‘‘۔
اس جواب سے واضح تھا کہ انتخابی سیاست میں دینی جماعتوں کی شرکت ایک پریشر پاور کے طور پر ہے کہ دباؤ کے ذریعے اسلامی جدوجہد کے حوالے سے جتنا کام لیا جا سکے، لے لیا جائے۔ لیکن اب بدقسمتی سے ملک کی دینی جماعتوں کو قومی سیاست میں یہ حیثیت بھی حاصل نہیں رہی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تو ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں سرے سے حصہ ہی نہیں لیا، اور جمعیت علماء اسلام نے حصہ لینے کے بعد اب انتخابات کی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری انتخابی سیاست کے مروجہ سسٹم پر ڈالی ہے، جو راقم الحروف کے نزدیک مکمل طور پر درست نہیں ہے، اس لیے اس بات کا ایک حد تک تجزیہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
جہاں تک انتخابات کے ذریعے دینی قوتوں کے برسراقتدار آنے کا تعلق ہے یہ بات درست ہے کہ مروجہ انتخابی نظام میں اس کے لیے کوئی راستہ کھلا نہیں ہے، لیکن قومی سیاست میں دینی جماعتوں کو پریشر پاور کے طور پر جو حیثیت اب سے کچھ عرصہ پہلے تک حاصل رہی ہے، اس کے تحلیل ہونے میں انتخابی سسٹم کا کوئی قصور نہیں ہے، اور یہ سب کچھ دینی جماعتوں کی قیادت کا اپنا کیا دھرا ہے، جسے انتخابی نظام کے کھاتے میں ڈال کر وہ اپنی ذمہ داریوں سے گریز کر رہی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بنیادی اسلامی دفعات کی شمولیت اور قادیانی مسئلہ کے آئینی حل کی منزل دینی قوتوں نے اسی انتخابی سسٹم کے تحت حاصل کی تھی، لیکن فرق یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، پروفیسر غفور احمد اور ان کے رفقاء کے ٹیم ورک نے اجتماعی دینی قیادت کی فضا قائم کر دی تھی۔ پارلیمنٹ سے باہر بھی یہ حضرات پہلے متحدہ جمہوری محاذ اور پھر پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر یکجا دکھائی دیتے تھے، انہیں ملک بھر کے علمی و دینی مراکز اور سرکردہ مذہبی شخصیات کا اعتماد حاصل تھا، رائے عامہ ان کی پشت پر تھی اور ان کی اپیل پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ جایا کرتی تھی۔ اقتدار اور سیاسی مراعات و مفادات کی دوڑ میں ایک مناسب حد سے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے انہیں اخلاق و کردار کی توانائی بھی میسر تھی۔
لیکن دینی قوتوں کو قومی سیاست میں ایک مضبوط پریشر پاور کی پوزیشن میں لانے والے یہ سب اسباب ہم نے ایک ایک کر کے کھو دیے ہیں، اور ان سے محرومی کی وجوہات کی نشاندہی کیے بغیر ناکامی کا ہار انتخابی سسٹم کے گلے میں ڈال کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔ جو ناانصافی کے ساتھ ساتھ انتہا درجے کی خود فریبی بھی ہے، اس لیے کہ جن کمزوریوں اور خامیوں نے انتخابی سیاست میں ہمیں ناکامی سے دوچار کیا ہے، انہی کمزوریوں اور خامیوں کو ساتھ لے کر غیر انتخابی اور تحریکی سیاست کے میدان میں داخل ہوں گے تو نتیجہ وہاں بھی وہی ہو گا۔ بلکہ اس غیرسنجیدگی کے ہاتھوں اسلامی نظام کی جدوجہد کا وہ میدان بھی بے یقینی کا شکار ہو جائے گا، جس سے ملک کے سنجیدہ علمی و دینی حلقے ابھی تک آس لگائے بیٹھے ہیں۔
ملک کے دینی حلقوں اور علماء کرام کو غیر انتخابی سیاست کی دعوت گزشتہ سال اگست میں پاکستان شریعت کونسل قائم کر کے ہم نے دی تھی، ہمیں خوشی ہے کہ جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ نہ لے کر ایک حد تک ہمارے موقف سے اتفاق کیا ہے، اور اب مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابی سیاست ترک کرنے کا اعلان کر دیا ہے، بلکہ انہوں نے تو اس موقف کے لیے استدلال بھی وہی اختیار کیا ہے جو ہم نے اپنے تاسیسی اعلان میں کیا تھا۔ حتیٰ کہ مولانا موصوف نے اکتوبر ۱۹۹۷ء کی بارہ تاریخ کو لاہور میں ’’کل پاکستان شریعت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ جبکہ انہی تاریخوں میں ہم پاکستان شریعت کونسل کا ملک گیر اجتماع لاہور میں طلب کرنے کا اعلان دو ماہ قبل کر چکے ہیں۔ اور اب مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان کے بعد ہمیں اس اجتماع کو دو چار ماہ کے لیے مؤخر کرنا پڑے گا تاکہ تقابل کی فضا قائم نہ ہو، لیکن اپنے موقف کی پذیرائی اور پیشرفت پر خوشی کے اظہار کے ساتھ اس میدان میں مولانا فضل الرحمٰن کی تشریف آوری پر انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی خدمت میں دو گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
- ایک یہ کہ اس میدان میں داخل سے پہلے ان اسباب و عوامل سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت ضرور نکال لیں جو انتخابی سیاست میں دینی قوتوں کی ناکامی کا باعث بنے ہیں، اور جن میں سے بعض کا تذکرہ بالائی سطور میں ہو چکا ہے، ورنہ وہ اس میدان میں بھی کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے اور اہلِ دین کی مایوسیوں میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
- اور دوسری گزارش یہ ہے کہ جدوجہد کے اس طریق کار کی تاریخ کا مطالعہ ضرور فرما لیں۔ اقتدار کی دوڑ میں شریک ہوئے بغیر سیاسی جدوجہد کا یہ طریق کار تاریخ کی زبان میں ’’مجددی طریق کار‘‘ کہلاتا ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کی طرف منسوب ہے۔ انہیں بھی اپنے دور میں کفر و ظلم کے قانون اور الحاد و زندقہ کے نظام سے واسطہ پڑا تھا اور نظام کی تبدیلی ان کی جدوجہد کا سب سے بڑا بلکہ واحد ہدف تھی۔ انہیں اقتدار کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی حاصل تھی اور مقتدر افراد کے ساتھ روابط استوار تھے، لیکن انہوں نے اس حیثیت کو اقتدار میں کوئی مقام حاصل کرنے یا سیاسی مفادات و مراعات سے بہرہ ور ہونے کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ ذہن سازی، لابنگ اور فکری راہنمائی کا راستہ اختیار کیا اور اذہان و قلوب تک رسائی حاصل کر کے انہی مقتدر افراد کو نظام کی تبدیلی کے لیے آمادہ کر لیا۔ حتیٰ کہ بعض تاریخی روایات کے مطابق جب حضرت مجدد الف ثانیؒ گوالیار کے قلعے میں قید تھے تو جہانگیر بادشاہ کے سپہ سالار کی طرف سے انہیں پیشکش ہوئی کہ اگر وہ چاہیں تو انہیں تخت پر بٹھایا جا سکتا ہے، مگر اس مردِ درویش کا جواب یہ تھا کہ ’’فقیر کو تخت و تاج سے کوئی غرض نہیں، فقیر تو اربابِ اقتدار کی اصلاح چاہتا ہے‘‘۔ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کی یہی بے نفسی اور بے غرضی تھی جس نے اکبر اعظم کے مسلط کردہ خود ساختہ ’’دینِ الٰہی‘‘ کو خود اس کے بیٹے جہانگیر کے ہاتھوں آخری انجام تک پہنچا دیا تھا۔
ان گزارشات کے ساتھ راقم الحروف یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنے اس اعلان میں سنجیدہ ہیں، اس تبدیلی کے فکری، عملی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار ہیں اور سال چھ مہینے میں اس کا عملی احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو راقم الحروف اور پاکستان شریعت کونسل کو اپنا مخلص اور بے لوث رفیق کار پائیں گے، لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو دینی حلقوں کی مایوسیوں میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس لیے ابھی سے اس فیصلے کے مثبت اور منفی اثرات کا ازسرنو جائزہ لے لیں تو خود ان کے حق میں بھی یہی مفید ہو گا۔