انیس ستمبر کو اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں سلطان محمد الفاتح رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام سے موسوم مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے خطیب مولانا قاری احمد الرحمن (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم) مسجد کے بانی و منتظم ہیں۔ سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے اور ان کے ساتھ مجھے بھی یہ اعزاز بخشا گیا تھا جبکہ دیگر معزز شخصیات بھی اس میں شریک تھیں۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ! آج کی تقریب میں شرکت دو حوالوں سے میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ ایک یہ کہ مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب ہے جو ہر مسلمان کے لیے خوشی اور برکت کا مرکز ہے۔ مسجد انسانی سوسائٹی کا نقطۂ آغاز اور زیرو پوائنٹ ہے کہ آدم علیہ السلام نے زمین پر آنے کے بعد بیت اللہ تعمیر کیا تھا، جسے قرآن کریم نے ’’ان اول بیت وضع للناس‘‘ سے تعبیر کیا ہے، گویا اسی سے انسانی سوسائٹی کا آغاز ہوا تھا۔ اسی طرح مسجد مسلم سوسائٹی کا بھی نقطۂ آغاز ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں قریش کے جبر و ظلم کے ماحول سے نکل کر مدینہ منورہ کے آزادانہ ماحول میں اجتماعی زندگی کا آغاز کیا تو قبا کے چند روزہ قیام کے دوران مسجد بنائی اور وہاں سے یثرب منتقل ہونے کے بعد بھی پہلے مسجد تعمیر کی، اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں کی تعمیر ہوئی۔ گویا مسلم سوسائٹی کا زیرو پوائنٹ بھی مسجد ہے جہاں سے اسلامی سماج کا آغاز ہوتا ہے۔
آپ حضرات اسلام آباد میں مسجد تعمیر کر رہے ہیں اور مسلم تاریخ کی ایک عظیم شخصیت کے نام سے اس مسجد کو موسوم کیا گیا ہے، اس لیے اس حوالے سے ایک اور بات بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ مسجد نبویؐ ابتداء میں کچی اینٹوں، پتھروں اور مٹی سے تعمیر ہوئی تھی جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اسی طرح رہی۔ حضرت عمرؓ نے توسیع کیے بغیر اس میں کچھ تعمیری تبدیلیاں کیں۔ جبکہ حضرت عثمانؓ نے اس میں توسیع کر کے اسے پختہ تعمیر کرایا۔ اس موقع پر پرانی مسجد کو شہید کرنے کے حوالے سے لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے تعمیر کیا تھا، اسے شہید کیے کیا جائے گا؟ تو بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا کہ ’’لقد اکثرتم‘‘ تم لوگوں نے بہت سی باتیں کر لی ہیں جبکہ میں نے مسجد کو شہید کر کے ازسرِنو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے، اس لیے کہ میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں (مثلہ) ویسا ہی گھر بنائے گا۔
اس کا مطلب محدثین یہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جنت میں پختہ اور وسیع گھر چاہیے اس لیے نئی، پختہ اور وسیع مسجد تعمیر کروں گا۔ اس لیے جہاں بھی کوئی نئی مسجد تعمیر ہوتی ہے میں بنانے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ یہ بات سامنے رکھ کر مسجد تعمیر کریں کہ جنت میں کیسا گھر درکار ہے؟ یہی بات آپ دوستوں سے بھی عرض کرتا ہوں کہ یہ اسلام آباد ہے اور سلطان محمد فاتحؒ کے نام سے مسجد تعمیر ہو رہی ہے، اس کا پوری طرح لحاظ رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دیں، آمین۔
دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ جس شخصیت کے نام سے یہ مسجد موسوم کی گئی ہے اس کا شمار ہمارے ملّی ہیروز میں ہوتا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کی اپنی ایک تاریخ ہے کہ اس نے خلافتِ عباسیہ کے بکھر جانے کے بعد امت کی قیادت سنبھالی اور صدیوں یہ فریضہ پورے وقار کے ساتھ سر انجام دیا۔ سلطان محمد فاتحؒ قسطنطنیہ کے فاتح ہیں جس کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بہت سی خوشخبریوں کا تذکرہ موجود ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح صرف مسلم تاریخ کا نہیں بلکہ عالمی تاریخ کا بھی ایک اہم واقعہ ہے، پھر جس محیر العقول طریقہ سے سلطان محمدؒ نے اسے فتح کیا وہ بجائے خود تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ قسطنطنیہ کو ہر حوالہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، جسے سلطان محمدؒ نے اردگرد پہاڑوں پر میلوں تک چربی پھیلا کر وہاں سے بحری جہازوں کو دھکیل کر شہر تک پہنچایا اور شہر کو فتح کیا جس کے بعد قسطنطنیہ کو امتِ مسلمہ کے عالمی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔
خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ ہمارا ایک اور تاریخی رشتہ بھی ہے کہ برطانوی استعمار کے نوآبادیاتی دور میں اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو عظیم الشان تحریکات بپا ہوئیں ان میں تحریکِ خلافت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے چلائی گئی تھی۔ اس دور میں برطانیہ ترکی خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے دوسری قوموں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ہمارے ہاں مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ جیسے اکابر کی راہنمائی میں تحریکِ خلافت کے ذریعہ خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا گیا۔ اور برصغیر کے طول و عرض میں اس تحریک نے خود یہاں کے باشندوں میں آزادی کی روح پھونک دی۔ میں تحریکِ خلافت کو برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تحریکات کی نرسری کہا کرتا ہوں کہ اس کے بعد کی تمام سیاسی جماعتوں کو راہنماؤں اور کارکنوں کی ایک کھیپ ملی اور تحریکِ آزادی اپنے منطقی نتیجہ کو پہنچی۔
خلافتِ عثمانیہ کو عالمی سیاست میں اپنے عروج کے دور میں فیصلہ کن قیادت کا درجہ حاصل تھا جس کی ایک جھلک سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے اس تاریخی جملہ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جب بوسنیا اور سربیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو ایک عالمی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے محترمہ نے عالمِِ اسلام کی بے بسی کا ان الفاظ میں اظہار کیا تھا کہ
’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافت عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنا مسئلہ رکھ سکیں۔‘‘
اس سے خلافت عثمانیہ کی اہلیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال خوشی کی بات ہے کہ ہمیں خلافت عثمانیہ یاد ہے اور سلطان محمد فاتحؒ کی یاد بھی ہمارے ذہنوں اور دلوں میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس جذبہ و احساس کو ایک بار پھر بیداری اور عزم نو سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ان گزارشات کے ساتھ میں مولانا قاری احمد الرحمٰن صاحب، جناب مصطفیٰ کھوکر صاحب اور دیگر سب دوستوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو جلد از جلد تکمیل عطا فرمائیں اور اسے ہماری ملّی حمیت اور جذبات و احساسات کی بیداری کا مرکز بنائیں، آمین یا رب العالمین۔