ہفت روزہ الہلال اسلام آباد نے ۴ اگست ۲۰۰۰ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ شام کے صدر حافظ الاسد کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشیر الاسد نے صدارت سنبھالتے ہی ان سینکڑوں علماء اور دینی کارکنوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جنہیں اٹھارہ سال قبل اہل سنت کے خلاف ایک بڑے ایکشن کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے مسلسل زیر حراست تھے۔ ان میں ’’اخوان المسلمون‘‘ کے ممتاز راہنما صباح کریمی اور ’’احیائے اسلام‘‘ کے ابو عبید اللہ بھی شامل ہیں۔
شام کے آنجہانی صدر حافظ الاسد کا تعلق اہل تشیع کے نصیری فرقہ سے تھا جن کے عقائد میں نعوذ باللہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خدائی کا درجہ دینا شامل ہے، اور سیاسی طور پر وہ انتہاپسند قوم پرست بعث پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے طویل دورِ حکومت میں شام کے علمائے اہل سنت اور اسلامی تحریکات کو انتہائی صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ حتٰی کہ ۱۹۸۲ء میں ایک بڑے فوجی آپریشن میں اہل سنت کے مرکز ’’حماہ‘‘ کو بلڈوزروں سے مسمار کر دیا گیا۔ یہ تاریخی بستی جس کی طرف بہت سے علماء کی نسبت ’’حموی‘‘ کے نام سے کتابوں میں مذکور ہے، حلب کے قریب تھی۔ مگر اب اس بستی کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے اور وہ چٹیل میدان کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس آپریشن میں سینکڑوں علماء اور دینی کارکن شہید ہوئے اور ہزاروں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ جبکہ بہت سے علماء نے جلاوطنی اختیار کر لی جن میں ہمارے شیخ و استاذ اور اپنے دور میں عرب دنیا کے سب سے بڑے حنفی عالم الشیخ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ بھی شامل ہیں، جو شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ تھے مگر جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے اور ان کا انتقال بھی ریاض میں ہوا۔ انہی میں ہمارے محترم دوست الشیخ عمر بکری محمد بھی ہیں جن کا تعلق حلب سے ہے، شافعی المذہب ہیں اور جلاوطن ہو کر لندن میں ’’المہاجرون‘‘ نامی ایک پرجوش جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔
حافظ الاسد کے بیٹے اور شام کے نئے صدر بشیر الاسد کے عقائد اور سیاسی وابستگی کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں ہیں مگر ان کا یہ اقدام ہمارے لیے ایک گونہ خوشی اور اطمینان کا باعث ہے جس سے اٹھارہ سال سے مسلسل ریاستی جبر کا شکار ہونے والے سُنی علماء اور کارکنوں کو رہائی ملی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت شام کے علمائے اہل سنت کے مصائب و مشکلات کو دور فرمائیں اور انہیں پوری آزادی اور وقار کے ساتھ اپنے وطن میں دین و مذہب کی خدمات سرانجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔