عدالتی نظام میں اصلاحات اور متبادل مصالحتی نظام

   
اگست ۲۰۲۲ء

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۳۱ جولائی ۲۰۲۲ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’لندن (این۔این۔آئی) جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جواد حسن نے کہا ہے کہ ۷۰ سال سے پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں ہو سکیں۔ ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل کیلئے متبادل مصالحتی نظام متعارف کروانا ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ متبادل مصالحتی نظام کے قیام کے بغیر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد قائم نہیں ہوگا۔‘‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کے ان دو معزز جج صاحبان کی مذکورہ گفتگو کی تفصیلات ہمارے سامنے نہیں ہیں مگر یہ چند جملے ہی ہماری موجودہ عدالتی، معاشرتی اور معاشی صورتحال کی عکاسی کے لیے کافی ہیں اور ان میں معانی اور معروضی حقائق کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد آزادی اور نظریۂ پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ملک کے عدالتی، معاشی، انتظامی اور معاشرتی نظم و ماحول میں کچھ بنیادی تبدیلیاں ناگزیر تھیں جو ہم نہیں کر سکے، جس کے نتیجے میں دستور و قانون کے بہت سے اچھے اور مثبت فیصلوں میں پر عملدرآمد میں مسلسل رکاوٹیں موجود ہیں اور ہم اپنے کسی اچھے سے اچھے دستوری یا قانونی فیصلے کو بھی عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے، مثلاً:

۱۸۵۷ء میں برٹش استعمار نے اس خطہ کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے قانون اور قانونی نظام کو یکسر تبدیل کر دیا تھا، اس سے پہلے مغلوں کے دور میں یہاں اسلامی قوانین نافذ چلے آرہے تھے جن کی مرتب صورت فتاویٰ عالمگیری کے نام سے ریاست کے قانون کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کے لیے قضا کا عدالتی نظام موجود تھا اور تعلیمی اداروں میں اس قانون کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی، مگر برطانوی حکومت نے جب قانون تبدیل کیا تو صرف قانون بدلنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس کے لیے نیا عدالتی اور تعلیمی نظام بھی رائج کیا جو نئے نظام کا ناگزیر تقاضہ تھا۔ اسلامی قوانین کی جگہ برٹش لاء، قضا کے نظام کی جگہ برطانوی جوڈیشری سسٹم، اور تعلیمی اداروں میں فتاویٰ عالمگیری اور دیگر شرعی احکام و قوانین کی بجائے برٹش لاء کی تعلیم لازمی قرار پائی۔ جس کی وجہ سے برٹش لاء نوے برس تک باضابطہ اور اس کے بعد اب تک بالواسطہ طور پر ملک میں رائج اور نافذ ہے۔ وہی برٹش لاء ہے، وہی عدالتی نظام ہے اور وہی قانون کی تعلیم کا دائرہ اور سسٹم ہے۔ ہم قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک سوائے رسمی اعلانات اور چند علامتی اصلاحات کے اضافہ کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے۔

اگر ہم اس معاملہ میں اپنے پیشرو کی روایت پر قائم رہتے تو قرارداد مقاصد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، قرآن و سنت کے قوانین کی بالادستی اور مسلم تہذیب و روایات کی پاسداری کا قومی عہد کرنے کے بعد نہ صرف قوانین بلکہ عدالتی نظام اور قانون کی تعلیم کے نظام میں بھی تبدیلیاں ضروری تھیں جبکہ ہم انگریزی قوانین، عدالتی نظام اور قانون کی تعلیم کے معاملہ میں انگریزی دور کے تسلسل پر تو قائم رہے۔ مگر نئے دستور و قانون کے تقاضوں کے مطابق قانونی تعلیم اور عدالتی نظام تبدیل کرنے میں انگریز کی روایت پر عمل کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکے اور اس کوتاہی کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں۔

اس ستم ظریفی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ دستور کے مطابق ملک میں قرآن و سنت کے قوانین کی عملداری ضروری ہے مگر فیصلہ کرنے والے جج صاحبان اور مقدمات میں وکالت کے فرائض انجام دینے والے وکلاء کے لیے کسی سطح پر بھی قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کی تعلیم لازمی نہیں ہے اور ایک دانشور کے بقول پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دستوری طور پر شرعی احکام و قوانین پر عمل کو ضروری قرار دیا گیا ہے مگر عدالتی نظام سے متعلقہ کسی شعبہ میں بھی قرآن و سنت اور شرعی احکام و قوانین کی تعلیم ضروری نہیں سمجھی گئی۔

اس کی ایک عملی مثال یہ ہے کہ قائد اعظم مرحوم نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، دستوری معیشت کو اسلامی قوانین و تعلیمات کے مطابق چلانے اور غیر اسلامی سودی نظام کو جلد از جلد ختم کر دینے کی ضمانت موجود ہے۔ سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت نے متعدد بار سودی نظام کے خاتمہ اور ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کرنے کے واضح احکام جاری کیے ہیں، حتیٰ کہ غیر سودی بینکاری کے قابل عمل بلکہ زیادہ محفوظ اور نفع بخش کا سرکاری اور بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا جاچکا ہے، مگر ریاست کا تعلیمی نظام اسلام کے معاشی نظام و قوانین کی تعلیم اور معیشت کے اسلامی ماہرین کی تیاری کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء کی بات ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس وقت کے ڈپٹی گورنر جناب سعید احمد نے جامعۃ الخیر لاہور کے دورہ کے موقع پر صاف طور پر کہا کہ غیرسودی بینکاری قابل عمل ہے اور اس کے تجربات کامیاب ہو رہے ہیں مگر معیشت کے شرعی ماہرین دینی مدارس کو فراہم کرنا ہوں گے، اس کے بغیر معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکے گا۔

ہمارے لیے یہ بات انتہائی تعجب کا باعث بنی کہ اور ہم نے اپنے ایک مضمون میں ان دنوں یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر معیشت کو دستور کے مطابق اسلامی ماحول میں لانے کے لیے ماہرین دینی مدارس نے فراہم کرنے ہیں تو ریاستی نظام تعلیم کس بیماری کی دوا ہے اور وہ اپنی یہ ناگزیر ذمہ داری قبول کرنے سے کیوں انکاری ہے؟

دینی مدارس نے تو مسلم معاشرہ میں دینی ضروریات سے عوام کی آگاہی، مساجد و مدارس کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے حافظ، قاری، مولوی، امام، خطیب، مدرس، مفتی اور مبلغ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی تھی جسے وہ بے سروسامانی اور حوصلہ شکنی کے باوجود بحمد للہ تعالیٰ نباہ رہے ہیں، مگر جو کام ریاستی تعلیمی نظام کی ذمہ داری بنتے ہیں انہیں بھی دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال کر ہماری اسٹیبلشمنٹ کس طرح سرخرو ہو سکتی ہے؟

ہمارے معزز و محترم جج صاحبان نے متبادل مصالحتی نظام کی بات بھی کی ہے، ہم ان کی مکمل تائید کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ متبادل نظام کونسلنگ کے نام سے موجود ہے، جسے تسلیم کیا جاتا ہے اور جس کا احترام کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ریاستی عدالتی نظام بھی ان سے مدد حاصل کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایک دور میں پنچایتی سسٹم موجود تھا جو اب عملاً متحرک نہیں رہا جس سے گلی محلہ کے چھوٹے چھوٹے تنازعات بھی تھانہ کچہری کے کھاتے میں چلے گئے ہیں، اور اس سے نہ صرف عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کام کا بوجھ ان کے تحمل سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے، جس کی مسلسل شکایات خود ان اداروں کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس لیے متبادل مصالحتی نظام کی ہمارے ہاں بھی ضرورت ہے جس کے حوالے سے ہماری مقتدر حلقوں اور اداروں میں سنجیدگی کا فقدان ہے اور معزز جج صاحبان نے شاید اسی طرف اشارہ کیا ہے۔

بین الاقوامی سرمایہ کاری میں متبادل، مصالحتی عدالتی نظام کی موجودگی مفید ثابت ہو تو ہمیں یقینا خوشی ہوگی مگر دراصل یہ ہماری معاشرتی ضرورت ہے اور حصول انصاف کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ عدالتوں پر مقدمات کو مسلسل بڑھتا ہو بوجھ کم کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ جبکہ اس کے لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ مسجد کو بنیاد بنا کر یہ نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے، ہر مسجد اپنے دائرہ کار میں یا ایک تھانہ کی حدود میں موجود مساجد کی مشترکہ کمیٹی کو بنیاد قرار دے کر اس علاقہ کے خاندانی مسائل، مالی تنازعات اور ناقابل دست اندازی پولیس مقدمات کا فیصلہ ان کے سپرد کر دیا جائے، اور باقاعدہ قانون سازی کر کے ان کے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں تو یہ کام مشکل نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے سنجیدگی درکار ہے اور اتنا حوصلہ درکار ہے کہ بین الاقوامی ادارے اگر مسجد کے معاشرتی کردار کو متحرک ہوتا دیکھ کر آنکھیں دکھانے لگیں تو ہم ان کا حوصلہ کے ساتھ سامنا کر سکیں۔

اس سلسلہ میں ایک تجربہ سے ہم اس سے قبل گزر چکے ہیں کہ مسجد کو پرائمری تعلیم کی بنیاد بنا کر ’’مسجد مکتب سکیم‘‘ شروع کی گئی تو بعض بین الاقوامی اداروں کو مسجد کا معاشرتی معاملات میں یہ کردار گوارا نہ ہوا اور ان کی مداخلت پر یہ سکیم بند کر دی گئی۔ اس سلسلہ میں ہمیں بین الاقوامی اداروں کے سیکولر ایجنڈے کے دائرہ سے بہرحال نکلنا ہوگا جس کی بنیاد مذہب اور مسجد کے معاشرتی کردار کی نفی پر ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم محترم جسٹس منصور علی شاہ اور محترم جسٹس جواد حسن کے ان ارشادات کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات انتہائی ضروری ہیں اور معاشرتی عدل و انصاف کے لیے متبادل مصالحتی نظام کا باضابطہ قیام بھی ہماری ملی و معاشرتی ضرورت ہے، جس کی طرف متعلقہ اداروں اور حلقوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ خدا کرے کہ ہم اس طرف کوئی مثبت پیشرفت کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter