امارتِ اسلامی افغانستان کی معروضی صورتحال اس وقت دنیا بھر میں زیربحث ہے اور ہمارے ہاں بھی ’’کرنٹ ایشو‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹ میسج میں گزارش کی تھی کہ
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارت اسلامی افغانستان کو باہمی مفادات و ضروریات اور مشکلات کا ادراک کر کے اپنے تعلقات کو برادرانہ طور پر آگے بڑھانا چاہیے لیکن اس سے پہلے دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے والی عالمی گیموں سے بچنے کا اہتمام بہت ضروری ہے۔‘‘
جبکہ آج سوشل میڈیا کے کسی ذریعہ نے یہ خبر جاری کی ہے :
’’افغانستان سے باہر جہاد پر افغان سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے احکامات جاری کیے ہیں کہ کوئی بھی افغان شہری اور افغان عبوری حکومت کا رکن جہاد اور عسکریت پسندی کے لیے افغانستان کی سرحد پار نہیں کرے گا۔جو لوگ عسکریت پسندی کے لیے پاکستان گئے، اگر مارے گئے تو وہ شہید نہیں کہلائیں گے۔پاکستان میں کسی بھی افغان شہری کے اس حوالہ سے قتل کے بعد عبوری افغان حکومت کا کوئی نمائندہ اس کے جنازے میں شرکت نہیں کرے گا۔ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو افغانستان کی عبوری حکومت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا۔
اسی طرح ۵ /اگست ۲۰۲۳ء کو وزیر دفاع ملا یعقوب نے وزارتِ دفاع کے دورہ کے دوران واضح احکامات دیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان سے باہر کسی جنگ میں افغانوں کی شرکت نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں اور مجاہدین کی افغانستان سے باہر ایسی شرکت کو جنگ تصور کیا جائے گا اور اسے جہاد نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے تمام مجاہدین کو مشورہ دیا کہ وہ کہیں اور لڑنے کے بجائے افغانستان کی تعمیر نو میں تعاون کریں، افغانستان کی فلاح و بہبود اور تعمیر نو کے لیے کام کرنا عبوری افغان حکومت کے مجاہدین کے لیے اصل جہاد ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ افغان سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ کے احکامات کی تعمیل کی جائے۔‘‘
گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارت اسلامی افغانستان کے ذمہ دار حکام کی طرف سے بعض بیانات ہر محب وطن کے لیے باعث تشویش بنے ہیں اور اس دائرہ میں مستقبل کے خدشات و خطرات نے اضطراب کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مذکورہ رپورٹ درست ہے تو ہمیں نہ صرف اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے بلکہ معروف اور مسلّمہ دائروں میں اسے سپورٹ بھی کرنا چاہیے۔
۱۴ اگست اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یومِ آزادی ہے جبکہ ۳۱ اگست کو افغانستان کا قومی دن بتایا جا رہا ہے، اگر ان مواقع پر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور یکجہتی کے فروغ کے لیے دانشمندی کے ساتھ کوئی پیشرفت کی جا سکے تو اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کا بلکہ پورے عالمِ اسلام کا بھلا ہو گا۔