سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ

   
تاریخ: 
ستمبر ۱۹۹۵ء

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ اسلام دین فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریمؐ کو انسانی زندگی کے لیے جو نظامِ حیات دیا ہے وہ ایک فطری نظام حیات ہے، اس نظام کے کسی شعبے میں کوئی خلاء نہیں ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، انفرادی ہو یا اجتماعی، جہاں یہ محسوس ہوتا ہو کہ اسلام میں اس کے متعلق ہدایات موجود نہیں ہیں، اسلام نے اگر کسی معاملے کے متعلق براہ راست ہدایات نہیں دیں تو ایسے اصول و ضوابط دیے ہیں جن سے ان معاملات کا حل اخذ کیا جا سکتا ہے اور ان کے متعلق راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے، یوں انسانی زندگی کا کوئی شعبہ خدا و رسول کی رہنمائی اور ہدایت سے خالی نہیں رہنے دیا گیا۔

باہمی حقوق کی نوعیت

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرے میں رہنے والوں کے آپس کے حقوق بیان فرمائے ہیں، یہ حقوق دو نوعیت کے ہیں، پہلی نوعیت شخصی حقوق کی ہے جبکہ دوسری اجتماعی حقوق کی ہے۔ شخصی حقوق کا معنٰی یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کیا حق ہے، یعنی ماں کا حق بچے پراور بچے کا حق ماں پر، میاں کا حق بیوی پر اور بیوی کا حق میاں پر، بھائی کا حق بہن پر اور بہن کا حق بھائی پر، اُستاد کا حق شاگرد پر اورشاگرد کا حق استاد پر، یہ شخصی حقوق ہیں جن کی تفصیلات رسول اللہؐ نے بیان فرمائی ہیں۔ اجتماعی حقوق کا معنٰی یہ ہے کہ معاشرے کا انسان پر کیا حق ہے، سوسائٹی کا جو مشترکہ حق انسان پر ہے اسے سماجی خدمت یا سوشل ورک کہتے ہیں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اس تقاضے کو پورا کرنا سماجی خدمت کرنا کہلاتا ہے۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے بڑھ کر اور کوئی سماجی خدمت گزار نہیں رہا اور پھر انبیاء میں سب سے بڑے سوشل ورکر جناب رسالت مآبؐ ہیں۔

حضورؐ بطور سماجی خدمت گزار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالکل آغاز میں ہی آپؐ کا تعارف ایک سوشل ورکر کے طور پر سامنے آتا ہے، جب حضرت جبریل علیہ السلام غارِ حرا میں پہلی وحی لے کر آئے تو یہ حضورؐ کے لیے ایک اچانک بات تھی، آپؐ نے وحی تو قبول کر لی لیکن اِس غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے آپؐ کی طبیعت پر بے پناہ بوجھ تھا۔ پہلی وحی کے مراحل سے گزر کر آنحضرتؐ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے اِس تمام واقعہ کا ذکر کیا ،ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ جو جناب نبی کریمؐ کی زوجہ محترمہ تھیں اور قیامت تک دنیا کے مسلمانوں کی محترم ماں ہیں، رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ مجھ پر شخصی احسانات کرنے والی عورتوں میں سب سے بڑھ کر خدیجہؓ تھیں۔

حضرت خدیجہؓ بڑی سمجھ دار خاتون تھیں، حضورؐ نے گھر آ کر زوجہ محترمہ کو غارِ حرا کا یہ واقعہ سنایا اور ساتھ ہی پریشانی کا اظہار فرمایا جو کہ ایک طبعی اور فطری بات تھی، اس پر ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے پہلا ردِ عمل یہ ظاہر کیا، ’’واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدًا‘‘ خدا کی قسم! آپ تسلی رکھیے اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اس واقعے میں آپ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے اس کی وجہ بیان فرمائی ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علٰی نوائب الحق‘‘ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس لیے ضائع نہیں ہونے دے گا کہ معاشرے میں آپ کی خدمات اور کارکردگی قابلِ تعریف و ستائش ہیں، آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملانے والے ہیں، بیواؤں اور لاوارث لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں، محتاجوں کو کما کر دینے والے ہیں، مہمانوں کی مہمانداری کرنے والے ہیں اور لوگوں پر آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کرنے والے ہیں۔ یعنی جو آدمی سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا ہو اور معاشرے کے نادار لوگوں کا سہارا بنتا ہو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک نبی کے طور پر جناب نبی کریمؐ کا پہلا تعارف ہی اس بات سے ہوا کہ آپؐ بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کے کام آتے ہیں۔ چنانچہ سماجی خدمت سوسائٹی کا حق ہے، معاشرے کا یہ حق جناب نبی کریمؐ نے خود بھی ادا کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔

حضرت خدیجہؓ کے یہی الفاظ عرب قبیلے کے ایک سردار ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں کہے تھے، جب مکہ مکرمہ کے مسلمانوں پر مکہ کی زمین تنگ کر دی گئی، مشرکینِ مکہ نے تکلیفوں اور اذیتوں کی انتہا کر دی اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے، حضرت ابوبکر صدیقؓ جو جناب نبی کریمؐ کے سب سے قریبی ساتھی تھے، وہ بھی معاشرے کے ظلم و ستم سے تنگ آگئے۔ انہوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مکہ میں زندگی گزارنا برداشت سے باہر ہو رہا ہے، اجازت ہو تو میں بھی ہجرت کر جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہجرت کی اجازت دے دی۔

حضرت صدیق اکبرؓ نے سامان باندھا اور ہجرت کے ارادے سے مکہ سے نکل گئے اورکچھ سفر بھی طے کر لیا۔ بنو قارہ کا سردار اِبن الدغنہ جو عرب قبائل کے سرداروں میں ایک بڑا سردار تھا، وہ کسی سفر سے مکہ واپس آرہا تھا، راستے میں اس کی حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ بتایا کہ مکہ کے لوگوں نے جینا دو بھر کر دیا ہے، اس لیے مکہ سے ہجرت کر کے جا رہا ہوں۔ خود نبی کریمؐ نے بھی ہجرت کی رات مکہ کی طرف منہ کر کے کہا تھا کہ اے میرے شہر! اے اللہ کے گھر والے شہر، تجھے چھوڑ کر جانے کو جی تو نہیں چاہتا لیکن کیا کروں، اس شہر کے مکین یہاں رہنے نہیں دیتے۔ ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہا کہ میں تمہیں نہیں جانے دوں گا، تیرے جیسے لوگ شہر نہیں چھوڑ سکتے۔ پھر ابن الدغنہ نے وہی الفاظ حضرت صدیق اکبرؓ سے کہے جو حضرت خدیجہؓ نے پہلی وحی کے بعد حضورؐ سے فرمائے تھے ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتقری الضیف و تکسب المعدوم و تعین علی نوائب الحق‘‘۔ ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہا کہ تم میرے ساتھ واپس چلو، میں تمہاری ضمانت دوں گا، چنانچہ وہ انہیں ساتھ لے کر مکہ واپس آیا اور بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اعلان کیا کہ لوگو! میں بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ ہوں، ابوبکرؓ تمہاری اذیتوں کی وجہ سے شہر چھوڑ کر جا رہا تھا، مجھ سے برداشت نہیں ہوا ، اس لیے میں اسے لے کر واپس آیا ہوں، اگر کسی کو ابوبکرؓ سے کوئی شکایت ہے تو وہ مجھ سے بات کرے، میں ابوبکرؓ کی ضمانت دیتا ہوں اور وہ میری پناہ میں ہے۔ پھر کہا کہ لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ابوبکر جیسا سماجی خدمت گزار تمہارے طرزِ عمل سے شہر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ یعنی ابن الدغنہ نے کہا کہ سوشل ورکر تو کسی معاشرے کی آبرو ہوتا ہے، ایسے آدمی کو شہر چھوڑنے پر مجبور کرنا اس معاشرے کی بدبختی کی علامت ہے۔ چنانچہ چند روز تک حضرت صدیق اکبرؓ ابن الدغنہ کی پناہ میں رہے لیکن بعد میں حسب حالات حضرت ابوبکرؓ نے ابن الدغنہ کی یہ پناہ واپس کر دی۔

راستے کے حقوق

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ راستوں میں اور کھلی گزرگاہ میں مت بیٹھا کرو۔ بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ہمارے پاس تو گھروں میں جگہ نہیں ہوتی، کوئی دوست وغیرہ ملنے آجائے تو ہم باہر کھلی جگہ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا راستے میں کسی جگہ پر اسے اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر گھر سے باہر کھلی گزرگاہ میں بیٹھنا ضروری ہو تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا ’’یا رسول اللّٰہ وما حق الطریق‘‘ کہ انسانوں کے حق تو سنے تھے، یہ راستے کا حق کیا ہے؟ چنانچہ جناب نبی کریمؐ نے راستے کے حقوق بیان کیے ’’غض البصر وکف الاذیٰ عن الطریق و رد السلام والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر وغیر ذلک‘‘۔

  1. پہلا حق یہ فرمایا کہ نگاہیں نیچے رکھو اور آنے جانے والوں پر تانک جھانک مت کرو۔
  2. دوسرا حق یہ فرمایا کہ راستے میں اس طرح کھڑے ہو کر لوگوں کو اذیت مت دو کہ آنے جانے والوں کے لیے راستہ بند ہو جائے، اور اگر کوئی اذیت والی چیز راستہ میں دیکھو تو اسے ہٹا دو۔
  3. تیسرا حق یہ فرمایا کہ گزرنے والا مسلمان بھائی اگر سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دو۔
  4. چوتھا حق یہ فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو یعنی راستے میں کوئی برائی ہوتے دیکھو تو اس کی ممانعت کا اہتمام کرو۔
  5. پانچواں حق یہ فرمایا کہ کوئی شخص راستہ گم کر بیٹھے تو اس کی راہنمائی کرو۔

دینِ اسلام کی دعوت

جناب نبی کریمؐ نے راہنمائی کا دائرہ وسیع رکھا ہے کہ ایک غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینا یہ بھی ایک مسلمان پر معاشرے کا حق ہے۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر صورتحال یہ تھی کہ قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے اور قلعہ فتح کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی، ایک دن نبی کریمؐ نے شام کے وقت اعلان فرمایا کہ میں کل لڑائی کا جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ خیبر کا قلعہ فتح کروائیں گے، اس کے ساتھ یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’یحبہ اللّٰہ ورسولہ‘‘ کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت بھی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ وہ رات ہم سب نے ایسی گزاری کہ ہر صحابی کے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کرے کہ کل لڑائی کا جھنڈا مجھے ملے، فرماتے ہیں کہ مجھے زندگی بھر کبھی امارت کی خواہش نہیں ہوئی لیکن اس رات یہ خواہش میرے دل میں بھی تھی اس لیے کہ اس میں ایک تو رسول اللہؐ نے فتح کی خوشخبری دی، دوسرا ’’یحبہ اللّٰہ ورسولہ‘‘ فرمایا۔

صبح ہوئی، جناب نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ علیؓ کو بلاؤ، حضورؐ کو بتایا گیا کہ وہ تو بیمار ہیں اور ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں سکتے، حضرت علیؓ آئے تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ علیؓ آج لشکر کی کمان تم کرو گے۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! اس سے بڑی سعادت کی بات کیا ہو سکتی ہے لیکن میں تو ٹھیک طریقے سے دیکھ بھی نہیں سکتا، میری آنکھوں کا برا حال ہے، رسول اللہؐ نے اپنا لعاب مبارک حضرت علیؓ کی آنکھوں پر لگایا جس سے اُن کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔ حضورؐ کا معجزہ دیکھیں کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہر سال گرمیوں میں میری آنکھیں خراب ہو جاتی تھیں لیکن اس کے بعد زندگی میں کبھی خراب نہیں ہوئیں۔ حضورؐ نے جب جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا تو اس کے ساتھ ایک ہدایت فرمائی کہ جا کر پہلا کام یہ کرنا کہ انہیں اسلام کی دعوت دینا۔ پھر فرمایا کہ علیؓ اگر ایک آدمی بھی تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی بہتر ہے، اس زمانے میں سرخ اونٹ سب سے بڑی دولت سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ حضورؐ نے غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینے کو معاشرے کا حق بتایا۔

اصلاحِ دین کی دعوت

ایک آدمی نیکی کے راستے پر نہیں چل رہا، جبکہ دوسرا آدمی برائی کے راستے پر چل رہا ہے، یہ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک آدمی نیکی بھی نہیں کر رہا اَور برائی بھی نہیں کر رہا لیکن اس میں نیکی کی صلاحیت موجود ہے، ایسے آدمی کو نیکی کے راستے پر چلانا دوسرے مسلمان کا حق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک مسلمان جو غلط راستے پر چل رہا ہے اسے صحیح راستے پر لانا بھی دوسرے مسلمان کا حق ہے، اگر اِس کی غفلت کی وجہ سے دوسرا مسلمان غلط راستے پر چلتا رہا تو یہ بھی قصور وار ٹھہرے گا۔

راستہ دکھانے میں نبی کریمؐ نے دو باتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی بات یہ کہ کوئی شخص اپنے گھر کا یا اپنی منزل کا راستہ بھول جائے تو اسے صحیح راستے پر چلا دینا، دوسری بات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق بیان فرمائی کہ کوئی شخص نیکی اور بدی کے معاملے میں صحیح راستے پر نہ چل رہا ہو تو اسے صحیح راستے پر چلانا۔ رسول اللہؐ نے راہنمائی کو سوسائٹی کا سب سے بڑا حق قرار دیا، یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں تک ممکن ہو یہ حق ادا کرے۔

ظلم سے روکنا

عبد اللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’المسلم اخوا المسلم لا یَظلمہ ولا یُظلمہ‘‘ کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ خود اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ وہ اسے دوسروں کے ظلم کے حوالے کرتا ہے۔ یعنی ایک مسلمان نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ کسی پر دوسروں کو ظلم کرنے دیتا ہے، معاشرے کے افراد کا ہم پر صرف یہ حق نہیں ہے کہ ہم ان پر ظلم نہ کریں بلکہ یہ بھی حق ہے کہ کہیں ظلم ہوتا ہو تو حسب استطاعت اسے روکیں۔ جناب نبی کریمؐ نے حکم فرمایا ’’أنصر أخاک ظالمًا أو مظلومًا‘‘ کہ تمہارا بھائی ظالم ہو یا مظلوم، اس کی مدد کرو۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہؐ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسے ظالم کے ظلم سے بچائیں لیکن ظالم کی مدد کا کیا معنٰی ہے؟ فرمایا، ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روکو۔

حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یاد رکھو! جو شخص کسی دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، پھر فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مشکل میں اس کے کام آئے، اللہ تعالیٰ اس کی اپنی مشکل آسان فرما دیتا ہے۔ پھر فرمایا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالیں گے۔ اس موقع پر حضورؐ نے غیبت کی مذمت فرمائی کہ غیبت بری چیز ہے جبکہ قرآن کریم نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر اس شخص میں وہ عیب ہو کیا تب بھی اس کا تذکرہ منع ہے؟ آپؐ نے فرمایا، اسی کا نام تو غیبت ہے۔ ایک آدمی میں کوئی عیب ہو اور آپ بلا ضرورت اس کا تذکرہ کریں، یہی تو غیبت ہے۔ لیکن اگر آپ کسی آدمی کے ایسے عیب کا تذکرہ کریں گے جو اس میں نہیں ہے، یہ تو در بہتان ہوجاتا ہے۔

جناب نبی کریمؐ نے لوگوں کے باہمی حقوق کے متعلق ایک حدیث قدسی کا ذکر فرمایا۔ حدیث قدسی اسے کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم روایت کریں۔حدیث قدسی اور قرآنی آیات میں یہی فرق ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، جبکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو حضورؐ اپنے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں یعنی ان الفاظ کا اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ بھوکوں کو کھلانا حضورؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے ارشاد فرمائیں گے کہ اے میرے بندے! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں کھلایا؟ بندہ کہے گا کہ یااللہ! آپ اور بھوک؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہاں تمہارے پڑوس میں ایک آدمی بھوکا تھا اس کے لیے میں نے تم سے کھانا مانگا تھا تم نے اسے کھانا نہیں کھلایا، اسے کھلانا در اصل مجھے ہی کھلانا تھا۔ تم نے اپنے اڑوس پڑوس میں یہ خیال ہی نہیں کیا کہ کون بھوکا ہے اور کس کو کھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک شخص سے فرمائیں گے کہ میں بیمار تھا تم نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا یا اللہ! آپ بیمارتھے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہاں تمہارے پڑوس میں تمہارا فلاں بھائی بیمار تھا تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ میں نے تمہیں بیمار پرسی کا حکم دیا تھا تم اس کی عیادت کرتے تو دراصل میری عیادت کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک شخص سے فرمائیں گے کہ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا یا اللہ ! آپ اور پیاس؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمہارے محلے میں فلاں شخص پیاسا تھا اسے پینے کا پانی میسر نہیں تھا تم نے اس کی اِس ضرورت کا خیال نہیں رکھا، تم اسے پانی پلاتے تو در اصل مجھے پانی پلاتے۔

خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی حقوق کو کس انداز سے بیان فرمایا ہے اور لوگوں کے آپس کے حقوق کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ بھوکوں، بیماروں اور پیاسوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔جناب نبی کریمؐ نے تو یوں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی پیاسے کو پانی پلایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے میرے ہاتھوں پانی پلائے گا، جس نے کسی بھوکے کو کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کے میوے کھلائیں گے۔ مشکل میں کسی کے کام آنا، کسی مقروض کا قرضہ ادا کرنا، کسی بیمار کی دوا کا خرچہ برداشت کرنا، کسی الجھن کے شکار فرد کے ساتھ بات چیت کر کے اس کی کوئی الجھن دور کرنا، یا کسی بھی نوعیت کی مشکل آسان کرنا، ان سب کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد اجر و ثواب ہے۔

انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان فرمایا کہ قیامت کے دن کے بارے میں ہر آدمی کو اللہ تعالیٰ سے اپنے ساتھ کسی خاص سلوک کی توقع ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے اس طرح کا معاملہ فرمائیں گے۔ حضورؐ نے ایک بڑا جامع جملہ ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو خدا کی مخلوق کے ساتھ جو طرزِ عمل تمہارا ہوگا، خدا کا وہی طرزِ عمل تمہارے ساتھ ہوگا۔ یعنی تم لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالو گے خدا تمہارے عیبوں پر پردہ ڈالے گا، تم لوگوں کی غلطیاں معاف کرو گے خدا تمہاری غلطیاں معاف کرے گا، تم لوگوں کی گردنیں بوجھ سے چھڑواؤ گے اللہ تعالیٰ تمہاری گردن سے بوجھ ہٹا دے گا، تم بھوکوں کو کھلاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہاری بھوک دور کر دیں گے۔ گویا رسول اللہؐ نے یہ اصول بیان فرمادیا کہ تمہارا جو طرزِعمل اللہ کی مخلوق کے ساتھ ہوگا، اللہ تعالیٰ سے بھی اسی طرزِ عمل کی توقع رکھنا، اور پھر مخلوق سے مراد صرف مسلمان نہیں ہیں۔ آپس کے حقوق بیان فرماتے ہوئے حضورؐ نے ایک عجیب ترتیب بتائی۔

پڑوسی کے حقوق

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پڑوسی تین قسم کے ہیں:

  • ایک وہ جو تمہارا پڑوسی بھی ہے، مسلمان بھی ہے اور رِشتہ دار بھی ہے، ایسے شخص کے تم پر تین حق ہیں: پڑوسی کا حق، مسلمان بھائی ہونے کا حق اور صلہ رحمی کا حق۔
  • دوسرا وہ جو تمہارا رشتہ دار تو نہیں لیکن مسلمان ہے اور پڑوسی ہے، اس کے تم پر دو حق ہیں: مسلمان بھائی ہونے کا حق اور پڑوسی ہونے کا حق۔
  • پھر اس شخص کا حق جو مسلمان بھی نہیں اور رِشتہ دار بھی نہیں، لیکن اس کا بھی پڑوسی ہونے کا تم پر حق ہے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ کسی خوشی کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کی، گوشت پکایا اورمحلے میں تقسیم کیا۔ حضرت عبد اللہؓ جب گھر تشریف لائے تو پوچھا کہ ہمارے فلاں یہودی پڑوسی کو آپ لوگوں نے گوشت بھیجا ہے یا نہیں؟ گھر والوں نے جواب دیا کہ اس پڑوسی کو بھیجنا تو یاد نہیں رہا، حضرت عبد اللہؓ نے اس پر ناراضگی ظاہر کی اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ پھر ایک حدیث نقل کی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’ما زال جبریل یوصینی بالجار حتّٰی ظننت انہ سیورثہ او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ کہ جبریل علیہ السلام بار بار مجھے پڑوسیوں کے بارے میں تلقین کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے خیال کیا کہ وہ انہیں وارث قرار دینے کا حکم لے آئیں گے۔

ایک حدیث کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے پڑوسیوں کے حقوق میں یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر گوشت پکایا ہے تو شوربہ زیادہ کر لو اَور پڑوسی کا خیال کرو، اکیلے مت کھاؤ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا ’’لیس المؤمن الذی یبیت شبعان و جارہ جائع فی جنبہ وھو یعلمہ‘‘ کہ وہ شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے جو خود تو رات کو پیٹ بھر کر سوئے، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ گھر میں اگر کھانے کے لیے پھل لے کر آؤ تو اس میں سے اپنے پڑوسی کو بھی بھجواؤ، اگر نہیں بھجوا سکتے تو اپنے بچوں کو پھل لے کر باہر مت آنے دو، پڑوسی کے بچے دیکھیں گے تو وہ اپنے باپ سے ویسا پھل کھانے کی ضد کریں گے، اور اگر اُس غریب کی استطاعت سے باہر ہوگا تو بچوں کو مایوسی ہوگی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ چھلکے باہر مت پھینکو، پڑوسی کے بچے دیکھیں گے تو اپنے ماں باپ کو تنگ کریں گے۔

پڑوس کی حد کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دن پوچھ لیا کہ یا رسول اللہ! آپ پڑوس کے حقوق بیان فرماتے ہیں، پڑوس کی کیا حد ہے؟ فرمایا چالیس گھروں تک۔ بعض محدثین نے آسانی فرما دی کہ کل چالیس گھر یعنی ہر طرف سے دس دس گھرلیکن بعض محدثین کہتے ہیں کہ دونوں اطراف میں چالیس چالیس گھر۔

جائز سفارش

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشکل وقت میں لوگوں کے کام آنا بظاہر معاشرے کاحق ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا حق بتایا ہے۔ کوئی آدمی کسی مشکل اور پریشانی میں ہو پہلا درجہ تو یہ ہے کہ اس کی یہ مصیبت دور کی جائے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر خود نہیں کر سکتا تو کسی ایسے شخص سے سفارش کردے جو یہ کام کر سکے۔ قرآن کریم نے اس بارے میں فرمایا ہے ’’من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا‘‘ (سورۃ النساء ۸۵) کہ جس نے کسی کی اچھے کام میں سفارش کی اس کا ثواب میں حصہ ہوگا اور جس نے کسی کی برے کام میں سفارش کی اس کے گناہ کا اس پر بھی بوجھ ہوگا۔

اچھی سفارش سے مراد یہ ہے کہ آدمی ضرورت مند ہو اور اس کی حاجت جائز ہو، غلط سفارش سے مراد یہ ہے کہ آدمی ضرورت مند نہیں ہے یا یہ کہ اس کی حاجت غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ جناب نبی کریمؐ خود سفارش کی تلقین فرمایا کرتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی اگر کام لے کر آئے تو اس کی سفارش کیا کرو، فرمایا فیصلہ تو میں نے وہی کرنا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا ء ہوتا ہے لیکن تم کیوں ثواب سے محروم ہوتے ہو؟

رسول اللہؐ خود بھی سفارش کیا کرتے تھے، جب حضرت جابرؓ کے والد فوت ہوئے تو یہ آٹھ بہنوں کے اکیلے کفیل تھے اور یہودیوں کے مقروض تھے۔ ایک باغ اور کچھ زمین تھی جس پر پھل اور فصل اگائی ہوئی تھی جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو یہودیوں نے کہہ دیا کہ ہم تمہیں فصل نہیں اٹھانے دیں گے پہلا ہمارا قرضہ واپس کرو۔ جبکہ قرضہ اتنا تھا کہ ساری فصل اٹھا کر بھی قرضہ نہ چکایا جا سکتا۔ اب اگر ساری فصل وہ لے جاتے تو حضرت جابرؓ کے گھر کے لیے کیا بچتا؟ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ یا رسول اللہ! ایک تو باپ کی وفات کا صدمہ ہے دوسرا آٹھ بہنیں ہیں جن کی کفالت کا بوجھ ہے اور اب تیسرا اِس قرضہ کی پریشانی نے آن گھیرا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے ان یہودی افراد کے پاس حضرت جابرؓ کی سفارش کی کہ اللہ کے بندو ! یہ مجبور آدمی ہے اگر تم اسے سہولت دو تو یہ قسط وار تمہارا قرضہ ادا کر دے گا لیکن تم اسے ساری فصل سے محروم نہ کرو، اس نے سال کا خرچہ بھی گھر میں رکھنا ہے اور بہنوں کی کفالت بھی کرنی ہے۔ لیکن یہودیوں نے آنحضرتؐ کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا کہ اس کے باپ نے ہم سے قرضہ لیا تھا ہم تو جابرؓ سے وہ قرضہ لے کر ہی رہیں گے۔ اس پر شانِ رسالت جوش میں آگئی، آپؐ نے جابرؓ سے فرمایا کہ اپنے باغ کا سارا پھل کاٹ کر ڈھیر لگا دو اور اس پر کپڑا بچھا دو پھر سب قرض داروں کو بلاؤ کہ آکر اپنا قرضہ لے جائیں، چنانچہ حضرت جابرؓ نے ایسا ہی کیا۔ جناب نبی کریمؐ اس موقع پر تشریف لے گئے اور پوچھا کیا سب قرض دار آگئے ہیں؟ جابرؓ نے بتایا، ہاں آگئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب چادر کے نیچے سے کھجوریں نکالتے جاؤ اور قرض داروں کو دیتے جاؤ۔ حضرت جابرؓ نے کھجوریں نکال کر دینا شروع کر دیے یہاں تک کہ سب قرض داروں کا قرضہ ادا ہوگیا، اس کے بعد چادر اٹھا کر دیکھا تو پھلوں کا ڈھیر ویسا کا ویسا تھا، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔

جناب نبی کریمؐ نے سفارش کی تلقین بھی فرمائی اور اس کا اجر بھی بتایا، کسی آدمی کی کوئی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کا طریقہ اُسے معلوم نہیں ہے یا متعلقہ محکمہ یا دفتر تک اس کی رسائی نہیں ہے جبکہ آپ اس کے معاون بن کر، اسے مطلوبہ معلومات مہیا کر کے، متعلقہ محکمہ سے اس کی واقفیت کروا کر، اسے متعلقہ آدمی سے ملوا کر اُس کا کام کروا دیتے ہیں تو یہ سفارش یا معاونت کہلاتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب ہے۔

رسول اللہؐ نے اپنے ایک اور صحابیؓ کے لیے بھی سفارش کی تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے اپنی لونڈی بریرہؓ کو آزاد کر دیا، وہ ایک صحابی مغیثؓ کے نکاح میں تھی۔ شریعت میں آزاد ہونے والی لونڈی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ پہلے خاوند کے نکاح میں رہے یا اسے ختم کر دے، خیر آج کے دور میں نہ تو غلامی کا تصور پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی شرائط موجود ہیں۔ آزادی کے بعد بریرہؓ نے اعلان کر دیا میں مغیثؓ سے اپنا نکاح فسخ کرتی ہوں، مغیثؓ کو اس پر بے حد پریشانی ہوئی۔ روایات میں آتا ہے کہ مغیثؓ گلیوں میں روتے پھرتے تھے، آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ خدا کے لیے کوئی میری بریرہؓ سے سفارش کرے۔ حتیٰ کہ جناب نبی کریمؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ بریرہؓ سے میری سفارش کر دیں۔ حضورؐ نے بریرہؓ کو بلاکر پوچھاکہ کیا تم نے مغیثؓ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے؟ بریرہؓ نے جواب دیا، ہاں کر لی ہے، اس لیے کہ شریعت مجھے اس کا حق دیتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اگر تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر کے مغیث کے پاس واپس چلی جاؤ تو کیا حرج ہے؟ بریرہؓ نے اس پر حضورؐ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ حضورؐ نے فرمایا، مشورہ ہے۔ بریرہؓ نے جواب دیا، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر ،لیکن اگر یہ مشورہ ہے تو مجھے منظور نہیں ہے۔

سفارش بھی معاشرے میں ضرورت مندوں کے کام آنے والا ایک ذریعہ ہے اور جناب نبی کریمؐ نے اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے، آپ نے اس کی تلقین بھی فرمائی لیکن جائز کاموں میں ’’شفاعۃ حسنۃ‘‘۔ کوئی اگر کسی کے جائز کام میں سفارش کرے گا تو ثواب میں شریک ہوگا لیکن اگر کسی ناجائز کام میں سفارش کرے گا تو گناہ میں حصہ دار ہوگا۔

جھگڑنے والوں میں صلح کروانا

معاشرے کی ایک اور بڑی خدمت یہ ہے کہ روٹھے ہوئے لوگوں کو آپس میں ملا دینا۔ جھگڑنے والوں کی آپس میں صلح کرانا بھی ایک سماجی خدمت ہے، قرآن کریم میں ہے ’’انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم‘‘ (سورۃ الحجرات ۱۰) کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں، اگر آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی صلح کراؤ۔ دو آدمی ، دو خاندان ، یا دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروانا بھی معاشرے کا حق ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بہت سے مواقع پر جھگڑنے والوں کی آپس میں صلح کروائی، اس کی ایک یادگار مثال تو آپ کی نبوت سے پہلے کی ہے جب آپ نے عرب قبائل کے درمیان صلح کروائی۔

عرب قبائل کے درمیان صلح کا یادگار واقعہ روایات میں آتا ہے کہ خانہ کعبہ کا غلاف اور اس کے دروازے کسی عورت کی بے احتیاطی سے جل گئے، چنانچہ عرب قبائل نے خانہ کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر نئی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ابو جہل جو کہ ایک بڑا سردار تھا، اس نے اعلان کیا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر کے لیے چندے کی رقم میں چوری ، شراب، سود، جوے، بدکاری، اور کسی بھی قسم کی حرام کمائی کے پیسے قبول نہیں کیے جائیں گے، جس نے چندہ دینا ہے صرف حلال کی کمائی میں سے دے۔ یہ جو کعبہ کے باہر حطیم کا نامکمل حصہ ہے، مورخین اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ حلال کمائی کے اتنے پیسے جمع ہی نہیں ہو سکے کہ پورے خانہ کعبہ کی تعمیر ہو سکتی۔

چنانچہ بیت اللہ کی تعمیر کا آغاز ہوا اور جب حجرِ اسود کے نصب کرنے کی باری آئی تو وہ قبائل جھگڑ پڑے ہر قبیلے کا مطالبہ تھا کہ ہمارے قبیلے کا سردار حجرِ اسود کو نصب کرے گا، شام تک یہ لوگ اس بات پر آپس میں جھگڑتے رہے۔ شام کو ان لوگوں نے کہا کہ اس وقت یہ جھگڑا یہیں رہنے دو صبح کے وقت جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا وہ ہمارا حکم ہوگا اسی سے ہم اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروائیں گے۔ صبح انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمؐ سب سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے سارے خوش ہوگئے کہ ’’الصادق الامین‘‘ آ گیا۔ آپؐ پر سب کا اعتماد تو پہلے سے تھا، انہوں نے حضورؐ سے کہا کہ آپؐ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں، آپؐ نے فرمایا کہ ایک چادر لے کر آؤ، چادر لائی گئی، آپؐ نے حجرِ اسود کو اٹھا کر اُس چادر میں رکھا، پھر فرمایا کہ تمام قبیلے کے سردار آکر یہ چادر پکڑیں اور اسے اٹھا کر اُس جگہ کے قریب لے جائیں جہاں حجرِ اسود نے نصب ہونا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اُس کے بعد حضورؐ نے چادر سے حجرِ اسود اٹھا کر اُس کی جگہ پر نصب کر دیا۔آپؐ نے صلح کے عمل کے بارے میں فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس عمل کی برکت سے گناہ معاف فرما دیں گے۔

ایک دفعہ حضورؐ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور حضرت حسنؓ جو اس وقت چند سال کے چھوٹے بچے تھے سامنے کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے کسی وجہ سے گر گئے۔ حضورؐ نے دیکھا تو آپؐ سے رہا نہ گیا آپؐ منبر سے اترے، جا کر حسنؓ کے کپڑے جھاڑے گود میں اٹھایا اور انہیں ساتھ لے کر منبر پر کھڑے ہوگئے اور اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانا شروع کر دیا۔ فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، پھر فرمایا ’’وسیصلح اللّٰہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘ کہ اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔ یہ حضرت معاویہؓ کے ساتھ ان کی مصالحت کی طرف اشارہ تھا اور پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی اور حضرت حسنؓ کی دست برداری کی وجہ سے پوری امت حضرت معاویہؓ کی خلافت پر متفق ہو کر ایک بار پھر متحد ہوگئی۔ جھگڑے کو نمٹانا اَور صلح کرانا یہ بھی سماج کی خدمت ہے اور معاشرے کا حق ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب ایک مسلمان ملے تو سلام کرو، کوئی دوسرا سلام کرے تو اس کا جواب دو، کوئی دعوت کرے تو قبول کرو، ہر مسلمان کی خیر خواہی کرو، خیر کی بات اور خیر کا عمل کرو، کوئی بیمار ہو تو عیادت کرو، کوئی چھینک مار کر ’’الحمد للہ‘‘ کہے تو ’’یرحمک اللہ‘‘ کہو، کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو جنازے میں شریک ہو، یہ سب آپس کے حقوق ہیں۔

آج کی گفتگو کا عنوان تھا کہ سماجی خدمت بھی معاشرے کا حق ہے یعنی ضرورت مندوں کے کام آنا، لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹانا، بیواؤں یتیموں مسکینوں کی کفالت کرنا اور نادار لوگوں کی مدد کرنا ، یہ حضرات انبیاء علیہم الصلواۃ والتسلیمات کی سنت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے اجر و ثواب کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

2016ء سے
Flag Counter