غیر ملکی این جی اوز کے خلاف کاروائی!

   
۱۷ جون ۲۰۱۵ء

ایک غیر ملکی این جی او کی سرگرمیوں کو ملکی مفاد کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر اس کے مراکز کو سیل کیا گیا تو چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے ہی یہ آرڈر واپس لینا پڑ گیا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا دائرہ اور اس کی سطح کیا ہے۔ اور ہمیں قومی خود مختاری کے حوالہ سے کس نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قسم کی غیر ملکی این جی اوز کی تعداد سوا سو کے لگ بھگ ہے اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ ہماری قومی زندگی کے کم و بیش تمام شعبوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خان نے ان سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملکی مفاد کے خلاف کسی کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا یہ بیان پڑھ کر ہماری زبان پر ’’تیرے منہ میں گھی شکر‘‘ کا محاورہ آتے آتے رہ گیا اور ہمیں ایک پرانے دوست پیر محمد یامین رضوی مرحوم یاد آگئے جو پھالیہ کے ایک بزرگ عالم دین کے فرزند تھے۔ انہوں نے بھی صوبائی وزیر کی حیثیت سے اپنے صوبہ میں غیر ملکی این جی اوز کی ایسی سرگرمیوں سے واقف ہونے کے بعد ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کو ملکی مفاد و قانون کے دائرے میں لانے کا محاذ سنبھال لیا تھا۔ مگر ابھی اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ اپنے محاذ سمیت دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

غیر ملکی این جی اوز کی مشکوک سرگرمیوں کے حوالہ سے ان کے عزم کو دیکھ کر ہم نے اپنے کالموں میں ان کے بیانات کا خیر مقدم کیا تھا اور ان سے ملاقات کر کے ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے خیال میں اگر اس سلسلہ میں ان کی چند ہفتوں کی کوششوں کا ریکارڈ تلاش کیا جا سکے تو بہت سوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے وہی کافی ہوگا۔ مگر ہمارے ہاں اس طرح کی حب الوطنی کو یاد رکھنے اور اس کا تسلسل قائم رکھنے کی روایت موجود نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایسے غائب ہو جاتی ہے کہ تاریخ کے کسی کونے میں جگہ پانے کی گنجائش بھی اسے میسر نہیں آتی۔ بلاشبہ ساری این جی اوز ایسی نہیں ہیں اور بہت سی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز موجود ہیں جو انسانی فلاح و بہبود، معاشرتی ترقی، سماجی اصلاح اور خدمت خلق کے مختلف دائروں میں مثبت اور مفید خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ لیکن جب سے استعماری قوتوں نے سماجی بہبود اور خدمت انسانیت کے مقدس عنوانات کو اپنے سیاسی اور استعماری مقاصد کے لیے ذریعہ بنانے کی ریت ڈالی ہے، ’’این جی او‘‘ کی اصطلاح ہی جاسوسی، تہذیبی خلفشار، اور سیاسی افراتفری کے فروغ کا عنوان بن کر رہ گئی ہے۔ اور کسی این جی او کے بارے میں یہ سوچنا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ وہ واقعتا کوئی مثبت کام کر رہی ہوگی اور معاشرہ کی کوئی خدمت کسی خفیہ ایجنڈے کے بغیر انجام دے رہی ہوگی۔

یہ این جی اوز کیا کر رہی ہیں اور ان کی متنوع سرگرمیوں کے اہداف کا رخ کس کس سمت میں ہے؟ یہ بات اب مخفی نہیں رہی اور

یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے

کے مصداق ملک کے ہر باشعور کی زبان پر ہے، مگر ہمارے ذمہ دار قومی ادارے اور مقتدر سیاسی حلقے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی تصویر بولنے کا حوصلہ کر بیٹھے تو فریم تھرتھرانے لگتا ہے اور کئی تصویریں اس کی جگہ لینے کے لیے لائن میں لگی ہوتی ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز کی ایک بڑی تعداد جس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اس کی چند مبینہ شقوں پر نظر ڈال لی جائے تو ان کی سرگرمیوں کے مقاصد کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ مثلاً

  • پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اسلامی تشخص کو مجروح کرنا اور نئی نسل کو دھیرے دھیرے ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے لیے ذہنی اور فکری طور پر تیار کرنا۔
  • اقبالؒ نے افغانیوں کی قومی و دینی حمیت پر یہ تبصرہ ابلیس کی زبان سے نقل کیا تھا کہ
    افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
    ملّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

    افغانیوں پر یہ نسخہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیا تو پاکستانی مسلمانوں کی دینی و ملی حمیت کے علاج کے طور پر یہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے۔ اور دینی تعلیمات اور دینی حلقوں کی کردار کشی کی وسیع تر مہم کی آبیاری میں سینکڑوں این جی اوز شب و روز مصروف نظر آرہی ہیں۔

  • مشرقی تہذیب اور اسلامی تمدن اب تک مغربی ثقافت کے تسلط کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیٖں اور اس کی بنیاد مضبوط و مستحکم ’’خاندانی نظام‘‘ پر ہے۔ اس خاندانی نظام اور اس کی اقدار و روایات کو بکھیرنے کے لیے میڈیا اور لابنگ کی ’’کارپٹ بمبنگ‘‘ کے سائے میں این جی اوز کے سینکڑوں زمینی دستے پیش قدمی کی راہ ہموار کرنے میں مگن ہیں، اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط حلقے کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔
  • ملک کی سیاسی وحدت، قومی خود مختاری، جغرافیائی سالمیت، معاشی استحکام و ترقی اور فکری و تہذیبی ہم آہنگی کے تمام دائرے این جی اوز کی زد میں ہیں اور قومی وجود کو اندر اندر سے یہ گھن چاٹتا جا رہا ہے۔

اس لیے ہم چودھری نثار احمد خان محترم کی اس تشویش میں ان کے ساتھ پوری طرح شریک ہیں ، اور اگر کسی تعاون کی پوزیشن میں ہیں تو ہر طرح سے حاضر ہیں۔ البتہ یہ گزارش بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ صرف وزارت داخلہ کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے قومی سطح پر کوئی مضبوط قدم اٹھانا ہوگا۔ یہ مسئلہ دہشت گردی سے کم سنگینی کا حامل نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی قومی ہم آہنگی اور عزم و ہمت کے اہتمام کی فوری ضرورت ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter