برطانیہ کی مردم شماری کے فارم میں مذہب کا خانہ

   
دسمبر۱۹۹۶ء

روزنامہ جنگ لندن ۱۴ نومبر ۱۹۹۶ء کی ایک خبر کے مطابق برطانوی حکومت نے ملک میں مردم شماری کے لیے، جو ۲۰۰۱ء میں ہو رہی ہے، مردم شماری کے فارم میں مذہب کے خانے کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے لازمی خانہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں درج سوال کا جواب دینا ہر شخص کے لیے ضروری ہو گا۔ خبر کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ملک میں آباد مختلف مذاہب کے لوگوں کی آبادی کا صحیح تناسب معلوم ہو سکے۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان میں دینی حلقوں کی طرف سے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو اسے ملک کے بعض اقلیتی حلقوں کے ساتھ ساتھ متعدد مغربی حکومتوں اور لابیوں نے بھی قابلِ اعتراض قرار دیا تھا کہ ان کے خیال میں کسی ملک کی آبادی میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا رکھنا یا مذہبی تشخص قائم کرنا انسانی حقوق کے منافی ہے۔ اور اس پر بہت شور و غوغا کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت کی پاکستانی حکومت نے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے کا اعلان اور وعدہ کرنے کے باوجود اپنا ارادہ تبدیل کر لیا تھا۔

اور اب خود برطانیہ میں مردم شماری میں مختلف مذاہب کے درمیان امتیاز اور انہیں الگ الگ آبادی تصور کرنے کا اصول اختیار کیا جا رہا ہے، جس سے

  1. ایک تو اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی لابیوں اور حکومتوں کا معیار انسانی حقوق کے حوالہ سے ایک نہیں ہے۔ وہ اس معاملہ میں اپنے لیے الگ معیار رکھتے ہیں اور مسلم ممالک سے مختلف معیار کا مطالبہ کرتے ہیں۔
  2. اور دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافہ کی مخالفت کرنے والی مغربی حکومتوں اور لابیوں کے پیش نظر دراصل انسانی حقوق نہیں تھے بلکہ وہ اس کے ذریعہ صرف پاکستان کی دینی قوتوں کو کمزور اور بے اثر بنانا چاہتی تھیں۔

خدا کرے کہ یہ بات پاکستان کے حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آجائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter