امریکی وزارتِ خارجہ نے اس سال عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیموں کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں فلسطین میں اسرائیلی حکومت سے نبرد آزما مجاہدین کی جماعت حماس کے ساتھ ساتھ افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں شریک حرکۃ الانصار کا نام بھی شامل ہے۔ اور امریکی حکومت نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اس فہرست میں شامل تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں، ان کے فنڈز ضبط کر لیں، اور انہیں مختلف ممالک میں آمد و رفت کی سہولتوں سے فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی اخبارات کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے حرکۃ الانصار کو خلافِ قانون قرار دینے کی تیاری کر لی ہے اور اس سلسلہ میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حرکۃ الانصار بنیادی طور پر پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور دینی کارکنوں کی عالمی تنظیم ہے جس کے تحت ہزاروں افراد نے روسی جارحیت کے خلاف جہادِ افغانستان میں مسلسل حصہ لیا اور ٹریننگ حاصل کی۔ اور اب اس تنظیم کے تحت بے شمار نوجوان مقبوضہ کشمیر کے اندر مجاہدینِ کشمیر کے شانہ بشانہ بھارتی فوج کی جارحیت کے خلاف مصروفِ کار ہیں۔ اس تنظیم میں دنیا کے بہت سے مسلم ممالک کے نوجوان شامل ہیں اور برما، فلپائن، تاجکستان، صومالیہ، اور دوسرے علاقوں کے مسلم مجاہدین کے ساتھ جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
ہمارے نزدیک امریکہ کی طرف سے حرکۃ الانصار کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا سب سے بڑا مقصد مقبوضہ کشمیر میں اس کے کردار کو ختم کرنا ہے، کیونکہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں عسکری طور پر سب سے زیادہ فعال اور مؤثر تنظیم وہاں کی حرکۃ الانصار ہے جس کی موجودگی میں امریکہ کے لیے کشمیر میں اپنے پروگرام کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ امریکہ ایک عرصہ سے کشمیر کو تقسیم کر کے اس بندر بانٹ میں اپنے لیے وادی کا خطہ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے تاکہ وہاں فوجی اڈہ قائم کر سکے، لیکن حرکۃ الانصار اور دیگر مجاہدین تنظیمیں اس امریکی پروگرام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور وہ اس طرح کی دھونس سے انہیں غیر مؤثر بنانا چاہتا ہے۔
امریکہ تو خیر وہی کرے گا جو اس کی پالیسی ہے مگر حکومتِ پاکستان سے ہم یہ ضرور گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ امریکہ پرستی میں اس حد تک آگے نہ بڑھے کہ ملک کے بنیادی مسائل اور قومی مفادات ہی کو داؤ پر لگا دے کیونکہ یہ ملک اور قوم کے ساتھ صریح غداری ہو گی۔