روزنامہ اسلام لاہور ۲۲ دسمبر ۲۰۲۱ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’انقرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) ترک صدر رجب اردوان نے شرح سود میں اضافے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں وہ کروں گا جو دین کہے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجھ سے شرح سود میں اضافے کی کوئی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں اسلامی تعلیمات کے تحت کام کرتا رہوں گا۔ واضح رہے کہ ترکی کی کرنسی لیرا میں گراوٹ ہو رہی ہے اور ان حالات میں ترک صدر سے شرح سود میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر انہوں نے اعلان کیا ہے کہ شرح سود میں اضافہ نہیں ہو گا۔ ترک صدر کی جانب سے نئے مالیاتی نظام کے اعلان کے بعد دم توڑتے لیرا نے اونچی پرواز پکڑ لی ہے۔ ترک صدر کی جانب سے بینکوں میں پڑے ترک لیرے کی قدر و قیمت کی گارنٹی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد صرف چند گھنٹوں میں لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلہ میں بیس فیصد سے زائد اضافہ ہو گیا۔ ترک صدر کی نئی مالیاتی پالیسی کے تحت اکاﺅنٹ ہولڈرز کو لیرا میں کرنسی رکھنے پر ڈالر ایکسچینج ریٹ پر تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ترکش لیرا کی ڈالر کے مقابلہ میں گراوٹ کو بینک کور کریں گے اور بینک ڈیپازٹ تاریخ کے مطابق فرق اکاﺅنٹ ہولڈرز کو دیا جائے گا۔‘‘
سود کے بارے میں اس بات پر اب ماہرین کا کم و بیش اتفاق دکھائی دے رہا ہے کہ سودی معیشت دنیا کے معاشی نظام اور ماحول میں عدمِ توازن اور افراط و تفریط کا باعث بنی ہے جس کی وجہ سے غریب اور امیر اقوام و ممالک اور طبقات میں تفاوت بڑھتا جا رہا ہے، جس کا حل سودی سسٹم کو ریورس گیئر لگا نے کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک سابق ڈائریکٹر کے انٹرویو کے حوالہ سے ہم پہلے کسی موقع پر لکھ چکے ہیں کہ معیشت میں ہوشربا تفاوت کو ختم کرنے اور توازن پیدا کرنے کے لیے ان کے خیال میں شرح سود کو کم سے کم کرنا ضروری ہے جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں ’’زیرو‘‘ بتائی تھی۔
اس کے ساتھ ہی سودی نظام غریب اقوام و ممالک کو عالمی استعماری قوتوں کے معاشی شکنجے میں جکڑنے کا ایک مکروہ جال بھی ہے جس کے ذریعے غریب ممالک کو استعماری پالیسیوں کے سامنے سرنڈر ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور اس کی تازہ ترین مثال افغانستان ہے جس سے فوجی انخلا سے قبل امریکہ نے اس بات کا اہتمام کر لیا تھا کہ خود اس کے دور کے ملازمین کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں واجب الادا تھیں جبکہ افغانستان کی مغربی بینکوں میں پڑی رقوم کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ اور امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے افغانستان کے لیے بیرونی تعاون و امداد کے قانونی ذرائع مسلسل بند رکھے جا رہے ہیں۔ جس کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ افغان قوم کی ہر طرف سے معاشی جکڑ بندی کر کے اسے امریکہ اور یورپی یونین کے عالمی اور علاقائی ایجنڈے کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں عقیدہ و ثقافت سے دستبرداری بھی شامل ہے۔ یہی حربہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کے خلاف ایک عرصہ سے آزمایا جا رہا ہے اور خود ترکی بھی کم و بیش پون صدی تک اس جال میں رہ چکا ہے۔
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی وفات سے چند ہفتے قبل یہ ہدایت کی تھی کہ پاکستان کا معاشی نظام مغربی فلسفہ اور اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر استوار کیا جائے۔ اور اس موقع پر انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کو تباہی اور جنگوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مگر قائد اعظمؒ کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے ارباب حل و عقد نے ملک کے معاشی نظام کو مغربی فلسفہ اور عالمی اداروں کے کنٹرول میں دے دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم بحیثیت قوم عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کے آگے ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور گورنر پنجاب کے بقول آئی ایم ایف نے قرضوں کے عوض ہم سے ہمارا سب کچھ لکھوا لیا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں اور مغرب کے معاشی نظام کے شکنجے سے نکلنے کی بات اس سے قبل ملائشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد بھی کر چکے ہیں اور جس کے لیے انہوں نے طریق کار اور ترتیب بھی پیش کی تھی مگر مسلم حکومتوں نے اس طرح توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اور اب اس تناظر میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے سودی نظام کی خرابیوں کی طرف اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے جو پورے عالمِ اسلام خصوصاً مسلم حکومتوں کی سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کے معاشی نظام کی تباہ کاریوں اور اسلام کے معاشی اصولوں کی افادیت کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم، ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردگان کی باتوں کی طرف توجہ دیے بغیر ہمارے لیے اب اور کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ جس کی مسلم دنیا کے حکمران طبقات سے تو کوئی توقع دکھائی نہیں دے رہی مگر کیا اربابِ فکر و دانش اور اصحابِ دین و شریعت بھی ملک و ملت اور دین و دانش کے اس ناگزیر تقاضے کو یکسر نظر انداز کر دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟ اور کیا یہ بد قسمتی کی انتہا نہیں ہے؟