چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں گزشتہ ماہ مسلم کش فسادات کے بعد اخباری اطلاعات کے مطابق فوج نے صوبے کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور صوبے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، جس کے بعد وہاں سے کوئی خبر باہر نہیں آر رہی۔ لیکن اس سے قبل اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس علاقہ میں ہزاروں مسلمان گرفتار کر لیے گئے ہیں اور سینکڑوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب تیرہ کروڑ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے، جس میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد چھ کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے، البتہ سنکیانگ کا صوبہ مسلم اکثریت کا صوبہ ہے جس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور مسلمانوں کا تناسب کم و بیش ۸۰ فیصد بتایا جاتا ہے۔ یہ مسلمان زیادہ تر ترکی النسل ہیں جو یغور کہلاتے ہیں۔ ان مسلمانوں میں کچھ عرصہ سے خودمختاری اور آزادی کی لہر ابھر رہی ہے، اور آزادی خواہ ہزاروں مسلمانوں نے پڑوسی ملک قازقستان میں ہجرت کر کے آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس خطہ کے مسلمان ہمیشہ سے چینی حکمرانوں کے جبر و تشدد کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں، اور خاص طور پر سخت گیر کمیونسٹ انقلاب کے بعد تو وسطی ایشیا کی دیگر مسلم ریاستوں کی طرح اس علاقہ کے مسلمان بھی مجبورِ محض بن کر رہ گئے تھے۔ مگر جہادِ افغانستان نے جہاں وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کی آزادی کی راہ ہموار کی ہے وہاں اس کے اثرات سنکیانگ کے مسلمانوں نے بھی قبول کیے ہیں اور ان میں فطری طور پر آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک چین کے مسلمانوں کا دنیا کے دیگر مسلم ممالک سے کوئی رابطہ نہیں تھا، لیکن جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے چینی مسلمانوں کو حجِ بیت اللہ کے لیے حرمین شریفین جانے کی اجازت دلوائی اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے اس کی سہولتیں فراہم کیں تو چینی مسلمانوں کا دنیا کی مسلم برادری کے ساتھ رابطہ قائم ہو گیا، اور یہ بات بھی چینی مسلمانوں میں مذہبی بیداری کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔
اس سلسلہ میں روزنامہ نوائے وقت نے ۱۳ فروری ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق چین کی حکومت کچھ عرصہ سے دوسرے خطوں سے چینی نسل کے لوگوں کو اس صوبہ میں آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جس کا مقصد مسلم اکثریت کے تناسب کو کم کرنا دکھائی دیتا ہے، اور اس کے ردعمل میں فسادات کا یہ نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چینی حکام نے ۷ فروری کو فسادات بھڑکانے کے الزام میں مسلمانوں کے تیس راہنماؤں کو پھانسی دے دی، جس کے بعد فسادات کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا، اور اس کے بعد مزید ایک سو افراد کو سرسری عدالتی سماعت کے بعد موت کی سزا دے دی گئی ہے، جبکہ گرفتار شدگان کی تعداد ہزاروں میں بیان کی جاتی ہے، اور اس کے بعد صوبے کو فوج کی تحویل میں دے کر مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔
روزنامہ نوائے وقت نے اسی روز ’’اے پی پی‘‘ کے حوالے سے ایک اور خبر بھی شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چینی حکام نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان سے تبلیغی جماعت چین کے صوبہ سنکیانگ میں قرآن پاک کے نسخے اور مذہبی لٹریچر بھجوا رہی ہے، اور افغانستان میں طالبان کی حکومت سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ کی ٹریننگ دے رہی ہے۔ جبکہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اور کابل میں طالبان کی حکومت کے لیڈر مولوی گل محمد دونوں نے اس الزام کی تردید کی ہے اور اسے محض قیاس آرائی قرار دیا ہے۔
چینی حکام کے الزامات اپنی جگہ، لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ چین کے مسلمانوں میں دینی بیداری اور آزادی کی یہ لہر ایک فطری جذبہ ہے جو دنیا کی باقی مسلم آبادی کے ساتھ اجتماعی عالمی دھارے میں شامل ہونے کے لیے اس خطہ کے مسلمانوں میں بتدریج بیدار ہو رہا ہے۔ اور آج جبکہ پوری دنیا سمٹ رہی ہے، چین کے مسلمانوں کو دنیا کی دوسری مسلم آبادی سے کاٹ کر رکھنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، اس لیے جبر و تشدد کا کوئی حربہ بھی ان مظلوم مسلمانوں کے جذبۂ حریت کو سرد نہیں کر سکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کی رائے عامہ اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور چین کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں کہ وہ ان مسلمانوں کے جذبات، ان کے انسانی حقوق اور ان کی دینی و مذہب خودمختاری کا احترام کرے، کیونکہ اس کے بغیر اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔