روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ مئی ۱۹۹۹ء کی ایک خبر کے مطابق ترکی کے صدر سلیمان ڈیمرل نے پارلیمنٹ کی نومنتخب خاتون رکن نروکو آجک کو ترکی کی شہرت سے محروم کر دینے کے فرمان پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ امکان ہے کہ انہیں ترکی سے نکال دیا جائے گا۔
نروکو آجک حالیہ انتخابات میں ترک پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں مگر وہ حلف برداری کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئیں تو انہوں نے سکارف سے سر ڈھانپ رکھا تھا جس پر وزیراعظم بلند ایجوت اور دیگر ارکان پارلیمنٹ نے احتجاج کیا اور انہیں پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر جانے پر مجبور کر دیا۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ سر ڈھانپنا اور سکارف باندھنا اسلامی روایات کو فروغ دینے کی کوشش ہے جو ترکی کی سیکولر روایات کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ یہ خاتون پارلیمنٹ کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھا سکیں اور اب انہیں ملک کی شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ نرو آجک کا کہنا ہے کہ سر ڈھانپنا اور سکارف باندھنا ان کا حق ہے، اور انہیں اس سے محروم کرنا ان کی شخصی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے، اس لیے وہ سکارف کے بغیر پارلیمنٹ ہاؤس میں نہیں آئیں گی اور اپنا یہ حق استعمال کرتی رہیں گی۔
اس واقعہ سے جہاں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں سیکولر اور اسلامی روایات کے درمیان کشمکش عروج پر پہنچ گئی ہے، وہاں سیکولرازم اور جمہوریت کے اس دعویٰ کی قلعی بھی کھل گئی ہے کہ اس نظام کا مطلب ہر شخص کو آزادی فراہم کرنا اور اپنی رائے اور مرضی کے مطابق چلنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس لیے کہ اگر شخصی آزادی کا مطلب یہی ہے کہ ہر شخص اپنے ذاتی معاملات میں جو طرزعمل چاہے اختیار کرے، اس میں کوئی مداخلت نہ کی جائے، تو کسی خاتون کو اپنا سر ڈھانپنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، جبکہ وہ اپنی مرضی اور آزادی کے ساتھ ایسا کر رہی ہے۔
گویا ترکی کے سیکولر حکمرانوں نے اپنے طرز عمل سے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ جمہوریت اور سیکولرازم جس آزادی کے علمبردار ہیں، اس سے مراد صرف وہ آزادی ہے جو دینی اقدار و روایات کے منافی اور متصادم ہو۔ اور اگر کوئی شخص اپنی مرضی اور آزادی سے کسی دینی روایت کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے۔