بیلٹ بکس پر عوامی اعتماد کا فقدان ۔ مجرم کون؟

   
تاریخ : 
۲۲ جولائی ۱۹۷۷ء

پاکستان میں بیلٹ بکس ابھی تک وہ اعتماد کیوں حاصل نہیں کر سکا جو ایک جمہوری ملک میں اسے ملنا چاہیے؟ یہ سوال نزاکت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اہم اور ناگزیر بھی ہے کہ پاکستان میں سیاست و جمہوریت کے مستقبل کا انحصار اس سوال پر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج سیاسی شعور رکھنے والے ہر شخص کو بیلٹ بکس کے تقدس اور اعتماد کا سوال پریشان کیے ہوئے ہے۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل تجرباتی دور سے گزر رہا ہے اور یہاں جمہوریت کی جڑیں ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئیں کہ کسی مضبوط تحفظ اور سہارے کے بغیر جمہوری عمل کی گاڑی خودبخود اپنی منزل کی طرف بڑھ سکے۔ لیکن اس تجرباتی دور میں جو روایات قائم ہوئی ہیں اور جمہوریت کے نام سے جمہوریت کشی کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ جمہوریت و سیاست کے بارے میں کوئی مثبت تاثر قائم کرنے میں مدد نہیں دیتے۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان میں عوامی اعتماد و قبولیت صرف ان انتخابات کو حاصل ہوئی جو ۱۹۷۰ء میں فوج کی نگرانی میں ہوئے۔ اور اب بھی حکومت اور قومی اتحاد کے مابین مذاکرات میں متعدد تحفظات طے ہونے کے باوجود عوام کو انتخابات کے غیر جانبدارانہ و منصفانہ انعقاد کے بارے میں تسلی اس وقت ہوئی جب پاک فوج نے ملک کا نظم و نسق سنبھال کر اپنی نگرانی میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔

پاک فوج کے لیے احترام و اعتماد کے تمام تر دلی جذبات کے باوجود کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی و جمہوری عمل کی نشوونما کے لیے مسلح افواج کی طرف عوام کی نگاہیں اٹھنا کوئی خوشگوار اور فطری روایت نہیں ہے۔ اس لیے آج کا سب سے اہم، نازک اور قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم اس ناخوشگوار روایت سے گلوخلاصی نہیں کرا سکتے؟ اور کیا جب بھی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہوگا، جی ایچ کیو عوام کی تمناؤں اور آرزوؤں کا محور ہو کر رہ جائے گا؟

اگر تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس صورتحال کے پس منظر اور تہ منظر پر غور کیا جائے تو بیلٹ بکس پر عوامی اعتماد کے فقدان کی پشت پر دو محرکات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اور اگر ہم ملک میں صاف ستھری سیاست اور بامقصد جمہوریت کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو تمام تر مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر ان دونوں محرکات کو استعدادِ جرم سے محروم کرنا ہوگا۔ ورنہ گستاخی معاف، سنگینوں کے سائے میں ووٹ ڈالنے کی روایت نے اگر قرار پکڑ لیا تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوگا اسے اور تو شاید سب کچھ کہہ لیا جائے لیکن جمہوریت یا سیاست کے مقدس عنوانات سے تعبیر نہیں کیا جا سکے گا۔

سول انتظامیہ کا نوآبادیاتی مزاج

ان دو محرکات میں سب سے پہلا اور بنیادی محرک سول انتظامیہ کا وہ نوآبادیاتی مزاج ہے جو آزادی کے تیس سال گزر جانے کے باوجود مائل بہ تغیر نہیں ہوا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ’’شاہ پرستی‘‘ اور ’’مردم بیزاری‘‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سول انتظامیہ کے ۹۵ فیصد کار پردازان ابھی تک اپنے آپ کو یہ باور نہیں کرا سکے کہ ان کی ملازمت اور وفاداری کا تعلق حکمران گروہ کے ساتھ نہیں بلکہ قوم اور قانون و آئین کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر ہمیں یہ دل خراش مناظر دیکھنا پڑتے ہیں کہ انتظامیہ کے بعض افسران حکمرانوں کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لیے عوامی رجحانات، قانون و آئین کے تقاضوں، حتیٰ کہ بسا اوقات انسانیت و شرافت کی حدود کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور اسے وفاداری، ملازمت اور حکم کی تعمیل کے عنوان سے تعبیر کر کے دل کے بہلانے کا سامان کر لیا جاتا ہے۔

ہم اس منطق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ انتظامیہ حاکم وقت کے سامنے بے بس ہوتی ہے، کیونکہ اگر انتظامیہ کے پچاس فیصد ذمہ دار آفیسرز بھی یہ طے کر لیں کہ وہ قانون و آئین کے خلاف حاکم وقت کی کوئی ہدایت قبول نہیں کریں گے اور حکمران گروہ اور عوام کے مفادات میں ٹکراؤ کی صورت میں عوامی مفاد کو ترجیح دیں گے تو خود حاکم وقت، خواہ وہ کس قدر قوت و حشمت کا مالک ہو، انتظامی افسران کی اصول پرستی کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تسلیم کہ ایسا کرنا انتظامیہ کے بہت سے افسران کے لیے آسان نہیں ہے، اس کے لیے انہیں بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا، مفاد و مصلحت کی بجائے فرض و ایثار کی راہ پر چلنا ہوگا اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ترک کر کے سادگی اور قناعت اختیار کرنا پڑے گی۔ لیکن قوم اور وطن کی محبت بھی تو آخر کوئی شے ہے؟ کیا قوم کے خزانہ سے تنخواہ اور مراعات حاصل کرنے والے افسران وطن اور قوم کی خاطر اتنی قربانی بھی نہیں کر سکتے؟

مفاد پرستی کی سیاست

بیلٹ بکس پر عوامی اعتماد کے فقدان کا دوسرا محرک ثانوی حیثیت رکھنے کے باوجود صلاحیتِ کار کے لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ سنگین اور خطرناک ہے۔ اور وہ ہے ابن الوقت اور مفاد پرست سیاستدانوں کا وہ ’’مشخص و معین‘‘ طبقہ جس کی سیاست کا مقصد وطن اور قوم کی خدمت نہیں بلکہ گروہی و ذاتی مفادات کا تحفظ اور حصول ہے، اور جن کی تمام تر سیاسی سرگرمیاں اسی ایک محور کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ اپنے اس مقصد کے لیے نہ صرف ہمیشہ برسرِ اقتدار پارٹی سے چمٹے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنے علاقہ کے انتظامی افسران کو دباؤ، رشوت اور دیگر ذرائع سے ظلم و ستم پر آمادہ رکھنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ان سیاست دانوں کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ سیاسی شعور ان کو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ انتظامیہ کی مدد اور غنڈہ گردی کی ذاتی و گروہی صلاحیتوں کے سہارے قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچنے والے ان افراد میں سے بیشتر کو یہ شعور تک نہیں ہوتا کہ قانون سازی کس بلا کا نام ہے، قانون کیوں بنتا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سی سیاسی پارٹیاں انتخابات میں ایسے افراد کا چناؤ کرتی ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ سیاست و قانون کے ماہر ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ وہ پیسے زیادہ خرچ کر سکتے ہیں، ان کے پاس مؤثر غنڈوں کی فوج ظفر موج موجود ہے اور وہ علاقہ کے افسروں پر لالچ اور دباؤ کا ہتھیار استعمال کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم اس عمل کو ’’قومی جرم‘‘ قرار دے کر یقیناً کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ اور اکا دکا نظریاتی جماعتوں کو مستثنیٰ کر کے کوئی بھی سیاسی جماعت اس مجرمانہ رجحان سے گریزاں دیکھائی نہیں دیتی۔

ہمارے خیال میں ان دو محرکات کو یکجا کر کے اسے جمہوریت و سیاست کے خلاف ’’انتظامیہ اور مفاد پرستانہ سیاست کا گٹھ جوڑ‘‘ قرار دینا زیادہ مبنی برانصاف بات ہوگی۔ اور جب تک اس گٹھ جوڑ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس ملک میں نہ سیاست پنپ سکتی ہے اور نہ جمہوریت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ اگر مسئلہ صرف سالِ رواں کے ماہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کا ہوتا تو ہم بھی ان چند تجاویز پر اکتفاء کر لیتے کہ:

  1. چیف الیکشن کمشنر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں۔
  2. الیکشن کمیشن کو مستقل عملہ دیا جائے۔
  3. ہر پولنگ اسٹیشن پر خصوصاً دیہاتی حلقوں میں غنڈہ گردی کے سدباب کے لیے فوجی جوانوں کی معقول تعداد متعین کی جائے۔
  4. الیکشن کمیشن کے علاوہ کسی کو نتائج کے اعلان کا اختیار نہ دیا جائے۔
  5. چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل مشاورتی کمیٹی قائم کی جائے۔
  6. انتخابی مہم میں ابلاغ عامہ کے سرکاری ذرائع ابلاغ سے جماعتوں کو یکساں طور پر نمائندگی دی جائے۔

اور ان جیسی دیگر تجاویز جو مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کا نہیں بلکہ سیاست و جمہوریت کے مستقبل اور سنگینوں کے سائے سے ووٹ اور بیلٹ بکس کو نکالنے کا ہے۔ اس لیے ہم ان محرکات کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے ملک و قوم کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے۔ اور اگر حکومت، انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں نے مصلحتوں اور وابستگیوں سے بے نیاز ہو کر خالصتاً قومی و ملکی محبت و مفاد کے جذبہ کے ساتھ ان محرکات کی راہ روکنے کی کوشش نہ کی تو اکتوبر کے انتخابات بھی بے یقینی اور بے اعتمادی کے اس بحران کی سنگینی میں کمی نہ کر سکیں گے جس نے نہ صرف آدھے ملک کو چاٹ لیا ہے بلکہ قوم کے مختلف طبقات کے درمیان بے اعتمادی اور منافرت کی ایسی فضا قائم کر دی ہے جو ہزاروں شہریوں سے لہو کی بھینٹ وصول کر لینے کے باوجود ابھی تک خونی جبڑے کھولے ہوئے ہے۔

اللہ تعالیٰ ملک، قوم، سیاست اور جمہوریت کو شاہ پرستی، مردم بیزاری اور ابن الوقتی کے نرغے سے نجات عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter