وفاقی کابینہ نے بالآخر دینی مدارس کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جون ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق
’’صدر جنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات نثار اے میمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کابینہ کے فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ جس کی رو سے تمام دینی مدارس کی رجسٹریشن ہو گی، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ قائم ہو گا، مدارس میں انگریزی، اردو، سائنس اور ریاضی کی تعلیم دی جائے گی، صوبوں میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ قائم ہوں گے، صرف رجسٹرڈ مدارس کو ہی حکومت سے امداد ملے گی، ۶ ماہ کے اندر رجسٹریشن نہ کرانے والے مدارس بند کر دیے جائیں گے، ہر مدرسہ کو اپنے حسابات کو باضابطہ بنانا ہو گا، کوئی مدرسہ غیر ملکی گرانٹ حاصل نہیں کرے گا، وزارتِ داخلہ سے این او سی کے بغیر غیر ملکی طلبہ کو دینی مدارس میں داخلہ نہیں دیا جائے گا، جو مدرسے رجسٹریشن کروائیں گے صرف انہیں سرکاری گرانٹ اور زکوٰۃ سے امداد ملے گی، اور جو رجسٹریشن نہیں کروائیں گے ان کا مدرسہ بند کر دیا جائے گا اور انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔‘‘
جبکہ روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ جون ۲۰۰۲ء کی خبر کے مطابق
’’وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی مدارس کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دے دی گئی ہے، البتہ حکومت دینی مدارس کے اندرونی نظام اور نصاب میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ ان کی اصلاح کے لیے تین سالوں میں ۱۳ ارب ۶۸ کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے پانچ وفاق اس وقت کام کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے دو ذہنی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ سرکاری افسروں کو دینی مدارس میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ اور دوسرا یہ کہ دینی تعلیم کو مکمل آزادی دی جائے۔ ڈاکٹر غازی نے کہا کہ ہم نے دونوں چیزوں کی ضمانت دی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ رجسٹریشن کا قانون ابھی نافذ نہیں ہوا، کابینہ نے اس کی اصولی منظوری دے دی ہے، اس میں بعض ترامیم کے بعد آرڈیننس جاری کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نئے مدارس کو ضلعی حکام سے کلیئرنس لینا پڑے گی۔ نئے قانون کے تحت دینی مدارس میں فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور اگر کوئی مدرسہ ان سرگرمیوں میں ملوث ہوا تو ناظم کو دو سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض دینی مدارس کو غیر ملکی امداد ملتی ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے اب حکومت سے کلیئرنس درکار ہو گی، پاکستان مدرسہ بورڈ اسے کلیئر کرے گا۔‘‘
دوسری طرف روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ جون ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق
’’متعدد دینی راہنماؤں نے جن میں مفتی عبد القیوم ہزاروی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مولانا عبد اللہ، مولانا امجد خان، حافظ عبد الغفار روپڑی، حافظ ادریس، اور صاحبزادہ حاجی فضل کریم شامل ہیں، اپنے بیانات میں حکومتی فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسے دینی مدارس کے داخلی نظام میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت امداد کا لالچ دے کر دینی مدارس کو امریکی شکنجے میں جکڑنا چاہتی ہے۔ ان راہنماؤں نے کہا کہ حکومت دینی مدارس کی بجائے غیر ملکی امداد پر چلنے والی این جی اوز پر توجہ دے۔‘‘
وفاقی حکومت اس فیصلے کی رو سے دینی مدارس کے بارے میں کیا عملی اقدامات کرنا چاہتی ہے، اس کی مکمل تفصیل تو آرڈیننس سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی، مگر وفاقی وزیر مذہبی امور اور وزیر اطلاعات نے اپنی پریس کانفرنس میں جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اس سے بھی حکومتی عزائم کافی حد تک واضح ہو کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں کو فوری طور پر ان اقدامات کے بارے میں اپنے اپنے طور پر اور پھر مشترکہ طور پر بھی اپنے ردعمل اور پروگرام کا اعلان کرنا چاہیے۔
ہماری رائے میں دینی مدارس کی مالیاتی و انتظامی خودمختاری اور نصاب و نظام میں سرکاری عدمِ مداخلت کی دوٹوک ضمانت کے ساتھ، اگر صرف حسبِ سابق رجسٹریشن اور حسابات کی جانچ پڑتال میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے کوئی نظامِ کار تشکیل پاتا ہے تو اس سے تعاون میں کوئی حرج نہیں، لیکن
- مالیاتی و انتظامی امور میں سرکاری مداخلت،
- تعلیمی نصاب و نظام میں حکومتی ڈکٹیشن،
- اور سرکاری امداد سے دینی مدارس چلانے کی پیشکش
کو دوٹوک اور واضح انداز میں مسترد کر دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دینی مدارس اپنی تمام تر کمزوریوں، خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس وقت مسلم معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ اور اسلامی اقدام کے تحفظ کے لیے جو فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں، مذکورہ بالا تین امور میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنا دینی مدارس کے اس معاشرتی کردار سے دستبرداری کے مترادف ہو گا۔ اس لیے اس سلسلہ میں دینی مدارس اور وفاقوں کی قیادت کو پوری جرأت اور حوصلہ و تدبر کے ساتھ اپنے موقف اور لائحہ عمل کا جلد از جلد اور واضح اعلان کرنا چاہیے۔