روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب حسن نثار نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۲ء کے کالم میں اردن کے شاہ عبد اللہ کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ
’’میں اس تعصب کو مسترد کرتا ہوں کہ اسرائیلی بچے کا خون کسی فلسطینی بچے کے خون سے زیادہ قیمتی اور مہنگا ہوتا ہے۔‘‘
شاہ اردن کو یہ بات اس لیے کہنے کی ضرورت پیش آئی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جو خونی کشمکش جاری ہے، اس میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی ترجیحات دن بدن مزید واضح ہوتی جا رہی ہیں کہ
- نہتے فلسطینیوں پر بمبار طیاروں اور ٹینکوں کے ذریعے فوج کشی کرنے والے اسرائیل کے اس وحشیانہ طرزعمل کو ’’دفاع کا حق‘‘ کہہ کر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
- جبکہ اس کے خلاف ردعمل کے طور پر مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر فلسطینی اتھارٹی پر اس ’’دہشت گردی‘‘ کے مکمل خاتمہ کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
امریکہ کی جارحانہ، جانبدارانہ اور عرب دشمن پالیسی اور ترجیحات کے خلاف اردن کے شاہ عبد اللہ کا یہ احتجاج بجا ہے جس کی ہم مکمل تائید کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ
- آج سے پون صدی قبل ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کو عربوں پر غیر عربوں کی حکمرانی کا طعنہ دے کر جس بے رحمی کے ساتھ ختم کیا گیا تھا
- اور ابھی حال میں ہی افغانستان پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری اور فوج کشی کے موقع پر شاہ عبد اللہ سمیت متعدد عرب حکمرانوں نے کسی عرب ملک پر حملہ نہ کرنے کی شرط پر امریکہ کا ساتھ دینے کی جو روش اختیار کی تھی
وہ بھی اسی قسم کے تعصب پر مبنی تھے۔ اس لیے اگر وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی تعصب سے نجات حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کے لیے کوشش اور محنت کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود عصبیت پر بھی نظرثانی کریں، کیونکہ یہ عصبیت ختم ہو گی تو عالمِ اسلام متحد ہو گا، اور عالمِ اسلام کے حقیقی اتحاد کی صورت میں ہی صہیونی اور صلیبی عصبیتوں کا صحیح طور پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔