صوبائی وزیر قانون کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت ختم کرنے کا مطالبہ

   
ستمبر ۲۰۰۲ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ اگست ۲۰۰۲ء کی خبر کے مطابق پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا اعجاز احمد خان نے لاہور میں اقلیتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شریعت کورٹ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تعصب پر مبنی کوئی بھی عدالت نہیں ہونی چاہیے، انصاف کے لیے ہمارے پاس ہائی کورٹ موجود ہے جو آئین کے مطابق ہے، شرعی عدالت ختم کرنے کے لیے وفاقی وزارتِ قانون کو ہم نے لکھ دیا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا قیام ملک کے دستور کے تحت اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ ملک میں رائج ایسے قوانین اور فیصلوں کا جائزہ لیا جائے جو ملک کی نظریاتی اساس قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے اب تک اس سلسلہ میں بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں، جن میں سودی مالیاتی قوانین کو غیر اسلامی قرار دے کر ختم کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے، جسے سپریم کورٹ نے نامکمل قرار دیتے ہوئے دوبارہ نظرثانی کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو بھجوا دیا ہے۔ مگر وفاقی شرعی عدالت کے وجود اور اس کی کارکردگی کے خلاف بین الاقوامی سیکولر اداروں اور این جی اوز کی طرف سے ایک عرصہ سے یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ چونکہ یہ عدالت قرآن و سنت کی بنیاد پر قوانین اور مقدمات کا جائزہ لیتی ہے اس لیے اس کی بنیاد تعصب پر ہے اور اسے ختم ہو جانا چاہیے۔

رانا اعجاز احمد خان نے اسی موقف کو دہرایا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ وہ تحریری طور پر وفاقی حکومت سے شرعی عدالت کو ختم کرنے کی سفارش کر چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک رانا اعجاز احمد خان کا یہ موقف اور ان کی تحریری سفارش ملک کے بنیادی نظریہ اور دستورِ پاکستان دونوں سے متصادم ہیں۔ کیونکہ پاکستان کا قیام اسی ’’تعصب‘‘ کی وجہ سے عمل میں لایا گیا تھا جسے بنیاد بنا کر وہ شرعی عدالت کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ دستورِ پاکستان میں اس ’’تعصب‘‘ کو ملک کی پالیسیوں کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ اور صدر پرویز مشرف دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کا بار بار اعلان کر چکے ہیں۔

اس لیے اگر رانا اعجاز احمد خان کو اس ’’تعصب‘‘ پر اعتراض ہے تو انہیں دستور کی اسلامی دفعات کے ہوتے ہوئے صوبائی وزارتِ قانون سے چمٹے رہنے کی بجائے اس منصب سے الگ ہونا چاہیے، بلکہ ان میں اخلاقی جرأت ہے تو انہیں اس ملک سے بھی چلے جانا چاہیے جس کا قیام ’’اسلامی تعصب‘‘ کے تحت عمل میں لایا گیا تھا، اور جس کے وجود میں آنے کے لیے واحد جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ اس میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو گی اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter