قومی و مذہبی خود مختاری کی بحالی

   
تاریخ : 
۱۸ نومبر ۲۰۱۴ء

ابن امیر شریعتؒ مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری باہمت بزرگ ہیں جو بڑھاپے، ضعف اور علالت کے باوجود اہل حق کو جمع کرنے کے مشن پر گامزن اور اس کے لیے پر عزم ہیں۔ وہ علماء دیوبند کی مختلف جماعتوں اور حلقوں کو ایک فورم پر متحد کرنے کیلئے محنت کر رہے ہیں۔ ان کے ارشاد پر ۹ نومبر کو لاہور میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا حافظ حسین احمد، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں اور دیگر حضرات کے ہمراہ ایک مشاورت میں مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اب ۱۸ نومبر کو اسلام آباد میں ان کی دعوت پر مختلف دیوبندی جماعتوں، حلقوں اور مراکز کے سرکردہ حضرات جمع ہو رہے ہیں۔ ملک بھر کے اہل حق کی نظریں اسلام آباد کے اس اجتماع کی طرف لگی ہوئی ہیں اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کو کسی اچھی خبر اور مثبت پیش رفت کا شدت سے انتظار ہے، اللہ کرے کہ یہ اجتماع اہل دین اور اہل حق کی ان توقعات پر پورا اترے اور اہل حق کا قافلہ نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

دیوبندی اور دیوبندیت اس وقت پوری دنیا کے علمی، فکری اور سیاسی حلقوں میں بحث و تمحیص کا اہم موضوع ہے اور جہاں عالمی استعمار اس قافلہ کو اپنے استعماری عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس سے نمٹنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے وہاں عالم اسلام کی دینی و فکری تحریکات بھی اسے اپنا فطری پشتیبان تصور کرتے ہوئے اس کی پیش قدمی کی منتظر ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دینی جدوجہد کی گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں علماء دیوبند کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ ان کی تگ و تاز نے ضرورت کے ہر میدان تک رسائی حاصل کی ہے۔ اور ملی اور دینی ضروریات کا کوئی دائرہ ان کی راہ نمائی اور محنت سے محروم نہیں رہا۔ عقائد کی اصلاح، معاشرتی رسوم و بدعات کی بیخ کنی، قرآن و سنت کی اجماعی تعبیر کی حفاظت، تجدد کی مختلف صورتوں کی روک تھام، منکرین ختم نبوت کے تعاقب، اہل سنت کے عقائد و مفادات کی پاسداری، صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کے ناموس کے تحفظ، قرآن و سنت کی تعلیمات کے ہر سطح پر فروغ، اور فقہ حنفی کے نفوذ و دفاع سے لے کر عوامی سطح پر دین کی دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد تک ہر شعبہ میں علماء دیوبند کی خدمات تاریخ کے مستقل ابواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور مغربی حلقے بجا طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم ممالک پر استعماری طاقتوں کے مسلسل تسلط کے طویل نو آبادیاتی دور میں علمی، فکری، تہذیبی اور سیاسی طور پر استعماری عزائم کی راہ میں یہ گروہ مضبوط بند ثابت ہوا ہے۔

مگر ماضی کی اس قابل فخر تاریخ کے ساتھ ساتھ آج کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کی ترجیحات کا جائزہ لینا اور اس کے لیے نئی صف بندی کا اہتمام بھی ناگزیر ہے، اور ۱۸ نومبر کے اسلام آباد کے اجلاس سے یہی توقع کی جا رہی ہے۔

ہمارے لیے موجودہ حالات میں دو باتیں سب سے بڑے چیلنج کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ عالمی اور قومی سیکولر حلقے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کو لا دینی ریاست کی شکل دینے کے لیے جس منظم اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ دھیرے دھیرے آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ ان کی اس پلاننگ اور عملی سرگرمیوں کا اس سطح پر کوئی توڑ دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی علماء دیوبند کے سوا کسی اور حلقے سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔

سیکولر حلقوں کی یہ محنت دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو کمزور کرنے کے حوالہ سے بھی ہے۔ اور جو قوانین شرعی حوالہ سے موجود ہیں ان پر عملدرآمد میں ہر سطح پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے حوالہ سے بھی ہے۔ اس منصوبہ بندی کا مقابلہ اور پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت بلکہ نفاذِ اسلام کی عملی پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جبکہ دوسرا اہم ترین مسئلہ قومی خود مختاری کی بحالی کا ہے کہ ہمارے قومی معاملات میں مغربی اور علاقائی حکومتوں کی مداخلت بڑھتے بڑھتے اب تسلط کے درجہ تک جا پہنچی ہیں۔ اور تسلط کے اس جال سے نکلے بغیر ہم اپنے لیے کوئی راہ خود طے کرنے کی سرے سے سکت ہی نہیں رکھتے۔

اس کے ساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد کی امکانی صورت حال اور اس کے خدشات و خطرات، نیز مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ کشمکش کی تیزی سے بدلتی ہوئی اور آگے بڑھتی ہوئی ممکنہ صورت سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ان سب دائروں میں امت مسئلہ بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کی صحیح فکری، علمی اور عملی راہ نمائی کی توقع ان لوگوں سے ہی کی جا سکتی ہے جو ۱۸ نومبر کو اسلام آباد میں جمع ہو رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کی اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ہم ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ۱۸ نومبر کا یہ اجتماع اہل حق کو نیا حوصلہ و اعتماد اور جدوجہد کی نئی سمت فراہم کرنے میں کامیاب رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter