مدرسہ تعلیمی بورڈ اور ماڈل دینی مدارس کا سرکاری منصوبہ

   
ستمبر ۲۰۰۱ء

حکومتِ پاکستان نے بالآخر ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۹ اگست ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق صدر پاکستان (جنرل پرویز مشرف) کی طرف سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری سطح پر مدرسہ تعلیمی بورڈ قائم کیا جائے گا جو درسِ نظامی کو جدید علوم سے ملا کر ایک نیا نصاب مرتب کرے گا، اور ملک کے مختلف مقامات پر بورڈ کی طرف سے ماڈل دارالعلوم قائم کیے جائیں گے جو اس نصاب کے مطابق تعلیم دیں گے۔ جبکہ اس بورڈ کے ساتھ الحاق کرنے والے دیگر دینی مدارس کو بھی وہی نصاب پڑھانا ہو گا۔

جہاں تک حکومت کی طرف سے دینی تعلیم کے لیے سرکاری انتظام کا تعلق ہے، اصولی طور پر یہ بات خوش آئند ہے، اور قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی حکومتِ پاکستان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے تھی۔ لیکن دینی مدارس کے قیام اور دینی تعلیم کے اہتمام کی طرف سرکاری پیشرفت کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے بھی پہلے حکومت کی اصل یہ ذمہ داری تھی کہ ملک بھر کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مروجہ تعلیمی نصاب و نظام پر نظرثانی کر کے اسے اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا، اور تعلیمی اصلاحات کا آغاز حکومت اپنے گھر سے کرتی۔ لیکن اس طرف توجہ دینے کی بجائے کچھ عرصہ سے حکومتی حلقوں کی ساری توجہ دینی مدارس کے نظام و نصاب کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوششوں پر مرکوز ہے۔

جبکہ سرکاری اور قومی نصابِ تعلیم کا حال یہ ہے کہ تعلیمی نصاب مرتب اور شائع کرنے والے بورڈوں کی ذمہ داری ختم کر کے نصابی کتب کی تیاری و طباعت کا کام بین الاقوامی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ تعلیمی نصاب و نظام کو قومی سوچ کے دائرہ سے آزاد کر کے عالمی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور اس طرح ایک خوفناک فکری و ثقافتی انارکی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

جس کی ایک چھوٹی سی مثال آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے پاکستان کے سکولوں میں بچوں کو پڑھانے کے لیے اردو کا ایک کتابچہ ہے، جو ہمیں ضلع سیالکوٹ کے گاؤں اوٹھیاں کے ایک استاذ نے فراہم کیا ہے۔ اس میں ٹوپی اور دوپٹے کو تصاویر میں کتے، بیل، بھینس، گھوڑے، اونٹ اور بکرے کے سروں پر دکھا کر ٹوپی اور دوپٹے کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اور کتابچے کی پہلی تصویر میں ایک پنجابی لڑکے کو اپنے مکان کی چھت پر کھڑا دکھا کر مکان کی دیوار پر صلیب کے دو واضح نشان دیے گئے ہیں۔ جبکہ کتابچہ کی اشاعت کی نگرانی کرنے والے پنجاب مڈل سکولنگ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر نے کتابچہ کے تعارف میں ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’امید ہے کہ یہ کتب بچوں کی شخصیت اور کردار پر بہتر اثرات مرتب کریں گی۔‘‘

اس صورتحال میں ملک کا عام شہری حیران و سرگرداں ہے کہ ایک طرف تو ملک کے سرکاری اور قومی نظامِ تعلیم کو اسلامی بلکہ قومی سوچ کے دائرہ سے بھی آزاد کر کے بین الاقوامی اداروں کی تحویل میں دیا جا رہا ہے۔ اور دوسری طرف حکومت کو دینی مدارس کے نظام و نصاب کی اصلاح اور سرپرستی کا غم کھائے جا رہا ہے۔ اس دو عملی اور دوغلے پن کی وجہ سے دینی مدارس کے سلسلہ میں حکومتی اقدامات اور عزائم کو ملک کے دینی حلقوں کا اعتماد حاصل نہیں ہو رہا۔ اور بجا طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات کا اصل مقصد تعلیمی نظام و نصاب کی اصلاح نہیں بلکہ اس کی آڑ میں دینی مدارس کے نظام و نصاب میں مداخلت کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ تاکہ دینی مدارس کے شاندار تعلیمی، ثقافتی، نظریاتی اور معاشرتی کردار کے عالمگیر اثرات سے خائف بین الاقوامی حلقوں کو مطمئن کیا جا سکے۔

ہم حکمرانوں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ جمع خاطر رکھیں، دینی مدارس کے نظام کی بنیاد جن باصفا اور نیک لوگوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھی ان کی دعائیں ابھی تک اس نظام کی پشت پر کارفرما ہیں۔ اس لیے اس نظام میں دراندازی کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی، اور عالمی حلقوں کی تمام تر کوششوں اور بے چینیوں کے باوجود دینی مدارس کا یہ نظام اپنی علمی، تہذیبی اور نظریاتی جدوجہد کے منطقی نتائج تک پہنچ کر رہے گا۔

البتہ حکومت اگر ماڈل دارالعلوم اور سرکاری دینی مدارس کے عنوان سے کچھ حلقوں کو خوش کرنا چاہتی ہے تو بڑی خوشی سے کرے، یہ حلقے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی حکومت کو انہیں تلاش کرنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن ان کے ذریعے نہ پہلے اہلِ حق کا راستہ کبھی روکا جا سکا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی کو اس خوش فہمی میں رہنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter