روزنامہ اسلام کے فارن ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں رائج سزائے موت کا قانون ختم کرے اور اپنے تعلیمی نظام، ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات میں ترکی زبان کا استعمال ترک کر دے اور اس کی بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کی زبان کے طور پر اختیار کرے۔ یورپی یونین کے اس مطالبہ پر ترکی میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے اور ترکی کے نائب وزیراعظم اور نیشنل موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باصلی نے یورپی یونین کے اس مطالبے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی میں دہشت گردی اور جنگ کے سوا سزائے موت پر پہلے سے پابندی عائد ہے اس کے باوجود ترکی سے اس مطالبے کا کیا جواز ہے؟ اور ذریعہ تعلیم کو تبدیل کر کے انگلش رائج کرنے اور اپنی قومی زبان ترکی کو چھوڑ کر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات انگریزی میں کرنے کا مطالبہ کہاں کا انصاف ہے؟
ترکی ایک عرصہ سے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور اس مقصد کے لیے یورپی یونین کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم ختم کرتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن جوں جوں ترکی کی بے چینی بڑھ رہی ہے یورپی یونین کے مطالبات کی فہرست بھی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ ترکی صدیوں تک خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مختلف ممالک اس کے زیرنگیں رہے ہیں جہاں خلافت کا پرچم لہراتا تھا اور خلافت عثمانیہ کے تحت یہ ممالک ایک نظم اور قانون کے ساتھ ملت اسلامیہ کی اجتماعیت کا حصہ تھے۔ انہیں یورپ نے ہی دنیا پر اپنے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مسلسل سازشوں کے ذریعے بکھیرا۔ ترکوں کو ترک نیشنلزم کا سبق پڑھایا اور عربوں میں عرب قومیت کی عصبیت ابھار کر دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا۔
ترکوں کو مسلسل یہ سبق دیا گیا کہ وہ ترک ہیں، ان کا تعلق یورپ سے ہے اور انہیں اپنی اصل برادری کی طرف واپس پلٹنا چاہیے۔ جب ترکوں نے یہ سبق پڑھ لیا اور ترک نیشنلزم کا پرچم بلند کر کے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کی مہم میں یورپی اقوام کے ہمنوا ہوگئے تو ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور خاندان خلافت کو جلاوطن کرانے کے فیصلہ کے بعد ترکوں سے مطالبات ہونے لگے کہ وہ اب ’’یورپین‘‘ بن کر دکھائیں اور یورپی تہذیب و ثقافت کو قبول کر کے خود کو یورپین ثابت کریں تاکہ انہیں یورپی برداری میں شامل کیا جا سکے۔ تب سے ترکی ان مطالبات کو پورا کرتا آرہا ہے مگر پون صدی گزر جانے کے باوجود اور اپنے بیشتر مطالبات منظور ہوجانے کے بعد بھی یورپی یونین کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب ترک قوم سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے دستبردار ہو جائیں، یعنی جس قومیت کے نام پر ترکی کا رشتہ عالم اسلام سے منقطع کیا گیا تھا اس قومیت کو بھی یورپی یونین کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیں۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے موقع پر ترک قوم نے مصطفٰی کمال اتاترک کی زیرقیادت خود کو یورپین ثابت کرنے اور یورپی برادری میں شمولیت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان پر ایک نظر ڈال لیجئے:
- ملک میں صدیوں سے رائج شرعی قوانین کو منسوخ کر کے ان کی جگہ اٹلی کے قوانین نافذ کر دیے۔
- ریاستی نظام اور قومی سیاست میں اسلام کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا۔
- دینی مدارس ختم کر کے ملک کے نصاب تعلیم کو مغربی اصولوں کے مطابق ازسرنو ترتیب دیا۔
- عورتوں کے لیے پردہ کرنا قانوناً ممنوع قرار دے دیا۔
- سب لوگوں کو قانوناً یورپی لباس پہننے کا پابند بنا دیا۔
- خانقاہیں اور صوفیا کے تکیے ختم کر دیے۔
- ہجری تقویم ختم کر کے مسیحی تقویم کو رائج کیا۔
- جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی کو رواج دیا۔
- عربی میں قرآن کریم کی تلاوت، اذان اور دعا کو ممنوع قرار دے دیا اور قانون نافذ کیا کہ تلاوت، اذان، نماز اور دعا صرف ترکی زبان میں ادا کی جا سکے گی۔
- ترکی تاریخ کو ازسرنو مرتب کیا گیا جس کا بنیادی مقصد یہ قرار پایا کہ خلافت عثمانیہ کی اہمیت کو کم سے کم کر کے پیش کیا جائے۔
- ترکی زبان کے لیے عربی رسم الخط کی بجائے رومن رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
- بزرگوں کے مزارات پر حاضری اور دعا کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
- ریاستی نظام سے دین کا تعلق مکمل طور پر منقطع کر کے سیکولر ازم کو ریاستی پالیسیوں کا سرچشمہ بنا دیا۔
لیکن ان اقدامات کے باوجود یورپی برادری مطمئن نہیں ہے اور اس کی طرف سے نت نئے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل ترک پارلیمنٹ میں یورپی یونین کے مطالبہ پر یہ قانون پاس کیا گیا کہ ترکی کے قوانین میں مرد کو گھر کے سربراہ کی جو حیثیت حاصل تھی وہ ختم کر دی گئی ہے اور اب گھر کے نظام میں خاوند اور بیوی کی قانونی حیثیت یکساں ہوگی۔ ایک عرصہ تک ترکی میں شرعی نظام نافذ تھے جس کے تحت قاتل کے لیے، قصاص کے طور پر، شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے رجم کے طور پر اور مرتد کے لیے ارتداد کی حد کے طور پر موت کی سزا کا قانون نافذ تھا جسے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ ترکی کے موجودہ نائب وزیراعظم دولت باصلی کے بقول دہشت گردی اور جنگ کے سوا باقی تمام صورتوں میں موت کی سزا ترکی میں ختم کی جا چکی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یورپی یونین کا اطمینان نہیں ہوا اور اب اس کی طرف سے یہ نیا مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ترکی زبان کو بھی یورپی یونین کے مرگھٹ پر قربان کیا جائے تب شاید یہ ’’دیوی‘‘ ترکوں پر مہربان ہو جائے۔
اس پر ترک رہنماؤں کو تکلیف ہوئی اور وہ اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اب بے چینی کے اظہار کا کیا فائدہ؟ اب تو جن کے ہاتھوں میں نکیل پکڑا دی ہے ان کے اشاروں پر ناچنا ہی ہوگا۔ ترک رہنماؤں کے اضطراب اور بے چینی پر ہمیں ترس آرہا ہے کہ آخر وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، لیکن ان سے کہیں زیادہ ترس اور رحم کے قابل وہ لوگ ہیں جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اپنی ناکوں میں امریکہ اور یورپ کی نکیلیں ڈلوانے کے لیے قطار باندھے کھڑے ہیں اور اب ان کی ساری تگ و دو صرف اس بات کے لیے ہے کہ کسی طرح امریکہ بہادر ان کی ناک میں دوسروں سے پہلے نکیل ڈال دے۔