بالاکوٹ میں پیامِ شہداء کانفرنس

   
مرکزی جامع مسجد سید احمد شہید، بالاکوٹ
۱۰ مئی ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پچھلے سال جب حاضر ہوا توہمارے محترم بزرگ ، بھائی اور قائد حضرت مولانا قاضی خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ موجود تھے، ان کے وصال کے بعد میں حاضر نہیں ہو سکا تھا، مفتی اخلاق احمد صاحب اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ اس پروگرام کے حوالے سے مجھے حاضری کا موقع فراہم کیا۔ سب سے پہلے آپ سب دوستوں سے تعزیت کرتا ہوں، بلکہ میں خود تعزیت کا مستحق ہوں۔ حضرت مولانا قاضی خلیل احمد صاحبؒ مجاہد ِاسلام اور خطیبِ ہزارہ تھے۔ میرا ان سے تعلق کا آغاز ۱۹۷۰ء حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کی الیکشن مہم سے ہوا تھا۔ میرا آبائی علاقہ یہی ہے، شنکیاری و اچھڑیاں کی سواتی برادری سے تعلق ہے، لیکن میری پیدائش پنجاب میں گکھڑ کی ہے۔ اس حوالے سے حضرت مولانا قاضی خلیل احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میرا پہلا تعارف ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ہوا۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزاوی رحمۃ اللہ علیہ کی انتخابی مہم میں حضرت قاضی خلیل احمدؒ، حضرت مولانا سید نواب حسین شاہؒ، غلام سرور خان مرحوم ، میں اور مولانا سرورؒ شریک تھے۔ الیکشن مہم میں پوری ٹیم تھی ، اس کے بعد الحمدللہ قاضی صاحبؒ کے ساتھ ہماری جماعتی، تحریکی، مسلکی اور دینی معاملات میں ہمیشہ رفاقت رہی اور انہوں نے ہمیشہ شفقت اور مہربانی سے نوازا۔ اللہ رب العزت ان کے خاندان ، تلامذہ اور ان کے متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ انہی کی طرز پر مسلسل جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ میری یہاں حاضری کی ایک غرض یہ تھی۔

یہاں امیر الشہداء حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا قافلہ مدفون ہے۔ شہدائے بالاکوٹ تاریخ کا ایک بڑا حصہ ہے جو تاریخ کا بہت بڑا موڑ ہے، جس کی ہر سال مئی کے پہلے دس دنوں میں یاد منائی جاتی ہے ۔ شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ اپنی نسبت کی تازگی کے لیے میں یہاں کئی دفعہ حاضر ہوا ہوں، حضرت قاضی صاحبؒ کے دور میں بھی آیا ہوں۔ ہم بزرگوں کے ساتھ تعلق کا اظہار ایک تو اپنی نسبت کے اظہار کے لیے کرتے ہیں کہ ہم اس کیمپ کے لوگ ہیں۔یوں ان بزرگوں کے ذریعے ہم اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ دنیا میں بہرحال تقسیم موجود ہے، اس میں ہم کس قافلے اور کیمپ کے لوگ ہیں یہ ظاہر کرنے کے لیے بزرگوں کا نام لیتے ہیں تو تعارف ہو جاتا ہے، اس کے بعد مزید تفصیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ، ان سے پہلے حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ ،حضرت سیداحمد شہیدؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ یہ پانچ سات نام ہم لیتے ہیں تو ہمیں اپنا مزید کوئی تعارف کرانے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے ایک پہلو یہ ہے کہ ان بزرگوں کے ذکر سے ان کے ساتھ نسبت کا اظہار ہوتا ہے اور اپنا تعارف ہوتا ہے۔ شخصیات کے حوالے سے تعارف کیسے ہوتا ہے اس پر ایک واقعہ سنایا کرتا ہوں، آپ سے بھی عرض کر دیتا ہوں۔

نائن الیون کے چند سال بعد کی بات ہے، میں امریکہ گیا تو نیویارک ایئرپورٹ پر میرا پاسپورٹ چیک ہوا۔ میرے پاسپورٹ میں میرا نام محمد عبدالمتین خان زاہد لکھا ہوا ہے۔’’محمد‘‘ اور ’’خان‘‘ دونوں میرے نام کا حصہ ہیں، ان میں سے کوئی لفظ بھی نام میں شامل ہو تو کسی امریکی ایئرپورٹ پر اسے چیکنگ کے لیے الگ کر لینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میرا معاملہ تو ڈبل تھا کہ میرے نام میں ’’محمد‘‘ اور ’’خان‘‘ دونوں لفظ موجود ہیں۔ امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگا محمد محمد؟ خان خان؟ ڈبل، چلو پیچھے۔ وہ مجھے پچھلے کمرے میں لے گیا اور پانچ چھ گھنٹے تفتیش میں ضائع کیے ۔ اس واقعہ کو پندرہ بیس سال ہو چکے ہیں، مگر سچی بات ہےکہ اس کا لطف اب تک دل میں تازہ ہے کہ میرا تعارف کس نام سے ہوا ہے۔ اس نے مجھ سے اور کچھ نہیں پوچھا ۔ ان دو لفظوں سے میرا سارا تعارف ہو گیا۔اس لیے میں نے عرض کیا کہ بزرگوں کا ذکر کرنے سے بزرگوں کے ساتھ ہمارے تعلق اور نسبت کا اظہار ہوتا ہے اور ان کے نام سے ہمارا تعارف ہو جاتا ہے ۔

بزرگوں کے ساتھ تعلق کے اظہار کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم دیکھیں انہوں نے کیا کیا تھا؟ ان کی جدوجہد کو ہم کیسے دیکھتے ہیں اور ہمیں اس میں کیا کرنا چاہیے؟ اس مناسبت سے آپ شہدائے بالاکوٹ کا تذکرہ بارہا سن چکے ہوں گے، بارہا سنیں گے ، لیکن حکایت اچھی ہو تو بار بار سننے کو جی چاہتا ہے۔ میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ شہدائے بالاکوٹ کی جدوجہد کیا تھی،ان کی شہادت کی وجہ کیا تھی، اس کے بعد کیا ہوا ، پھر یہ کہ ان کی شہادت اور قربانیوں میں ہم نے کیسے شرکت کرنی ہے؟ یہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

سید احمد شہیدؒ رائے بریلی کے تھے اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کا تعلق دلی سے تھا۔ دلی کے بڑے بڑے خاندانوں کے یہ بڑے بڑے شہزادے یہاں سنگلاخ پہاڑی علاقے میں کس مقصد سے آئے تھے، یہاں ان کا کیا کام تھا؟ شاہ اسماعیل شہید ؒشاہ ولی اللہؒ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیزؒ کی کلاس کے سینئر شاگرد تھے، نازوں نخروں میں پلے ہوئے صاحبزادے یہاں کس غرض سے آئے؟ میں ان کی کچھ داستان دہرانا چاہتا ہوں۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے تقریبا ًایک ہزار سال دہلی پر حکومت کی ہے۔ آٹھ سو سال مغلوں نے حکومت کی ، ان کے علاوہ التمش، ایبک اور تغلق بھی حکمران رہے۔ اس کے بعد ہم سے حکومت چھن گئی اور یہاں ۱۷۵۷ء میں ایک تجارتی کمپنی ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کے نام سے آئی۔ تجارت کے لیے آئے مگر کام انہوں نے وہ شروع کر دیے جو آج بھی تجارت اور معیشت کے حوالے سے آنے والے عالمی ادارے ہمارے ہاں کر رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی باقاعدہ حکومت نہیں تھی، تجارتی کمپنی تھی لیکن اس نے آہستہ آہستہ مداخلت کی اور بالآخر ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے بنگال پر قبضہ کر لیا اور یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور شروع ہوگیا۔ پھر بڑھتے بڑھتے ۱۸۰۱ء میں ٹیپو سلطان کو شہید کر کے میسور پر قبضہ کیا اور لکھنؤ تک پہنچے۔ جب لکھنؤ تک پہنچے تو شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے تایا محترم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے، جو اس وقت کے سب سے بڑے مفتی تھے، فتویٰ دیا کہ یہ انگریزوں کی کمپنی ہمارے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور اس نے انہیں کنٹرول کر لیا ہے، اس لیے اب ہم دارالاسلام نہیں رہے، بلکہ دارالحرب ہو گئے ہیں اور ان کے خلاف لڑنا ہماری ذمہ داری ہو گئی ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اسے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا اور جہاد کا فتویٰ کہا جاتا ہے جو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒنے جاری کیا تھا۔ میں علمائے کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ وہ فتویٰ کتابوں میں موجود ہے اسے پڑھیں۔ اس دور میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے اور جہاد کے فرض ہونے کے دو فتوے جاری ہوئے تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا یہ فتویٰ ”فتاوی عزیزی“ میں موجود ہے۔ فارسی میں بھی ہے اور اردو میں بھی۔

دوسرا فتویٰ اس دور کے دوسرے بڑے مفتی حضرت مولانا قاضی ثنا اللہ پانی پتیؒ نے جاری کیا تھا۔ جن کی کتب ”مالا بد منہ“ اور ”تفسیر مظہری“ معروف ہیں۔ آپؒ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے معاصر تھے۔ ان کا قلمی فتویٰ مفصل ہے، دلائل کے ساتھ ہے۔ جبکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا فتویٰ مختصر ٹو دی پوائنٹ ہے۔میں چند سال قبل انڈیا گیا تو کاندھلہ میں حضرت مولانا نور الحسن راشد دامت برکاتہم کے کتب خانے میں حضرت قاضی ثنا اللہ پانی پتیؒ کا قلمی فتویٰ میں نے دیکھا تھا۔

میں اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ انہوں نے یہ فتویٰ کیوں دیا تھا کہ ہم دارالاسلام نہیں رہے ، دارالحرب ہو گئے ہیں ، اس نظام سے جان چھڑانا ہماری ذمہ داری بن گئی ہے اور اس کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے؟ اس کی انہوں نے دو وجہیں بیان کی ہیں:

  • ایک یہ کہ نصاریٰ کا تغلب ہو گیا ہے یعنی ملک کا نظام ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیا ہے جو عیسائیوں اور یورپین کی کمپنی ہے اور ہم پر غیر مسلموں کا کنٹرول ہو گیا ہے۔
  • اور دوسری یہ کہ انہوں نے ہمارے اسلامی قوانین منسوخ کر کے اپنے قوانین نافذ کر دیے ہیں۔
  • لہٰذا مسلمان جہاد کے ذریعے آزادی حاصل کریں اور آزادی حاصل کر کے اپنا کنٹرول دوبارہ لائیں، اپنی رٹ اور قانون بحال کریں۔ یہ سارے فتوے کا خلاصہ ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد پر بہت جدوجہد کی گئی اور بیسیوں جنگیں لڑی گئیں۔ بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی تحریک، حاجی صاحب ترنگزئیؒ، تیتومیرؒ، سردار احمد خان کھرل شہیدؒ، سندھ میں پیر صبغت اللہ راشدی شہیدؒ (پیر پگارا) اور دیگر بہت سے مجاہدین نے ہتھیار اٹھائے، جذبۂ جہاد کے ساتھ برطانوی استعمار کا مقابلہ کیا اور بے پناہ قربانیاں دیں۔

    میں اس حوالے سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ساری جدوجہد دو بڑے دائروں میں رہی ہے، ایک دور مسلح جنگوں کا رہا ہے ، جن میں سے شہدائے بالاکوٹ کی تحریک بھی ہے۔ یہ جنگ اپنا کنٹرول اور اپنی رٹ بحال کرنے کے لیے ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سکھوں کی رٹ تھی، دلی میں انگریزوں کی رٹ تھی، مسلمانوں کی کہیں بھی نہیں تھی، اسے بحال کرنے کے لیے پہلا دور مسلح جنگوں کا تھا، جس میں مختلف مقامات پر تقریباً اٹھارہ بیس مسلح جنگیں لڑی گئیں۔

    دوسرا دور وہ تھا جب شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ نے مسلح جدوجہد کو بریک لگائی اور تحریک ریشمی رومال کے بعد غیر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا کہ اب ہم لڑائی تلوار سے نہیں لڑیں گے، بلکہ سیاست سے لڑیں گے۔ یہ ہمارا ٹرنل پوائنٹ تھا۔ پہلے دور میں بیسیوں جنگیں ہیں اور اس دور میں بیسیوں تحریکیں ہیں۔ سب سے بڑی جنگ۱۸۵۷ء میں ہوئی، برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ سو سال ایسٹ انڈیا کمپنی کے اور نوےسال تاج برطانیہ کے۔ بالآخر ان تحریکات کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء میں ہم نے آزادی حاصل کی۔ پاکستان قائم کیا اور یہ خطہ انڈیا سے الگ ہوا۔

    میں اس پر صرف ایک سوال ذہن میں ڈالنا چاہتا ہوں کہ جس فتوے کی بنیاد پر یہ ساری مسلح اور پھر سیاسی جنگ لڑی گئی تھی ، اس کا ایک حصہ تو ختم ہو گیا کہ عیسائیوں کی حکومت نہیں رہی، نصاریٰ کا تغلب ختم ہو گیا اور اتنا فرق پڑ گیا کہ اب ہمارے حکمران لارڈ ماؤنٹ بیٹن وغیرہ کے نام کے نہیں ہوتے، بلکہ ایوب خان، یحییٰ خان اور سکندر نام کے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا انگریز کا نافذ کردہ قانون بھی بدل گیا ہے؟ یہ سادہ سا سوال ہے۔ اب تک ہماری عدالتوں میں قانون شریعت کا نہیں، بلکہ وہی ہے جو انگریزوں نے نافذ کیا تھا۔ تو کیا وہ فتویٰ مکمل ہو گیا ہے؟ شہدائے بالا کوٹ کی جدوجہد کے حوالے سے میرا پہلا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جس مشن کے لیے قربانیاں دی تھیں کہ ہم آزاد ہوں، اور کنٹرول اور قانون ہمارا اپنا ہو۔ اب کنٹرول تو ہمارا جیسا کیسا ہو گیا ہے، لیکن کیا قانون تبدیل ہوا ہے؟

    شہدائے بالاکوٹ کی لمبی داستان ہے۔ دلی سے چلے تھے، میں نے سندھ میں ان کے مراکز دیکھے ہیں پیر جوگوٹھ میں وہ کالونی اب تک موجود ہے جہاں یہ حضرات رہے ہیں، وہاں سے چلتے چلتے طویل سفر کر کے پشاور پہنچے، ۱۸۳۰ ء میں پشاور پر قبضہ کیا۔ جہاں ان کی مستقل حکومت بنی، چھ مہینے انہوں نے حکومت کی۔ اس حکومت کا قانون شریعت کے مطابق تھا، سربراہ کا ٹائٹل ”امیر المومنین“ تھا۔شاہ اسماعیل شہیدؒ کمانڈر انچیف تھے، اور مولانا عبد الحی چیف جسٹس تھے۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جب اپنی حکومت قائم کی اور عارضی طور پر ایک چھوٹے سے علاقے میں کنٹرول حاصل کیا تو نظم وہی باقی رکھا یا اپنا نظم قائم کیا؟ وہی قانون باقی رکھا یا اپنا قانون نافذ کیا؟ اس سے معلوم ہوا کہ آزادی کا اصل مقصد اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ آزادی تب مکمل ہوتی ہے جب اپنا نظام اور قانون نافذ ہو، قانون دوسروں کا ہو تو اسے آزادی نہیں کہتے۔ اس کو یوں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ اپنا قانون تب نافذ ہوتا ہے جب آزادی حاصل ہو اور کنٹرول اپنا ہو۔

    اس پر میں ایک شہادت قرآن مجید سے دینا چاہوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ہارون علیہ السلام دونوں بھائی پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت دی اور فرعون کے پاس بھیجا۔” اذھبا الی فرعون انہ طغیٰ“ کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ انہوں نے جا کر فرعون کو کیا کہا؟ انہوں نے جا کر صرف توحید یا نماز کی بات نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو میسج دے کر بھیجا تھا وہ اسے پہنچایا کہ ہم اس کام کے لیے آئے ہیں ”ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم“ ہم اپنی قوم بنی اسرائیل کو آزاد کرانے آئے ہیں، انہیں غلامی سے نجات دو، ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں تاکہ ہم آزاد فضا میں اپنا نظام قائم کر سکیں۔ تورات اس کے بعد نازل ہوئی ، قانون تب نافذ ہوا ، شریعت تب مکمل ہوئی جب آزادی مکمل ہوئی۔ فرعون کا خاتمہ ہوا، بنی اسرائیل آزاد ہوئے، اگرچہ خیموں میں تھے تاہم آزاد ہو چکے تھے، اس کے بعد تورات نازل ہوئی۔اس لیے میں نے عرض کیا کہ اپنا قانون تب نافذ ہوتا ہے جب پہلے آزادی حاصل ہو اور کنٹرول اپنا ہو۔

    میں ایک بات اور شامل کر دیتا ہوں ،دیکھیں ڈپلومیسی کسے کہتے ہیں؟ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کی بات کی اور کہا ”ان ارسل معنا بنی اسرائیل“ کہ ہم دونوں بھائی نبی بن کر اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ ہماری قوم کو آزاد کرو ، ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں تو فرعون اپنی قوم سے کہنے لگا ” إن هذان لساحران يريدان أن يخرجاكم من أرضكم بسحرهما ويذهبابطریقتکم المثلی“ کہ یہ تمہیں مصر سے نکالنے کے لیے آئے ہیں اور تمہاری آئیڈیل تہذیب اور سسٹم کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ جبکہ وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم جانے کے لیے آئے ہیں، مگر یہ کہتا ہے کہ ہمیں نکالنے کے لیے آئے ہیں۔اسے ڈپلومیسی کہتے ہیں۔ وہ کچھ کہہ رہے ہیں اور یہ کچھ اور ان کے کھاتے ڈال رہا ہے۔ آج کل بھی دنیا میں ہر جگہ پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور ہمارے کھاتے کیا کیا ڈالا جا رہا ہے۔ وہی جو فرعون نے موسی ٰعلیہ السلام کے کھاتے میں ڈالا تھا کہ یہ جادوگر ہیں، پتہ نہیں کہاں سے جادو سیکھ کر آ گئے ہیں، یہ تمہیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں، مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور تمہاری آئیڈیل تہذیب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ڈپلومیسی کی زبان۔ ڈپلومیسی اور پراپیگنڈے کی طاقت یہ ہوتی ہے، اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایک اور جملہ فرمایا ہے”فاستخف قومہ فاطاعوہ“ کہ اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنا لیا، وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔ ”انھم کانوا قوما فاسقین“ میں اس کا ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ بڑے بے ایمان لوگ تھے کہ سیدھی بات نہیں مانی، الٹی بات مان لی اور اس پر چل پڑے۔

    میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے آزادی حاصل کی ہے پھر تورات نازل ہوئی کہ آزاد ہوں گے تو تورات نافذ ہوگی، آزادی نہیں ہوگی تو تورات کہاں لے جائیں گے؟

    اسی پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حوالہ دینا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ بات پڑ ھی پڑھائی جاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ مبعوث ہوئے تو مکی دور میں احکام نہیں آئے، تیرہ سالہ مکی دور میں عقائد کی بات ہوتی رہی۔ احکام مدنی دور میں شروع ہوئے، وہیں قوانین ، احکام، نظام اور سسٹم نافذ ہوا۔ کیونکہ ظاہر ہے آزادی ملنے کے بعد ہی نظام آنا تھا ، مکہ میں قانون کہاں نافذ کرنا تھا؟ کفارِ مکہ پر؟ اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت دیکھیں کہ تیرہ سالہ مکی دور میں احکام اور قوانین نہیں آئے، قوانین تب آئے جب نبی کریمؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں اور صرف ہجرت کر کے تشریف نہیں لائے، بلکہ جب تک ارد گرد کے علاقے کو قائل کر کے اپنی حکومت بنا نہیں لی تب تک احکام نہیں آئے۔

    اس پر تاریخ کا ایک بڑا سوال ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چھپتے چھپاتے چند سو ساتھیوں کے ساتھ مہاجر اور پناہ گزین بن کر یثرب میں پناہ لینے کے لیے آئے تھے،تو مدینہ منورہ آتے ہی ان کی حکومت کیسے قائم ہو گئی؟ اس پر میں عرض کیا کرتا ہوں یہ حکومت آتے نہیں بن گئی تھی، بلکہ اس کے پیچھے تین سال کا گراؤنڈ ورک ہے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی، اس میں بارہ نقیب، نمائندے مقرر ہوئے،ان کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں، جنہوں نے پورے علاقے کو حضورؐ کے آنے تک میثاق مدینہ کے لیے تیار کیا ہے۔ میثاق مدینہ ویسے نہیں ہو گیا کہ دعوت کھانے گئے اور معاہدہ ہو گیا، بلکہ اس کے لیے تین سال گراؤنڈ ورک ہوا ہے، اس کے نتیجے میں میثاق مدینہ ہوا ہے اور حضورؐ کی حکومت قائم ہوئی ہے۔

    میں نے ایک بات یہ عرض کی ہے کہ قوانین تب آئے ہیں جب آزاد فضا میسر آئی ہے۔ قوانین اور نظام کے نفاذ کے لیے آزادی اور خودمختاری لازمی ضرورت ہے اور دوسری بات میں نے عرض کی ہے کہ حکومتیں ویسے نہیں بن جایا کرتیں، بلکہ ان کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، گراؤنڈ ورک کرنا پڑتا ہے اور لابنگ کرنی پڑتی ہے۔ ریاست مدینہ کے پیچھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین سال کی گراؤنڈ ورکنگ اور لابنگ ہے۔

    تیسری بات عرض کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں بھی یہ سوال ہے کہ حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟ اس کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ریاست مدینہ کیسے قائم ہوئی، حضورؐ نے دس سال مدینہ منورہ پر حکومت کی۔ آپ کی حکومت کتنے علاقے سے شروع ہوئی تھی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی سمندری پٹی پر ریاست قائم ہوئی، جب دس سال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ پوش ہوئے ،اس وقت ریاست مدینہ کی حدود میں پورا جزیرۃ العرب شامل تھا۔ اس میں یمن، نجران، بحرین اور نجد شامل تھا۔ ایک سمندری پٹی پر قائم ہونے والی حکومت نے دس سال میں پورے جزیرۃ العرب کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ قبضہ کر کے قائم کی تھی ؟نہیں!بلکہ اس ریاست کے علاقے کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر ریاست قائم ہوئی تھی۔ میثاق مدینہ میں یہودیوں کے قبائل بھی تھے، مسلمان اور مشرکین بھی شامل تھے۔ جس علاقے میں ریاست قائم ہونی ہے اس علاقے کے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے کر ریاست قائم ہوگی ورنہ نہیں ہوگی، یوں ہی ریاست مدینہ اس اجتماعی اعتماد سے میثاق مدینہ کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔

    آج سیاست کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ریاست کیسے قائم ہوگی؟ میں کہتا ہوں جیسے ریاست مدینہ قائم ہوئی تھی ویسے ہی آج ریاست قائم ہو گی۔ ریاست مدینہ قبضہ کر کے قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ لوگوں کو اعتماد میں لے کر قائم ہوئی تھی۔ نبوت کے بعد جانشینی خلافت نے سنبھالی ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت قائم ہوئی تو وہ بھی قبضہ کر کے قائم نہیں ہوئی کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے مدینہ پر قبضہ کر لیا ہو اور نہ ہی آپؓ نے خاندانی استحقاق جتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے داماد ہیں، میں خسر بزرگوار ہوں ،لہٰذا مجھے خلیفہ بناؤ۔ بلکہ لوگوں کو اعتماد میں لے کر ان کی خلافت قائم ہوئی تھی۔

    اس دور میں دنیا میں بادشاہتیں قبضہ کر کے طاقت کے بل پر قائم ہوتی تھیں، یا خاندانی بنیاد پر اور اپنا استحقاق جتا کر قائم ہوتی تھیں کہ میں بادشاہ کا بیٹا ہوں ، جب کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خلافت کا آغاز ہوا ہے ،تو نہ قبضہ کر کے ہوا اور نہ ہی خاندانی استحقاق جتا کر ہوا ،بلکہ تمام متعلقہ لوگوں اور قبائل کو اعتماد میں لے کر خلافت راشدہ کا آغاز ہوا۔

    میں شہدائے بالاکوٹ کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہمیں نظام قائم کرنے کے لیے آزادی چاہیے، اور جب آزادی مل جائے جتنی بھی ملے تو نتیجے میں نظام آنا چاہیے۔ آزادی نظام کے لیے چاہیے، بغیر نظام کےآزادی بیکار چیز ہے ۔ اس لیے نظام قائم کرنے کے لیے آزادی چاہیے جبکہ جنگ اور جہاد کا پہلا ثمرہ نظام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ انہوں نے امیر المومنین کی حیثیت سے حکومت قائم کی، چھ مہینے چلائی۔پھر بغاوت ہو گئی۔ ایسے معاملات میں بغاوت ہو جاتی ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ وہ پشاور سے مظفرآباد جانے کے لیے اس غیر معروف راستے سے چھپتے چھپاتے جا رہے تھےکہ ہم کسی طریقے سے مظفر آباد پہنچیں پھر نیا نظام سوچیں گے، لیکن درمیان میں شیر سنگھ کو مخبری ہو گئی اس نے گھیرا ڈال لیا اور اس پورے قافلہ کو شہید کر دیا ۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سید احمد شہیدؒ ان کے سرخیل تھے۔ باقی تاریخ آپ کے سامنےہے، شہداء کی قبریں اور ان کے مآثر بھی آپ کے سامنے ہیں ۔

    میں اسی بات پر اپنی گفتگو مکمل کروں گا کہ آزادی کے بغیر نظام قائم نہیں ہوتا، اور آزادی کے بعد اپنا نظام نہ ہو تو وہ آزادی نہیں ہوتی۔ آج ہم کس حالت میں ہیں؟ ہم خود کو آزاد کہتے ہیں ، لیکن نظام غیروں کا ہے۔ کیا ہم آزاد ہوئے ہیں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں واپس چلے گئے ہیں؟ آج ایسٹ انڈیا کمپنی کا محض نام بدلا ہے، اس وقت نام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا آج نام ”آئی ایم ایف“ ہے۔ میرا ملک کے ہر باشعور شخص سے سوال ہے کہ آئی ایم ایف اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیا فرق ہے؟ بلکہ میں کہتا ہوں کہ ۱۸۲۲ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے ساتھ مغل بادشاہت کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے کا جو معاہدہ کیا تھا اس میں اور آج آئی ایم ایف نے جو معاہدہ مسلط کیا اس میں کوئی ایک فرق دکھا دیں۔ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں واپس چلے گئے ہیں۔ میں اس سے نجات کے طریق کار پر اصرار نہیں کرتا۔ سیاسی جنگ لڑیں، لیکن آزادی اور خود مختاری کی بات تو کریں ۔ آج شہدائے بالاکوٹ کی روحوں اور ان کی قربانیوں کا ہم سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تمہاری آزادی کہاں ہے اور تمہاری خود مختاری کہاں ہے؟ جب تک ہم قومی خود مختاری کے لیے قربانی نہیں دیں گے ہمارا تعلق اس سلسلے سے قائم نہیں رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے وابستہ رکھیں اور ان کے مشن پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین یا رب العالمین۔

    2016ء سے
    Flag Counter