حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ

   
تاریخ : 
۲ جون ۲۰۰۴ء

چند ماہ قبل فیصل آباد حاضری کے موقع پر حضرت مفتی صاحبؒ کے فرزند اکبر مولانا محمد یوسف اول کے ہمراہ زیارت کے لیے ان کے گھر گیا، تھوڑی دیر ان کی خدمت میں بیٹھا، باتیں سنیں اور دعا کی درخواست کی۔ نسیان کے مسلسل مرض کی وجہ سے پہچان نہیں پا رہے تھے، مگر گفتگو میں شفقت ونصیحت کا پہلو بدستور غالب تھا۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی، اس کے بعد ان کی زیارت کے لیے حاضری کا اتفاق نہ ہو سکا۔مجھے یاد نہیں کہ حضرت مفتی صاحبؒ کو پہلی بار کب دیکھا مگر یہ یاد ہے کہ بہت دیکھا اور بار بار دیکھا، نجی مجلسوں میں ان کی باتیں سنیں، ذاتی ملاقاتوں میں ان کی راہنمائی اور شفقتوں سے بہرہ ور ہوا اور عام اجتماعات میں ان کے خطابات سنے۔ میرے لیے وہ استاد اور راہ نما کا درجہ رکھتے تھے، اس لیے جب بھی ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، استفادہ کی نیت سے حاضر ہوا اور بحمد اللہ تعالیٰ ہر بار اس کا پھل بھی پایا۔

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ دار العلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے نامور فضلاء میں سے تھے جنہوں نے دنیا بھر میں دیوبند اور ڈابھیل کے فیض کو عام کیا اور بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔ گذشتہ عیسوی صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز میں وہ فیصل آباد میں تشریف لائے اور مرکزی جامع مسجد کی خطابت سنبھالی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کا مرحلہ درپیش ہوا او رحضر ت مفتی صاحبؒ اس میں قائدانہ کردار ادار کرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتوں سے گزرے۔ فیصل آباد میں ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات میں ہمیشہ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ، حضرت مولانا تاج محمود اور حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ان کی تکون مشہور تھی، اس دور میں عام طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ تینوں بزرگ کسی جگہ اکٹھے بیٹھے ہیں تو کسی نہ کسی تحریک کی شروعات ہونے والی ہےاور اکثر ایسا ہو جاتا تھا۔

مفتی صاحبؒ غضب کا سیاسی اور تحریکی ذہن رکھتے تھے۔ کسی سیاسی یا تحریکی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تھے مگر مشورہ اور راہ نمائی کے میدان میں ان کی خدمات کسی سے کم نہیں ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کئی بار اتفاق ہوا کہ ان کی خدمت میں نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت اور کسی دیگر دینی تحریک کے حوالے سے حاضری دی تو انہوں نے بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا، راہ نمائی کی، مشوروں سے نوازا اور بعض اوقات تحریکی تجربات اور داو پیچ بھی بتائے۔ خاص طور پر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں نفاذ شریعت کے جو متعدد اقدامات ہوئے ان کے پیچھے حضرت مولانا مفتی زین العابدین اور حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف کی کاوشوں کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ انتہائی خاموشی کے ساتھ یہ دونوں بزرگ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ مسلسل رابطہ میں تھے اور نفاذ شریعت کے اقدامات میں ان کے اہم مشیر تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کا سیاسی ذہن تو کمال کا تھا مگر سیاسی مزاج نہیں تھا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اگر حضر ت مفتی صاحبؒ عملی سیاست میں متحرک ہو جاتے تو حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی صف میں ایک سینئر قائد کے طور پر ان کی جگہ ہوتی۔ اور اگر وہ تدریس وتعلیم کی لائن اختیار کرتے تو حضرت مولانا ظفر احمدؒ عثمانی اور حضر ت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ مگر انہوں نے اپنی عملی تگ وتاز کے لیے دعوت وتبلیغ کا میدان منتخب کیا اور اس میں ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کی محبت و رفاقت انہیں ایسی راس آئی کہ پھر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنے سب بیٹوں کا نام یوسف رکھا۔ یوسف اول، یوسف ثانی، یوسف ثالث اور یوسف رابع کے نام سے ان کے فرزندگان متعارف ہیں اور اپنے عظیم باپ کے دینی و دعوتی مشن کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ یہ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کے ساتھ ان کی محبت کا عملی اظہار ہے۔

دعوت و تبلیغ کا یہ میدان آج کی ملی ضروریات کے تناظر میں سب سے زیادہ ضروری اور سب سے زیادہ وسیع میدان ہے بلکہ بعض ’’نیک لوگ’’ تو اس کی اہمیت بیان کرتے کرتے دینی جدوجہد کے دوسرے شعبوں کی نفی اور استخفاف کے مراحل سے بھی گزر جاتے ہیں، اور دینی جدوجہد کے دوسرے شعبوں اور میدانوں کے رجال کار ایسے ’’تبلیغی دوستوں’’ کے بارے میں شکوہ کناں ہونے لگتے ہیں۔ مگر حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی بھاری بھرکم علمی شخصیت کی موجودگی میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو ہمیشہ اعتماد رہا کہ بات ایک حد سے آگے نہیں بڑھے گی۔ اب اس حوالہ سے دیکھتا ہوں تو پاکستان میں حضرت مفتی صاحبؒ کا کوئی متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا اور میرے نزدیک حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات سے پیدا ہونے والے وسیع خلا کا یہ پہلو سب سے زیادہ فکر انگیز ہے۔

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی عملی سرگرمیوں کا میدان پوری دنیا تک پھیلا ہوا تھا۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات میں ان کے خطابات، علماء کے اجتماعات میں ان کی گفتگو اور مشاورت کے اجلاسوں میں ان کی نکتہ رسی ان محافل واجتماعات کی جان ہوتی تھی۔ وہ مختصر گفتگو کرتے تھے جو استدلال سے بھرپور ہوتی تھی، ٹو دی پوائنٹ ہوتی تھی اور ’’از دل خیز بر دل ریزد’’ کا مصداق ہوتی تھی۔ میں نے مختلف مواقع پر ان کے خطابات سنے ہیں مگر ایک مختصر سے خطاب کا نقشہ اب تک ذہن میں تازہ ہے۔ سال ہا سال پہلے کی بات ہے، چنیوٹ میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کی بیٹی کا نکاح تھا، میں بھی مدعو تھا۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ نے نکاح پڑھایا اور مختصر خطاب میں نکاح شادی کے معاملات میں سادگی کی تلقین کرتے ہوئے سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کا واقعہ ایسے انداز سے بیان کیا کہ ایک ایک لفظ دلوں میں اترتا چلا گیا۔ مجھے جب بھی کسی نکاح کے موقع پر کچھ بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، اس محفل کا نقشہ بے ساختہ ذہن کی سکرین پر نمودار ہو جاتا ہے۔

حضرت مفتی صاحبؒ نے ایک عرصہ فیصل آباد کی مرکزی جامع مسجد میں خطابت کے ذریعے فیصل آباد کے لوگوں کی دینی راہنمائی اور تربیت فرمائی۔ پھر ان کی تگ وتاز کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور یہ محاذ ان کے داماد حضرت مولانا مفتی محمد ضیاء الحق نے سنبھال لیا اور سال ہا سال سے وہ حضرت مفتی صاحب کی نیابت ونمائندگی کر رہے ہیں۔ پیپلز کالونی فیصل آباد کا دارالعلوم حضرت مفتی صاحبؒ کی ایک اور حسین یادگار اور صدقہ جاریہ ہے جسے ان کے فرزندان حضرت مولانا محمد یوسف اول او رحضر ت مولانا محمد یوسف ثانی کی راہ نمائی حاصل ہے اور جہاں دیگر بہت سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ میرے ایک مشفق استاذ حضرت مولانا مفتی جمال احمد مدظلہ بھی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، ان کے تمام متوسلین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی بھر دینی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter