اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے عنوان سے متحدہ محاذ بنا کر مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ منتخب کیا ہے اور حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا اعلان کر دیا ہے جس سے ملک بھر میں سیاسی گہماگہمی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی محاذ آرائی کا ایک اہم راؤنڈ شروع ہو گیا ہے۔ سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسہ عام کا انعقاد کر کے اس تحریک کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے بعد مختلف شہروں میں اس قسم کے اجتماعات ہوں گے۔ دوسری طرف حکمران پارٹی بھی متحرک دکھائی دیتی ہے، چنانچہ سولہ اکتوبر کو اپوزیشن کے جلسہ کے مقابلہ میں گوجرانوالہ میں ہی حکومت کے حق میں ریلی کا مجوزہ پروگرام اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ حکمران پارٹی اور ان کے ہمنوا سیاسی گروہوں نے بھی لنگرلنگوٹ کس لیا ہے اور وہ سڑکوں پر اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ آئندہ چند روز میں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ البتہ اس موقع پر ۱۹۷۷ء کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی ہے جب اپوزیشن کی نو سیاسی جماعتوں نے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام سے متحدہ محاذ تشکیل دیا تھا اور مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان، پیر صاحب آف پگاڑا اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحومین جیسی قدآور شخصیات کی قیادت میں مشترکہ طور پر الیکشن میں حصہ لینے کے بعد انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ یہ احتجاجی تحریک اصل میں تو انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تھی اور اس کا بنیادی مطالبہ الیکشن کو کالعدم قرار دے کر فوری طور پر دوبارہ انتخابات کا تھا مگر چونکہ الیکشن میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے منشور کا سب سے اہم نکتہ ملک میں نظامِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا نفاذ تھا اس لیے تحریک نے بھی نظام مصطفٰیؐ کے نفاذ کا پرچم تھام لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اس عنوان سے سڑکوں پر امڈ آیا۔ میں خود بھی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے اس تحریک کا سرگرم کردار تھا، پنجاب کے صوبائی قومی اتحاد میں پہلے نائب صدر اور پھر سیکرٹری جنرل کے طور پر مذکورہ بالا راہنماؤں کی ٹیم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اب چار عشروں کے بعد تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور مولانا مفتی محمودؒ کے فرزند مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن پھر متحد ہو کر حکومت کو گرانے کا عزم اور دوبارہ انتخابات کے مطالبہ کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔
مولانا فضل الرحمان اپنے والد گرامی مولانا مفتی محمودؒ کی جماعت جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر اور ملک کے سینئر سیاسی و پارلیمانی راہنما ہیں اس لیے سیاسی کارکنوں کو امید ہے کہ وہ اپنے والد گرامیؒ کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے ۱۹۷۷ء کا منظر دوبارہ قوم کو دکھانے میں کامیاب رہیں گے۔ ایک دوست نے گزشتہ روز سوال کیا کہ سیاسی پارٹیوں نے ایک بار پھر ایک عالم دین کو اپنا سربراہ کیوں منتخب کیا ہے، حالانکہ عام طور پر قومی سیاست میں علماء کرام کی پیشرفت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کی دو بڑی وجہیں ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ عوامی تحریکات بالخصوص حکومتوں کے خلاف جدوجہد میں قربانی اور ایثار کی جس درجہ میں ضرورت ہوتی ہے وہ دینی کارکنوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ قربانی کے ساتھ خلوص و استقامت کا عنصر بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ایسے ہر موقع پر دینی جماعتوں، کارکنوں اور قیادتوں کو فرنٹ پر رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ (۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں بہرحال دینی جذبات اور مذہبی وابستگی بے لچک درجہ میں موجود ہے اور ہر تحریک میں خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارنا خود تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ’’مولوی کی سیاست‘‘ پر جتنی حرف گیری بھی کر لی جائے اس کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ پاکستانی قوم کی یہی خصوصیت آج کی دنیا کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے جو آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالٰی اسی طرح بنی رہے گی کہ نظریاتی قوموں اور طبقات کے مزاج بدلنا کبھی کسی کے بس میں نہیں رہا۔
اس تحریک کے ساتھ ساتھ ملک کے دینی حلقے پہلے سے صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے ناموس و عزت کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کے مطالبہ کے لیے سڑکوں پر موجود ہیں جو خالصتاً دینی تحریک ہے۔ اس تحریک کا مطالبہ وہی ہے جو عالمی سطح پر پوری امت مسلمہ کا حضرت انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت و حرمت کے حوالہ سے ہے کہ اللہ تعالٰی کے برگزیدہ پیغمبروں کی ہتک اور بے حرمتی کو جرم تسلیم کیا جائے اور اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ وہی مطالبہ اس تحریک کا پاکستان میں حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؑ کے بارے میں ہے کہ ان میں سے کسی بھی بزرگ کی توہین کو جرم تسلیم کیا جائے اور اس کے لیے ایسی مؤثر قانون سازی کا اہتمام کیا جائے جس سے ان بزرگوں کی توہین و تحقیر کے مکروہ و مذموم واقعات کا عملاً سدباب ہو سکے۔ کراچی، اسلام آباد اور ملتان کے شاندار عوامی مظاہروں کے بعد اب کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے عنوان سے یہ جدوجہد لاہور اور گوجرانوالہ کا رخ کر رہی ہے۔ بارہ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں اور اٹھارہ اکتوبر کو لاہور میں کراچی، ملتان اور اسلام آباد کی طرز کی عوامی ریلیوں کے پروگراموں کا اعلان ہو چکا ہے اور اس کے لیے پرجوش تیاریاں جاری ہیں۔
البتہ اس موقع پر یہ بات بہرصورت قابل توجہ ہے کہ بیک وقت ان دونوں تحریکوں کا آگے بڑھنا کیا موجودہ ملکی حالات میں خود ان دونوں تحریکوں کے لیے فائدہ مند ہو گا؟ دونوں کا الگ الگ ایجنڈا ہے، ایک خالص سیاسی تحریک اور دوسری خالص دینی تحریک ہے۔ مگر بہت سی شخصیات اور حلقے دونوں میں مشترک ہیں جبکہ ان دونوں تحریکوں کا اپنے اثرات و نتائج کے حوالہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا لازمی بات ہے جس کا بروقت جائزہ لے لینا ضروری ہے۔ ہماری رائے میں اس کنفیوژن سے دونوں کو بچنا چاہیے اور کارکنوں کو بھی دوذہنی کا شکار ہونے سے بچانا چاہیے، ہم قربانی اور ایثار کے حوالہ سے دینی حلقوں کے جس مزاج کا سطور بالا میں ذکر کر چکے ہیں امید ہے کہ اس موقع پر وہی قوم کو کنفیوژن سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔