برطانوی وزیر جیری اسٹکلف کے خیالات

   
۷ جنوری ۲۰۰۶ء

روزنامہ جنگ لندن کے مطابق بریڈ فورڈ میں برٹش مسلم یوتھ فورم کے زیراہتمام عالمی دہشت گردی کے حوالہ سے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر جیری اسٹکلف نے کہا ہے کہ برطانوی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کا صحیح آفاقی پیغام پہنچائیں۔ اسلام، جہاد اور دہشت گردی میں واضح فرق کرتا ہے لیکن اس فرق کو واضح کرنے کے لیے اسلام کا صحیح معنوں میں علم رکھنے والے لوگ آگے بڑھیں۔ انہوں نے برطانیہ کے تمام شہروں میں ایسی تقریبات کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔

اسلام کی دعوت اور پیغام

جہاں تک غیر مسلموں تک اسلام کا صحیح آفاقی پیغام پہنچانے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف برطانوی مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمان مجموعی طور پر اس سلسلہ میں کوتاہی اور غفلت کے مرتکب ہیں۔ اور دنیا کے بعض خطوں میں کچھ مسلمان افراد یا علاقائی اداروں کی محدود سرگرمیوں کے علاوہ نسل انسانی تک اسلام کی دعوت اور پیغام پہنچانے کا کوئی نظم اور اہتمام موجود نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بحیثیت امت دنیا کے تمام مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے ہر خطے میں نسل انسانی کے ہر گروہ اور طبقے تک اسلام کی دعوت او رپیغام کو پہنچانے کا اہتمام کریں۔ دنیا میں اس وقت انسانی آبادی چھ ارب کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب ایک چوتھائی یا کم از کم بیس فیصد یقیناً ہے۔ اور اسلام کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ یہ عالمی مذہب ہے جو پوری نسل انسانی کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ ہی واضح طور پر یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور نسل انسانی نے جب تک کرۂ ارض پر رہنا ہے اسے حضرت محمدؐ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی نجات و فلاح کا راستہ مل سکتا ہے۔

ان دو وضاحتوں کے بعد یہ ذمہ داری خود بخود پوری امت مسلمہ کو منتقل ہو جاتی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو صرف اپنے دائرہ تک محدود نہ رکھے بلکہ اسلام کی دعوت، پیغام اور تعلیمات کو نسل انسانی کے ان تمام افراد تک پہنچانے کا اہتمام کرے جو اسلام کے دامن سے وابستہ نہیں ہیں اور جن تک تاحال اسلام کی دعوت اور پیغام نہیں پہنچا۔ بلکہ اس سے یہ مطلب اور نتیجہ اخذ کرنے کے لیے بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمانوں کی غفلت، کوتاہی اور بے پرواہی کی وجہ سے جن لوگوں تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچ سکی وہ دنیا میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بھی اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر وہ اس حالت میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے کفر اور گمراہی کی ذمہ داری مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اسلام کا پیغام پہنچانے کے دو طریقے ہیں:

  1. ایک یہ کہ زبان، قلم اور میڈیا کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام اور اس کی تعلیمات سے متعارف کرایا جائے،
  2. دوسرا یہ کہ اسلامی معاشرت کا ایسا عملی ماحول اور نمونہ پیش کیا جائے جسے دیکھ کر لوگ اسلام سے متاثر ہوں اور اس کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔

یہ دونوں طریقے آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور ماضی میں اسلام کی دعوت دنیا کے گوشے گوشے میں انہی ذرائع سے عام ہوئی۔ بلکہ حضرات صوفیائے کرامؒ اور مشرق بعید کا سفر کرنے والے مسلمان تاجروں کی محنت و ریاضت کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو اسلام سے متعارف کرانے میں یہ دوسرا طریقہ یعنی اسلامی معاشرت کا عملی ماحول اور نمونہ پیش کرنا ہر دور میں زیادہ موثر اور نتیجہ خیز رہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج دنیا میں یہ دونوں طریقے عملی طور پر موجود نہیں ہیں اور چند مستثنیات کے ساتھ غیر مسلموں کو زبان و قلم اور میڈیا کے ذریعہ اسلام کی دعوت دینے، یا اسلام کے عملی ماحول کے ذریعہ اسلام کی طرف مائل کرنے اور توجہ دلانے کی کوئی تحریک نظر نہیں آرہی۔ تبلیغی جماعت کے بہت سے دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کی تگ و تاز اور جدوجہد کا اصل مقصد مسلمانوں کو دین کے بنیادی اعمال و اخلاق کی طرف واپس لا کر ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جو دنیا میں اسلام کی عمومی دعوت و تبلیغ کی بنیاد بن سکے۔ ہمارے خیال میں حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ کا مقصد اور ہدف یہی تھا۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام میں دو تبدیلیاں محسوس ہونے لگی ہیں۔ ایک یہ کہ ذریعہ ہی اصل مقصد اور ہدف کی شکل اختیار کر گیا ہے، دوسرا یہ کہ اہداف و مقاصد کے وسیع افق کی بجائے طریق کار کی محدودیت تک نگاہیں محصور ہو کر رہ گئی ہیں۔ چنانچہ اپنے عملی دائرہ میں ضرورت و افادیت اور نتائج و ثمرات کے باوجود اصل اہداف و مقاصد کی طرف اس تحریک کی پیش رفت کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔

جہاد اور دہشت گردی میں فرق

باقی رہی بات جہاد اور دہشت گردی میں فرق کی تو برطانوی وزیر جیری اسٹکلف نے جس پس منظر میں یہ بات کہی ہے اسے سامنے رکھنا ان کے مقصد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسلام نے انسانی سوسائٹی میں اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ اور انسانیت کے منافی اقدار کے خاتمے کے لیے جنگ کو جہاد قرار دیا ہے۔ یہ جنگ زبان، قلم، میڈیا اور دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت ہتھیاروں کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے۔ اور جہاں انسانیت کے منافی اقدار کی روک تھام کے لیے دیگر ذرائع موثر ثابت نہ ہوں وہاں اسلحہ اور ہتھیاروں کا استعمال اسلام کے نزدیک ضروری ہو جاتا ہے۔ کائنات کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اور پیغمبروں کے ذریعہ بھیجی گئی اس کی تعلیمات و ہدایات کی پابندی کرنا اسلام کے نزدیک انسانیت کی فطری اور اعلیٰ ترین اقدار ہیں اور انہی پر انسانی سوسائٹی کی نجات کا مدار ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ رکھنا یا اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا اور پیغمبروں کے ذریعہ اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات و ہدایات سے بے پرواہ ہو کر اپنی خواہشات اور محدود و متغیر عقل کے مطابق زندگی بسر کرنا اسلام کے نزدیک انسانیت کے منافی اقدار و اعمال ہیں۔

یہ اسی طرح ہے جیسے آج مغرب کے فلسفہ و فکر کے مطابق انسانی سوسائٹی کی اجتماعی یا اکثریتی عقل و خواہش کو ہر معاملہ میں آخری اتھارٹی تسلیم کرنا، اور اس کے مقابلہ میں آسمانی تعلیمات سمیت ہر بات کو مسترد اور نظر انداز کرنا انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار و روایات کا درجہ رکھتا ہے۔ اس فکر و فلسفہ کے فروغ اور بقا و استحکام کے لیے زبان، قلم، میڈیا، لابنگ، معاشی و سیاسی دباؤ، اور دیگر حربوں کے ساتھ ساتھ عسکری طاقت اور تباہ کن فوجی قوت کے استعمال کو بھی مغرب کے نزدیک ایک ناگزیر ذریعہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور اسے ترقی یافتہ تہذیب و تمدن اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ و تحفظ کے لیے طاقت کے استعمال کا نام دیا جا رہا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اعلیٰ انسانی اقدار کو رائج کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت اور جواز پر اسلام اور مغرب کے درمیان کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جو اقدار اور روایات انسانی سوسائٹی کے لیے مفید ہوں اور اسے فلاح و نجات کی طرف لے جاتی ہوں ان کے لیے طاقت کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ حسب موقع ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ البتہ اعلیٰ انسانی اقدار کے تعین میں اختلاف ہے ۔اسلام کے نزدیک اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے، جبکہ مغربی فلسفہ و فکر کے نزدیک انسانی سوسائٹی کی اجتماعی عقل و خواہش کی بنیاد پر اعلیٰ انسانی اقدار تشکیل پاتی ہیں، اور ان کے لیے آسمانی تعلیمات سے انحراف یا کم از کم لاتعلقی ضروری ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات کی روشنی میں جو جنگ آسمانی تعلیمات کی بالادستی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ کے لیے لڑی جائے وہ جہاد ہے۔ اور جس جنگ کا مقصد نسل، رنگ، علاقہ، یا قومیت کے حوالے سے ایک انسانی گروہ پر دوسرے گروہ کی بالادستی ہو وہ جاہلیت اور فساد ہے۔

دہشت گردی اور جہاد کے درمیان فرق کا ایک پس منظر تو یہ ہے جو اصولی اور نظری ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہے۔ لیکن اس کا ایک پس منظر معروضی اور واقعاتی بھی ہے جس کا مشاہدہ ہم گزشتہ ڈیڑھ صدی سے کر رہے ہیں کہ مغرب آسمانی تعلیمات اور مذہب کے لیے ہتھیار کے استعمال کو مسلسل دہشت گردی قرار دے رہا ہے مگر اپنے فلسفہ و تہذیب کے لیے ہتھیار کا استعمال اس کے نزدیک جائز بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔ مثلاً

  1. افغانستان میں روسی فوجوں کی موجودگی کے خلاف مسلح جنگ مغرب کے نزدیک جہاد تھی مگر خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے خلاف ناراضگی کا مسلح اظہار دہشت گردی ہے۔
  2. کویت پر عراق کی فوج کشی اور قبضہ مغرب کے نزدیک ناقابل معافی جرم تھا اور جب تک مسلح طاقت کے ذریعہ یہ قبضہ ختم نہیں کرالیا گیا مغرب نے چین کا سانس نہیں لیا، مگر بیت المقدس پر اسرائیل کی فوج کشی اور ۱۹۶۷ء میں اس پر جارحانہ قبضہ مغرب کے نزدیک کوئی جرم نہیں، اور اس قبضہ کو جائز تسلیم کرانے کے لیے مغرب اپنے تمام ذرائع استعمال کر رہا ہے۔
  3. مشرقی تیمور کی مسیحی اکثریت کو حق خود ارادیت کے ذریعہ آزادی دلوانے میں اقوام متحدہ کا کردار ایک متحرک اور فعال ادارے کا کردار ثابت ہوا۔ مگر مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کا حق خود ارادیت جنرل اسمبلی کی قراردادوں سمیت اقوام متحدہ کے فریزر میں نصف صدی سے منجمد پڑا ہے۔

مسٹر جیری اسٹکلف سے گزارش ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کے درمیان واضح فرق یقیناً موجود ہے اور وہ مسلمانوں کے علم میں بھی ہے مگر اسے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے مغرب کے دوہرے اور متضاد کردار نے گڈمڈ کر رکھا ہے۔ اور اگر اس سلسلہ میں کوئی کنفیوژن پایا جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری زیادہ تر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ کیا مسٹر جیری اسٹکلف مغرب کی قیادت کو اس تضاد اور دوہرے معیار پر نظر ثانی کا مشورہ دینے کی زحمت فرمائیں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter