انگریز نے ہمیں ’’تہذیب‘‘ کیسے سکھائی؟

   
۱۶ جنوری ۲۰۰۳ء

انگریز جب ہمارے ہاں آئے تو ان کا دعویٰ تھا کہ ہم مشرقی اقوام کو تہذیب سکھانے آئے ہیں، زندگی کا سلیقہ بتانے آئے ہیں اور متمدن معاشرہ کے آداب سے بہرہ ور کرنے کے لیے آئے ہیں۔ انگریزوں کا خیر مقدم کرنے والے اور ان کی راہ میں آنکھیں بچھانے والے ہمارے دوستوں نے بھی ہمیں یہی بتایا کہ ہماری تہذیب پرانی ہو چکی ہے، کلچر بوسیدہ ہو گیا ہے اور مشرقی تمدن کو دیمک لگ گئی ہے۔ اس لیے ہمیں جلدی سے اس نئی تہذیب کو سینے سے لگانا چاہیے اور ان استادانِ مغرب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ کمال مہربانی کے ساتھ ساتھ سمندر پار سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ہمیں مہذب بنانے اور متمدن اقوام کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ چنانچہ مغرب کے حکمران اب تک ہمیں تہذیب و تمدن کے لیکچر دینے میں مصروف ہیں اور ہمارے کلچر کی چولیں کسنے بلکہ کستے چلے جانے کی زحمت فرما رہے ہیں۔

اس تہذیب و ثقافت کا صحیح نمونہ اگر دیکھنا ہو تو مولانا امداد صابری مرحوم کی کتاب ’’تاریخِ جرم و سزا‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب میں نے طالب علمی کے دور میں پڑھی تھی، اس کے بعد تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوئی۔ اس میں مصنف نے جرم اور اس پر دی جانے والی مختلف النوع سزاؤں کے حوالے سے قابل قدر مواد جمع کر دیا ہے اور خاص طور پر ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد مہذب اور متمدن انگریز حکمرانوں نے باغیوں کی سرکوبی اور رعیت کو قابو میں رکھنے کے لیے جو ’’مہذب طریقے‘‘ ایجاد کیے تھے ان کو مستند تاریخی ریکارڈ کے حوالہ سے پیش کیا ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی جھلک مرحوم احرار رہنما جانباز مرزا کی آپ بیتی ’’بڑھتا ہے ذوقِ جرم مرا ہر سزا کے بعد‘‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس وقت میرے سامنے اس ’’تہذیب و تمدن‘‘ کے بارے میں ایک اور تاریخی دستاویز ہے جو ۱۹۱۹ء میں پنجاب کے گورنر جنرل ایڈوائر کی قیادت میں پنجاب کے مختلف شہروں میں لگائے جانے والے مارشل لاء کے بارے میں ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی ایک سب کمیٹی کی رپورٹ پر مشتمل ہے۔ یہ سب کمیٹی پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی اور اس نے مارشل لاء سے متاثرہ شہروں کے کم و بیش سترہ سو شہریوں کی عینی شہادتوں کی بنیاد پر یہ رپورٹ مرتب کی تھی جسے لالہ پنڈی داس نے کتابی شکل میں پیش کیا اور فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور نے اب اسے دوبارہ شائع کیا ہے۔

اس مارشل لاء کا پس منظر یہ تھا کہ برطانوی حکومت کی طرف سے برصغیر پاک و ہند میں تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں انتظامیہ اور پولیس کو شہریوں کی گرفتاریوں اور ان پر سختی کے وسیع اختیارات دیے گئے تھے۔ عوام اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اسی احتجاج کے دوران امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ایک پرامن احتجاجی جلسہ پر گورنر پنجاب جنرل ایڈوائر نے خود اپنی موجودگی اور نگرانی میں چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ کرا دی جس سے سینکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ اس پر اردگرد کے شہروں میں بھی اشتعال پیدا ہوا اور عوامی مظاہرے ہونے لگے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف شہروں میں مارشل لاء لگایا گیا اور فوج نے تشدد کے زور پر عوامی تحریک کو دبا دیا۔

اسی دوران گوجرانوالہ شہر پر باقاعدہ طیاروں کے ذریعے بمباری بھی کی گئی اور جبر و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ اس مارشل لاء کے پس منظر اور واقعات کا جائزہ لینے کے لیے یہ ساری رپورٹ پڑھنے کے قابل ہے اور میرے خیال میں ہر سیاسی کارکن کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ البتہ اس میں سے چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سات سمندر پار سے ہمارے یہ نئے حکمران ہمیں کون سی تہذیب سکھانے آئے تھے اور انہوں نے دو صدیوں کے دوران حق حکمرانی استعمال کرتے ہوئے ہماری قومی اور معاشرتی تربیت کا کیا معیار قائم کیا؟ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آج ہماری قومی زندگی میں رشوت، بدعنوانی، نا اہلی، خود غرضی، مفاد پرستی اور جبر و تشدد کے جو رجحانات اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں، ان کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟ اور یہ منحوس جراثیم کس نے ہماری قومی اور معاشرتی زندگی میں داخل کیے ہیں؟

رپورٹ کے مطابق گورنر پنجاب جنرل مائیکل ایڈوائر نے ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے یہ تسلیم کیا کہ وہ جب اپنا فوجی دستہ لے کر امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہونے والے پبلک جلسہ تک پہنچا تو جلسہ پرامن طور پر ہو رہا تھا۔ ہزاروں لوگ جمع تھے اور ایک مقرر تقریر کر رہا تھا۔ ایڈوائر نے کسی قسم کی وارننگ دیے بغیر اپنے سپاہی چاروں طرف پھیلا کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس نے کہا کہ چونکہ یہ جلسہ میرے احکام کی خلاف ورزی کر کے منعقد ہو رہا تھا، اس لیے میں نے کوئی وارننگ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس نے تسلیم کیا کہ میں شاید انہیں بغیر گولیاں چلائے منتشر کر سکتا تھا، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے سپاہیوں نے ۱۶۵۰ گولیاں چلائیں، ایڈوائر نے کہا کہ میں نے گولیاں چلانا اس لیے بند کیں کہ گولی بارود کا ذخیرہ ختم ہو گیا تھا اور ہجوم بہت گنجان تھا۔ میں نے زخمیوں کو طبی امداد دینے یا انہیں وہاں سے اٹھانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ طبی امداد پہنچانا میرا فرض نہ تھا، یہ ایک طبی مسئلہ تھا۔ جونہی فائر بند ہوئے، میں واپس چلا گیا۔ وقتاً فوقتاً میں سپاہیوں کو فائر کرنے سے روک لیتا اور وہاں فائر کرنے کی ہدایت کرتا جہاں ہجوم بہت زیادہ ہوتا اور یہ میں نے اس لیے نہیں کیا کہ وہ تیزی سے بھاگ نہیں رہے تھے، بلکہ اس لیے کہ میں نے انہیں جلسہ منعقد کرنے کی سزا دینے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا۔

جنرل ایڈوائر کے حکم سے ایک تنگ گلی کو جو بہت سی گلیوں کو ملاتی تھی مخصوص کر کے حکم دیا اس گلی میں سے گزرنے والے پیٹ کے بل زمین پر رینگ کر گزریں۔ بعض گلیوں تک جانے کے لیے یہ واحد راستہ تھا، اس لیے بہت سے لوگوں کو وہاں سے رینگ کر گزرنا پڑتا۔ وہاں ایک طرف ٹکٹکی لگا دی گئی تھی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے۔ وہاں سے گزرنے کی کیفیت یہ تھی کہ چلنے والے پیٹ کے بل جاتے تھے اور بالکل رینگنے والے جانوروں کی طرح رینگا کرتے تھے۔ جہاں کسی نے گھٹنے کو ذرا اونچا کیا یا ذرا جھکایا وہیں بندوق کا کنڈھا رینگتے شخص کی پیٹھ پر پڑتا۔ لہٰذا یہ ساری حرکت پیٹ اور بانہوں کو ہلا ہلا کر کرنا پڑتی تھی۔ یہ حکم آٹھ روز تک جاری رہا۔

میاں فیروز دین آنریری مجسٹریٹ نے بیان کیا کہ جرنیل صاحب اور مسٹر پلومر کو کھڑے ہو کر سلام نہ کرنے کے جرم میں لوگوں کو بید لگائے جاتے تھے۔ جو سلام نہیں کرتے تھے ان کو بعض اوقات گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ اس وجہ سے لوگوں کو بید لگائے گئے۔ لوگ ایسے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ بہت سے تو تقریباً تمام دن کھڑے رہتے تاکہ ان سے کوئی غلطی نہ ہو اور وہ سزا سے بچے رہیں۔ میں نے ’’تقریباً تمام دن‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ لوگوں کو موٹر کی آواز سنتے ہی کھڑا ہونا پڑتا تھا، میں خود یہی کرتا تھا۔

وکلاء کو اسپیشل کانسٹیبل کے طور پر بھرتی کیا گیا اور ان سے کس طرز کی خدمت لی جاتی تھی، اس کے بارے میں امرتسر کے ایک عمر رسیدہ وکیل گھنسیا لال کا کہنا ہے کہ مقامی وکلاء کے ساتھ مجھ کو بھی اسپیشل کانسٹیبل کا کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ تقرر ۲۲ اپریل کو کیا گیا، جبکہ شہر میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اس تقرر کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ مجھے اس بڑھاپے میں قلیوں کی طرح کام کرنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ کرسیاں لے جانے، میزیں اٹھانے اور جلتی دھوپ میں شہر کے اندر گشت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پر جو گالیاں برسائی گئیں اور جو ذلتیں ہم کو اٹھانا پڑیں انہوں نے ہماری تکالیف میں بہت کچھ اضافہ کر دیا۔

لالہ مکند لال بھائیا وکیل ہائی کورٹ میونسپل کمشنر کا کہنا ہے کہ وکلاء کو بلا کر زمین پر بٹھایا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب ان کو دو شہر والوں کو ٹکٹکی سے بندھے بید لگتے دیکھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ ہمیں اس نظارہ کے لیے خاص طور پر حکم دیا گیا تھا۔ شام کے وقت تمام وکلاء کو ایک قطار میں کھڑا کیا گیا۔ لیفٹیننٹ نیومن کو ہمارا انچارج مقرر کیا گیا۔ اس لیفٹیننٹ نے ایک وکیل کو ٹھوکروں سے مارنے کی دھمکی دی۔ دن میں تین دفعہ حاضری دینے اور باقی دن شہر میں گشت کرنے کا حکم دیا گیا۔

غلام جیلانی ایک امام مسجد اور وثیقہ نویس ہے، اس پر جو تشدد کیا گیا، شاید اس سے زیادہ ہم نے کوئی تشدد نہیں سنا۔ اس کے متعلق گواہوں نے جو کچھ بیان کیا، اس کی تائید میاں فیروز دین آنریری مجسٹریٹ اور مسٹر غلام یاسین بیرسٹر نے بھی کی۔ حاجی شمس الدین زمیندار کا بیان ہے کہ پولیس والوں نے مولوی غلام جیلانی کی مقعد میں ایک چھڑی داخل کر دی اور اس کی حالت نہایت قابل رحم تھی۔ میں نے اس کا پیشاب پاخانہ نکلتے دیکھا ہے۔ ہم سب سے جو باہر کھڑے تھے پولیس والوں نے کہا کہ جو لوگ (پولیس کی مرضی کے مطابق) گواہی نہ دیں گے، ان سب کا یہی حال ہو گا۔

کٹڑہ شیر سنگھ کی مسماۃ بلوچن کا بیان ہے کہ مارشل لاء کے دنوں میں اوروں کے ساتھ میں بھی پکڑی گئی اور تھانے میں پہنچائی گئی۔ ہم سب کے ساتھ نہایت بے شرمی کا برتاؤ کیا گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ اپنا پاجامہ اتار دو۔ مجھے پولیس کے دباؤ کی وجہ سے پاجامہ اتار دینا پڑا۔ ایسا ہی برتاؤ میری بہن اقبالن کے ساتھ کیا گیا، اس سے سب پولیس والے ہنسنے لگے۔ ہمیں دس بجے گھر جانے کا حکم دیا گیا، لیکن پھر سویرے چھ بجے آنے کو کہا گیا۔ ایسا ہی پانچ دن ہوتا رہا۔ ہمارے اعضائے مخصوصہ میں چھڑیاں گھسیڑی جاتی تھیں، ہم سب کو بید لگائے جاتے تھے اور برابر گالیاں دی جاتی تھیں۔ اس کے بعد جب ہم نے روپے دیے تب ہماری خلاصی ہوئی۔

گوجرانوالہ کے سردار رگھبیر سنگھ نے بتایا کہ میری بزازی کی دکان بابا گوبند داس کے ٹھاکر دروازے کے بالمقابل ریلوے بازار میں ہے۔ میری دکان پر سلی سلائی قمیصیں اور کوٹ برائے فروخت تیار رہتے ہیں۔ مارشل لاء کے دنوں میں انگریز سپاہی میری دکان پر آئے، قمیصیں کھونٹیوں پر لٹک رہی تھیں۔ ایک نے ایک قمیص اور دوسرے نے دوسری قمیص کھینچ کر اتار لی۔ تیسرے نے بھی ایسا کیا، مگر قمیص نہ اتر سکی اور پھٹ گئی۔ وہ دو قمیصیں لے گئے اور قیمت ادا نہ کی۔ کسی آدمی نے بھی میری مدد نہ کی۔ سپاہیوں نے وردی پہن رکھی تھی اور ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں۔

وزیر آباد کے لالہ دیال چند میونسپل کمشنر نے بتایا کہ مارشل لاء کے دنوں میں جب ڈپٹی کمشنر وزیر آباد آیا، اس نے مجھ کو خصوصیت سے پوچھا کہ میں ۱۲ اپریل کی میٹنگ کا مکمل حال بتاؤں۔ دراصل ۱۲ اپریل کو وزیر آباد میں کوئی بھی میٹنگ نہیں ہوئی تھی، لیکن ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم ضرور ۱۲ اپریل کے جلسے کا حال معلوم کریں گے۔ اس پر پولیس نے تمام شہر کے حلوائیوں کو تھانہ پر بلایا۔ رات بھر ان کو وہاں رکھا گیا اور آنریبل راجہ اکرم اللہ خان نے ان کے یہ بیان لکھے کہ میرے مکان پر ۱۲ اپریل کو ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو اس سے قبل گرفتار ہو چکے تھے۔ اس میٹنگ میں حلوائیوں پر زور ڈالا جاتا رہا کہ وہ دکانیں بند کریں۔ جب اس قسم کے بیانات لکھے گئے تو مجھے شام کو تھانہ میں بلایا گیا کہ میں سچ سچ کہہ دوں۔ مگر یہ بات کہ میرے مکان پر کوئی میٹنگ ہوئی سرتاپا سفید جھوٹ تھی، میں نے صاف انکار کر دیا۔ جس پر مجھے اور لالہ بیلی رام کو گرفتار کر کے گوجرانوالہ جیل بھیج دیا گیا۔

یہ ہے وہ ’’تہذیب اور تمدن‘‘ جو ہمیں سکھانے کے لیے انگریز سات سمندر پار سے یہاں آئے تھے اور انہوں نے اس مہارت کے ساتھ یہ سب ہمیں پڑھایا کہ انگریزوں کو یہاں سے گئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا ہے، مگر ہماری قومی اور معاشرتی زندگی میں ہر طرف ابھی تک ایسی تہذیب و تمدن کی عملداری ہے اور ہم اپنی پولیس، انتظامیہ اور سیاسی قیادت میں سرتاپا مکمل طور پر سرایت کیے ہوئے ان جراثیم سے نجات حاصل کرنے میں کامیابی کی کوئی راہ نہیں پا رہے، جو جنرل مائیکل ایڈوائر اور اس کی ٹیم نے ہمارے معاشرتی وجود میں داخل کر دیے تھے۔

   
2016ء سے
Flag Counter