قادیانیوں کے پھیلائے دو مغالطوں کا جائزہ

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۶ اگست ۲۰۱۶ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قادیانی ہر دور میں مغالطوں سے کام لیتے آئے ہیں، مغالطہ دینا ان کا خاص فن ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ میری امت میں تیس اور ایک روایت کے مطابق ستر لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ اور ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جھوٹے مدعیانِ نبوت کے دو وصف بیان کیے ’’دجالون کذابون‘‘ کہ وہ دجل اور فریب سے کام لیں گے۔ جناب رسالت مآبؐ نے یہ بات آج سے چودہ سو سال پہلے فرما دی تھی۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جھوٹی نبوت کا کاروبار چلتا ہی اس طرح ہے کہ اس کا ایک پہیہ دجل ہوتا ہے اور دوسرا پہیہ جھوٹ ہوتا ہے۔ قادیانی شروع سے ہی مغالطوں سے اپنا کام چلاتے آ رہے ہیں اور آج بھی دو مغالطے عام طور پر دنیا بھر میں اور پاکستان میں دیے جا رہے ہیں۔

(۱) ایک مغالطہ قادیانی حضرات یہ دیتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جو دعویٰ کیا تھا وہ مستقل نبی ہونے کا نہیں تھا بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں امتی اور تابعدار نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باغی ہو کر ان کے مقابلے میں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ تابعداری میں حضورؐ کے امتی کی حیثیت سے نبوت کی بات کی ہے، اس لیے کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔

یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے اور لوگ بیچارے مغالطے کے شکار ہو جاتے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسی طرح کے امتی اور تابع نبی ہونے کا دعویٰ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسیلمہ کذاب نے بھی کیا تھا۔ مسیلمہ نے جناب نبی کریمؐ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور حضورؐ کے مقابلے پر نہیں آپؐ کی تابعداری میں امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ میں کچھ باتیں اس پر دلیل کے طور پر عرض کروں گا۔

اس کی سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب جب لوگوں سے اپنی نبوت کی بات کرتا تھا تو پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرواتا تھا اور بعد میں اپنی نبوت کا اقرار کرواتا تھا۔ روایات میں مذکور ہے کہ اس کے کلمہ میں پہلے ’’محمد رسول اللہ‘‘ تھا، اس کے بعد ’’مسیلمۃ رسول اللہ‘‘ تھا (نعوذ باللہ)۔ احادیث کے ذخیرے میں یہ روایت موجود ہے کہ اس کی اذان بھی اسی ترتیب سے تھی کہ اس میں پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار ہوتا تھا، اس کے بعد اس کی اپنی رسالت کی بات ہوتی تھی۔

اور مسیلمہ کذاب نے جناب نبی کریمؐ کو جو خط لکھا تھا، اس کا عنوان بھی یہ تھا ’’من مسیلمۃ رسول اللہ الیٰ محمد رسول اللہ‘‘۔ بخاری شریف میں مسیلمہ کذاب کا وہ خط موجود ہے، اس نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے اپنے خط میں یہ کہا تھا ’’انی اشرکت معک فی الامر‘‘ کہ مجھے آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہے۔ یعنی میں مستقل نبی نہیں ہوں بلکہ آپ کا شریک نبی ہوں۔ ’’ولکن قریشا قوما یعتدون‘‘ لیکن قریشی بڑے ضدی لوگ ہیں، دوسرے کا حق تسلیم نہیں کیا کرتے، اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہیں، لیکن میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک ہوں، آپ کا مقابل نہیں ہوں۔

مسیلمہ کذاب کی کی پیشکش بھی یہی تھی۔ وہ ایک موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں خود بھی آیا تھا، ون ٹو ون ملاقات ہوئی، مکالمہ ہوا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا جواب دیا۔ اس کی پیشکش یہ تھی کہ ایسا کریں کہ دو باتوں میں سے ایک بات طے کر دیں: (۱) اپنے بعد مجھے اپنا جانشین نامزد کر دیں۔ یہ لکھ دیں کہ جب تک آپؐ حیات ہیں آپؐ نبی ہیں، آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو میں آپ کا جانشین ہوں گا، تو مجھے کوئی اشکال نہیں ہے۔ (۲) اور اگر یہ بات منظور نہیں ہے تو تقسیم کر دیں ’’لنا وبر ولک مدر‘‘ پکی اینٹیں آپ کی، کچی اینٹیں میری۔ یعنی شہروں کے نبی آپ اور دیہات کا نبی میں۔ الغرض پیشکش اس کی یہی تھی کہ میں آپ کو مانتا ہوں اور آپ کا جانشین بننا چاہتا ہوں، آپ کے ساتھ کار نبوت میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔

حتیٰ کہ ختم نبوت کے پہلے شہید حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جن کو مسیلمہ نے قتل کیا، ان سے جب اقرار کروایا تو اس کی ترتیب بھی یہی تھی۔ حضرت حبیب بن زیدؓ کو مسیلمہ کے سامنے ایک مجرم کے طور پر پیش کیا گیا تو مسیلمہ نے پوچھا ’’اتشھد ان محمدا رسول اللہ؟‘‘ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں؟ انہوں نے فرمایا ’’اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ‘‘۔ ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے بعد مسیلمہ نے پوچھا ’’اتشھد انی رسول اللّٰہ؟‘‘ میرے بارے میں بھی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو اس صحابی رسولؐ نے بڑا عجیب جواب دیا۔ سادہ سا سوال تھا تو سادہ سا جواب بھی ہو سکتا تھا۔

سوال یہ تھا کہ کیا مجھے بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ تو سادہ سا جواب یہ تھا کہ نہیں مانتا۔ لیکن اتنے سے جواب سے اس نوجوان صحابی کے جذبات کی تسکین نہیں ہو رہی تھی، اس لیے حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ نے یہ جواب نہیں دیا، بلکہ جواب میں فرمایا ’’ان فی اذنی صمما عن سماع ما تقول’’۔ محاورے کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے کان یہ بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کے بعد کسی اور کی رسالت کی بات بھی ہو سکتی ہے۔ اس پر حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔

یہ سارے شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ آپؐ کو رسول اللہ تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی پیروی میں خود کو شریک اور معاون نبی کے طور پر پیش کیا تھا۔ اور مسیلمہ کا دعویٰ یہی تھا کہ وہ حضور نبی کریمؐ کا تابعدار، امتی، جانشین، ماتحت اور شریک نبی ہے۔ مسیلمہ کا دعویٰ بھی یہی تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ بھی یہی تھا۔

اس لیے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا اور سنتِ رسول یہی ہے کہ مدعی نبوت خواہ کیسا ہی ہو، امتی نبی کے نام سے آئے یا مستقل نبی کے نام سے آئے، نبی اور رسول کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے مسیلمہ کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا تو اس کے بعد بھی کسی اور کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث ہیں، ان میں سے صرف ایک اور حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ جناب نبی کریمؐ کی ختم نبوت کا مسئلہ بڑا حساس معاملہ ہے۔ خود حضور نبی کریمؐ اس معاملے میں کس قدر حساس تھے اور آپ کے اپنے احساسات و جذبات کیا تھے، اس پر ایک واقعہ عرض کروں گا۔ آپ حضرات اس حوالہ سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ کر لیں کہ کہیں تھوڑا سا اشتباہ بھی اگر ہوا، کہیں ابہام پیدا ہونے کا کوئی امکان ظاہر ہوا تو نبی اکرمؐ نے فوراً وہاں وضاحت کی۔

بخاری شریف سمیت حدیث کی تقریباً ساری کتابوں میں یہ واقعہ ہے کہ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو ایک مہینہ جانے کا سفر، ایک مہینہ واپسی کا سفر۔ اور پتہ نہیں وہاں کتنا وقت گزرنا تھا۔ چونکہ لمبا سفر تھا تو مدینہ منورہ کے انتظامات کے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں عمومی طور پر اپنا نائب حضرت عبد اللہ بن عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا، جبکہ خاندانی مسائل کے لیے حضورؐ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے پیچھے چھوڑا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ آپ ہمارے ساتھ نہیں جائیں گے بلکہ یہاں رہیں گے۔ حضرت علیؓ کو کوئی کہے کہ آپ میدان جنگ میں نہیں جائیں گے، گھر میں رہیں گے، تو یہ بات ہضم ہونے والی نہیں تھی کہ وہ تو آدمی ہی میدان کے تھے، حیدر کرار ہیں۔

چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پریشان ہوئے کہ عرب کی حدود سے باہر یہ پہلا معرکہ ہے اور میں اس میں شریک نہیں ہوں گا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے آپ چھوڑ کر جا رہے ہیں، میں گھر میں رہوں گا، جہاد میں نہیں جاؤں گا؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ہاں تم گھر میں رہو گے، جہاد میں نہیں جاؤ گے۔ حضرت علیؓ نے بے چینی سے عرض کیا یا رسول اللہ! خود آپ جہاد پر جا رہے ہیں اور مجھے بچوں میں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ حضورؐ کی اپنی حکمت تھی کہ پیچھے سارے معاملات کو نمٹانے کے لیے کوئی ذمہ دار آدمی ہونا چاہیے۔ حضرت علیؓ بار بار بے چینی اور اضطراب کا اظہار کر رہے تھے تو حضرت علیؓ کی بے چینی دیکھ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تسلی دینے کے لیے یہ الفاظ فرمائے: ’’اما ترضٰی أن تکون منّی بمنزلۃ ہارون من موسٰی’’۔ علی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرا اور تیرا وہی تعلق ہو جو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا تھا؟ کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے تھے تو پیچھے اپنا قائم مقام ہارون علیہ السلام کو بنا کر جاتے تھے اور میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ حضرت علیؓ یہ سن کر خاموش ہو گئے کہ یہ بڑے اعزاز اور بڑے فخر کی بات ہے، لیکن ساتھ ہی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جملہ بھی فرمایا۔

دیکھیں میں حضورؐ کی حساسیت کی بات کر رہا ہوں، یہ مسئلہ اس قدر حساس ہے کہ ذرا سا وہم ذہن میں پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ حضرت ہارون تو نبی تھے، تو حضورؐ نے فوراً ساتھ ہی فرما دیا ’’الا انہ لیس نبی بعدی‘‘ لیکن میرے بعد نبی کوئی نہیں ہوگا۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام پیغمبر تھے اور جناب نبی کریمؐ حضرت علیؓ کو حضرت ہارونؑ سے تشبیہ دے رہے ہیں، تو اس سے کسی درجے میں دل میں جو وہم آ سکتا ہے اس کو بھی حضورؐ نے گوارا نہیں کیا اور فوراً شبہ دور کرنے کے لیے ساتھ ہی وضاحت فرما دی کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں آئے گا۔

پہلی بات میں نے یہ عرض کی ہے کہ قادیانی عام طور پر یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تو امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، کون سی قیامت آ گئی تھی؟ تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مسیلمہ کذاب نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا تھا لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خلافت، نہ جانشینی، نہ دیہات کا نبی، نہ تابع نبی، نہ شریک نبی، کوئی بات بھی حضورؐ نے قبول نہیں فرمائی۔

جب مسیلمہ کذاب مدینہ منورہ آیا اور جناب نبی کریمؐ سے ملاقات ہوئی اور اس نے یہ پیشکش کی کہ مجھے اپنا جانشین نامزد کر دیں یا دیہات میرے حوالے کر دیں، تو اس پیشکش کے جواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتیں فرمائیں۔ ایک اصولی جواب تھا اور ایک عملی جواب تھا۔ اصولی بات تو یہ فرمائی کہ قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی ’’ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ‘‘ زمین کی وراثت اللہ کی ہے، وہ جسے چاہے دے۔ یعنی زمین تقسیم کرنا اللہ کا کام ہے، جانشین بنانا یا نہ بنانا اللہ کا کام ہے۔ یہ اصولی جواب تھا کہ یہ فیصلے اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، یہ میرے فیصلے نہیں ہیں۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ تم مجھ سے جانشینی مانگتے ہو، نبوت کی شراکت اور حصہ مانگتے ہو۔ آپؐ نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور فرمایا، یہ خشک لکڑی بھی مجھ سے مانگو گے تو میں تمہیں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

الغرض حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کا لفظ اپنے بعد کسی بھی حوالے سے ہو، اس کو قبول اور برداشت نہیں کیا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی برداشت نہیں کیا۔ اور جس کسی نے نبی ہونے کی بات کی تو وہ امت کے لیے بھی کسی دور میں قابل قبول نہیں رہا۔

(۲) قادیانیوں کا دوسرا مغالطہ پاکستان کے حوالے سے ہے۔ قادیانی دوسرا مغالطہ یہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے حقوق ہمیں نہیں دیے جا رہے، ہمارے مذہبی اور شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں اور ہم انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ اتنا بڑا پروپیگنڈا ہے کہ دنیا کے بہت سے ادارے اس سے متاثر کے ہو کر لٹھ لیے ہمارے پیچھے پھرتے ہیں کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں یہ مغالطہ بھی دور کرنا چاہتا ہوں۔

میرا قادیانیوں سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا تم پاکستان کے دستور کو مانتے ہو جسے پوری قوم مانتی ہے؟ قوم کا ہر طبقہ دستور کو مانتا ہے اور اسی کے مطابق ملک چل رہا ہے۔ اگر تم بھی پاکستان کے دستور کو مانتے ہو تو اس کے دائرے میں تمہارے جو حقوق ہیں ہم نے پہلے ان سے کبھی انکار نہیں کیا، آج بھی انکار نہیں ہے، اور کبھی انکار نہیں کریں گے ۔ دستور میں دیگر اقلیتوں کا، عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں کا جو سٹیٹس طے ہے، ہم نے کبھی انکار کیا۔ ہمیں اگر ہندوؤں کو حقوق دینے سے انکار نہیں ہے، سکھوں اور عیسائیوں کو حقوق دینے سے انکار نہیں ہے، تو تمہیں کیوں انکار کریں گے؟

سوال یہ ہے کہ دستور نے اپنے دائرہ کار میں تمہارے جو حقوق طے کیے ہیں، وہ ہم دینے سے انکار کر رہے ہیں؟ یا تم لینے سے انکار کر رہے ہو؟ یہ بات واضح ہونی چاہیے۔ ہم نے تو قادیانیوں کو ۱۹۷۴ء کے فیصلے کے بعد ان کی آبادی کے اعتبار سے دستور کے مطابق قومی اسمبلی کی سیٹ بھی دی تھی اور پنجاب اسمبلی میں سیٹ بھی دی تھی۔ بشیر طاہر صاحب ایم این اے رہے ہیں اور ایک قادیانی پنجاب اسمبلی کا ممبر بھی رہا ہے۔ دستور کے مطابق ان کا جو حق بنتا تھا وہ ہم نے دیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ حقوق کا تعین دستور کے دائرے میں ہوگا اور آبادی کے حساب سے ہو گا۔ اس کو لینے سے انکار قادیانیوں نے کیا ہوا ہے۔ ۱۹۷۴ء کے بعد سے آج تک قادیانیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، ووٹر لسٹوں میں نام لکھوانے سے اور مردم شکاری میں خود کو غیر مسلم تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ خود قادیانیوں دستور کے دیے ہوئے اسٹیٹس کو اور اس کے دیے ہوئے حقوق نہیں مانتے تو انکار ان طرف سے ہے، ہماری طرف سے نہیں ہے۔

ایک آدمی ملک میں آ کر رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں دستور کو تو نہیں مانتا لیکن مجھے حقوق دو۔ تو اسے کہا جائے گا کون سے حقوق؟ پہلے دستور کو تسلیم کرو اور دستور نے جو تمہاری جگہ رکھی ہے اس جگہ کو تسلیم کرو۔ یہ قیامت تک نہیں ہوگا کہ تم نہ پارلیمنٹ کا فیصلہ مانو، نہ دستور کا فیصلہ مانو، نہ امت کا فیصلہ مانو، نہ علماء کا فیصلہ مانو، اور نہ عدالت کا فیصلہ مانو، سارے فیصلے ٹھکراتے چلے جاؤ اور پھر جا کر شور مچاؤ کہ ہمیں حقوق نہیں مل رہے۔ جب تم کسی کی بات نہیں مان رہے تو حقوق کونسے دیں؟

ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم غیر مسلم اقلیت کا سٹیٹس قبول نہیں کرتے، ہمیں اکثریت والے حقوق چاہئیں۔ جھگڑا حقوق کا نہیں ہے، جھگڑا ٹائٹل کا ہے۔ بہرحال یہ قادیانیوں کا بہت بڑا فراڈ اور بہت بڑا مغالطہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے حقوق غصب ہو رہے ہیں اور اسی مغالطے پر وہ دنیا میں اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔ البتہ ہماری کمزوری یہ ہے کہ جہاں جہاں وہ کام کر رہے ہیں، ہم وہاں کام نہیں کر پا رہے۔

میں نے قادیانیوں کے دو بڑے مغالطے ذکر کیے ہیں: ایک مغالطہ مذہبی حوالے سے کہ مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہے، میں نے کہا کہ امتی نبی حضور نبی کریمؐ کے زمانے میں بھی تھا، اسے حضورؐ نے قبول نہیں کیا تھا۔ اور دوسرا مغالطہ حقوق کے حوالے سے دیتے ہیں، تو ہمیں حقوق دینے سے انکار نہیں ہے۔ دستور کو تسلیم کرو، پارلیمنٹ کے فیصلے کو تسلیم کرو، اس کے بعد جو تمہارے حقوق ہیں کسی ایک حق سے انکار کریں تو ہم مجرم ہیں۔ حقوق دینے سے ہم نے انکار نہیں کیا ہوا بلکہ تم نے لینے سے انکار کیا ہوا ہے۔ تمہاری ضد ہے کہ فیصلہ نہیں مان رہے اور چاہتے ہو کہ تمہیں وہ حقوق دیے جائیں جو اس ملک کی مسلم اکثریت کے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter