اسلام کا تصورِ جہاد

   
۱۴ مارچ ۲۰۰۴ء

جہاد کے حوالے سے ایک اور مسئلہ بھی مختلف حضرات کے لیے ذہنی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے کہ یہ مذہب اور عقیدہ کے لیے طاقت کا استعمال ہے، جبکہ عقیدہ کے لیے طاقت کا استعمال اب دنیا میں متروک ہو چکا ہے۔ آج کی دنیا میں رائے، عقیدہ اور مذہب کی آزادی کو جو مقام حاصل ہے اس کی رو سے عقیدہ اور مذہب کے لیے طاقت کا استعمال انسان کی آزادئ رائے کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے جہاد کا یہ تصور کہ اسلام کی سربلندی کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے، یا کفر کو زیر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ہو، آج کی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

یہ الجھن آج کی نہیں بلکہ اس وقت سے لوگوں کے ذہنوں میں چلی آ رہی ہے جب فرانس کے انقلاب اور یورپ میں جمہوریتوں کے قیام کے بعد مذہب کو اجتماعی اور معاشرتی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا، اور مذہب و عقیدہ کو فرد کا شخصی معاملہ قرار دے کر اجتماعی، قومی اور معاشرتی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق کو برقرار رکھنے سے انکار کر دیا گیا۔ ورنہ اس سے قبل یہی یورپ اور مغرب مذہب کے لیے طاقت کا بے تحاشا استعمال کرتے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں مذہب کی بالادستی کا جذبہ کارفرما تھا۔ لاکھوں یہودیوں کے قتلِ عام کا محرک بھی مذہب کی برتری کا جنون ہی تھا۔ اور سینکڑوں سائنسدانوں بلکہ سائنس اور کائنات کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق و انکشاف سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دانشوروں کو دی جانے والی سزاؤں اور اذیتوں کا باعث بھی مذہبی اقدار اور روایات کا تحفظ تھا۔ مذہب کے تحفظ کے اسی جذبے نے مذہب کی برتری کا پرچم اٹھانے والے بادشاہوں اور جاگیرداروں کو صدیوں تک شیلٹر مہیا کیے رکھا۔

اس کے ردعمل میں جب یورپ نے مذہب کا طوق قومی زندگی کی گردن سے اتارا اور اسے چرچ کی چار دیواری تک محدود کرنے کا اعلان کیا تو مذہب ایک ذاتی مسئلہ بن کر رہ گیا، اور اس کے لیے ہتھیار کی طاقت یا ریاستی قوت کا استعمال ممنوع قرار پا گیا۔ الجھن کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یورپ نے صدیوں اپنے مذہب اور مذہبی طبقوں سے جو اذیت اٹھائی، اس کے ردعمل میں اس نے اپنے مذہب کے ساتھ اسلام کو بھی اسی کھاتے میں شمار کر کے اسے بھی وہی سزا دینا چاہی جو اس نے اپنے مذہب کے لیے طے کی تھی۔ حالانکہ اسلام ان میں کسی ایک قصور کا بھی سزاوار نہیں ہے، جس کے نتیجے میں یورپ کو مذہب سے لاتعلقی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو یورپ میں مذہب کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف اسلام نے ہمیشہ اصلاح پسندوں کا ساتھ دیا ہے۔ اور یہ اصلاح پسندی یورپ کے دانشوروں نے مسلم اندلس کی دانشگاہوں سے ہی سیکھی ہے۔ لیکن یورپ اپنے مذہب کی چیرہ دستیوں کے خلاف بغاوت کے باوجود صلیبی جنگوں کے ذہنی اور نفسیاتی پس منظر سے پیچھا نہ چھڑا سکا، اور اس نے طے کر لیا کہ اگر مسیحی مذہب انسانی معاشرے میں اجتماعی قیادت اور معاشرتی رہنمائی کی پوزیشن میں نہیں رہا تو اسلام کو بھی میدان میں نہ رہنے دیا جائے۔ چنانچہ اسلام کے خلاف مغرب کی موجودہ فکری اور ثقافتی جنگ اسی نفسیاتی کیفیت کی پیداوار ہے جس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اسلام میں جہاد کا تصور انسانیت کے لیے اُن اعلیٰ اقدار کی برتری کا تصور ہے جو آسمانی تعلیمات پر مبنی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں، اور وحی الٰہی کے مکمل ترین ذخیرہ کی اساس پر قائم ہیں۔ قرآن کریم نے خود کو تورات اور انجیل کے مقابل کے طور پر نہیں بلکہ ان کے مصدق اور تکمیل کنندہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ آسمانی مذاہب کی نفی کرنے کی بجائے ان کے موید اور ان کی تعلیمات کی تکمیل و تصدیق کی صورت میں نسلِ انسانی کو اپنا پیغام دیا ہے۔ اس لیے اسلام کے بارے میں یہ تصور ہی غلط ہے کہ وہ آسمانی مذاہب کا حریف اور مقابل ہے، بلکہ نسلِ انسانی اسلام کا پیغام قبول کر کے ملی نجات اور فلاح کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔

اسلام نے جہاد کی صورت میں اس پیغام کو قبول کرنے کے لیے جبر کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ (البقرہ ۲۵۶) کا اصولی اطلاق کر کے اقوام و افراد کے لیے راستہ کھلا چھوڑا ہے کہ اگر وہ اسلام کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے تو ان کی مرضی ہے، اور ان پر کسی قسم کا جبر اور دباؤ نہیں ہے، البتہ انہیں اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، اور دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ اور بالادستی میں مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اپنے لیے اسلام کو بے شک قبول نہ کریں، لیکن انہیں اسلام کا یہ حق تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ دنیا میں آگے بڑھے، نسلِ انسان میں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کرے، اور جس نظام کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی سوسائٹی کی مشکلات و مسائل کا واحد حل ہے، اسے انسانی سوسائٹی میں رائج و نافذ کرنے کے لیے پیش قدمی کرے۔

اسلام کے اس استحقاق کی راہ میں مزاحم ہونے والوں کے ساتھ جہاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور جہاد کا مطلب لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی مسلمانوں کے طاقت کے زور پر لوگوں کو مسلمان بنایا ہے۔ لیکن اسلام کی پیشرفت میں مزاحم ہونے والے افراد و اقوام کے خلاف اسلام نے ضرور جنگ لڑی ہے، اور یہی جہاد کا مفہوم و مقصد ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے جانے والے لشکروں اور کمانڈروں کو یہی ہدایات دی ہیں کہ پہلے اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں کہا جائے کہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی معاشرتی بالادستی قبول کریں۔ اس صورت میں ان کے جان و مال، آبرو اور مذہب کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جنگ کی جائے۔

مگر جب یورپ نے مذہب سے بغاوت و انحراف کے بعد اسلام کے اس موقف اور عمل پر اعتراض کیا کہ یہ مذہب کے لیے طاقت کا استعمال ہوا ہے، اور مغرب کے بقول آزادئ مذہب کے منافی ہے، تو ہمارے بعض دانشوروں نے بھی مغرب کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھے بغیر اور اسلام کے خلاف اس کے معاندانہ کردار کا ادراک کیے بغیر جہاد کے بارے میں مدافعانہ نقطۂ نظر اختیار کیا۔ اور مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے جہاد کی نئی تعبیرات و تشریحات کا دروازہ کھول دیا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی تعبیر و تشریح جہاد کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمودار ہو جاتی ہے۔

مگر ہمارے نزدیک اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ جو مغرب آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے طاقت کے استعمال کو تو ناروا اور ناجائز قرار دے رہا ہے، اس نے خود انسانوں کے بنائے ہوئے نظام اور سسٹم کی بالادستی کے لیے طاقت کے استعمال کو جائز قرار دے رکھا ہے، اور اسے بین الاقوامی قانون کی حیثیت دی ہوئی ہے۔ مغرب آج مروجہ بین الاقوامی نظام کی بالادستی اور اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ اس نے افغانستان کی طالبان حکومت کو اس لیے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے ختم کیا کہ اس کے خیال میں طالبان کی حکومت عالمی تہذیب کے لیے خطرہ بن چکی تھی اور مغرب کے فلسفہ و نظام کے لیے چیلنج بن گئی تھی۔ اس نے عراق کے خلاف طاقت کا استعمال اس عنوان سے کیا کہ وہ امریکہ کے بقول ہتھیاروں پر کنٹرول کے بین الاقوامی قوانین کی پابندی قبول نہیں کر رہا۔ اور اب عرب بادشاہتوں کو صرف اس لیے تہہ تیغ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ وہ مغرب کے سیاسی نظام سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

سوال یہ ہے کہ مغرب کا یہ نظام، یہ بین الاقوامی سسٹم، یہ عالمی قوانین، اور یہ مغربی تہذیب کس کی بنائی ہوئی ہے؟ یہ اقوام متحدہ اور اس کا نظام و قانون کس کا تشکیل کردہ ہے؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ اور ان کے قوانین و نظام دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے تشکیل کردہ ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا ادارہ، اس کے تمام تر ذیلی شعبے، اس کا سسٹم اور اس کے قوانین و ضوابط صرف اور صرف ان فاتحین کی سیاسی، عسکری، معاشی اور ثقافتی بالادستی کے مقاصد و اہداف کے گرد گھومتے ہیں۔ اور اس کے لیے طاقت کے استعمال کو باقاعدہ بین الاقوامی قانون کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ہمارا مغرب سے سوال یہ ہے کہ اگر اس کے بنائے ہوئے یکطرفہ اور معاندانہ فلسفۂ نظام کے لیے طاقت کا استعمال جائز ہے، تو آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی پر مبنی نظام کی بالادستی کے لیے طاقت کا استعمال آخر کیوں ناجائز ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter